راہل کو فلموں کے علاوہ نوٹنکی دیکھنی چاہیے۔ کیسے بولتے بولتے رویا جاتا ہے۔ کیسے چیخا جاتا ہے۔ کیسے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ نوٹنکی بہت کام کی چیز ہے۔
راہل گاندھی فلم دیکھنے چلے گئے۔ اگر یہ بھی بحث ومباحثے کا موضوع ہے تو میری آپ سے درخواست ٹھیک ہے کہ پلیزخود کو بچائے رکھنے کے لئے آپ نیوز چینل دیکھنا بند کر دیں۔ میرا ایک خواب ہے۔ ایک رتھ بناؤں اور بھارت یاترا پر نکل جاؤں۔ گاؤں گاؤں جاکر خطاب کروں کہ آپ نیوز چینل مت دیکھو۔حکومت کی چاپلوسی کرنی ہے آپ خود کرو، ان اینکر وں کی معرفت مت کرو۔ ڈائریکٹ بےنیفٹ ٹرانسفر کا زمانہ ہے۔ ثالثی بنکر یہ اینکر آپ کا حصہ کھا رہے ہیں۔ دس سال بعد آپ یاد کریںگے کہ کوئی اس پیشے میں رہتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ٹی وی مت دیکھو۔ میں یہ بات 2010 سے کہہ رہا ہوں۔
بندر اینکر اور لفندر ترجمان آپ کی ہر قسم کی سمجھ کا ستییا ناش کر دیںگے۔ ان کا کتنا اور کب تک تجزیہ کرتے رہیںگے۔ کچھ لوگ تو چرسی کی طرح لکھتے رہتے ہیں کہ ٹی وی یہ دکھایا، ٹی وی وہ دکھایا۔ ارے بھائی اس میں کچھ نہیں ہے دیکھنے کے لئے۔ جب حکومت کی ’چرن پادوکا‘ ہی رکھکر اینکرنگ کرنی ہے تو اس سے اچھا ہے کہ آپ عوام اس کا فائدہ لیجئے۔ یہ نیوز چینل کیوں ثالثی بنے ہوئے ہیں؟
لیڈروں کا تعلق فلموں سے رہا ہے۔ ڈاکٹر راجیندر پرساد کی پہل پر ہی پہلی بار بھوجپوری میں فلم بنی تھی۔ جنوبی ہندوستان میں تو فلم اسٹار نے اپنی پارٹی بنائی اور حکومت چلائی۔ شمالی ہندوستان میں فلموں سے کئی لوگ رکن پارلیامنٹ بنے ہیں۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں سے۔ رامائن سیریل کے اسٹار کاسٹ تو ابھی بھی بی جے پی کے دفتر میں جیتکے جشن میں دکھ جاتے ہیں۔ فلمی دنیا سے شتروگھن سنہا نے بی جے پی کو شروعاتی دور میں حمایت دی تھی تب جب بہت لوگ بی جے پی سے دوری بناتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ شتروگھن سنہا کی خدمات آج بی جے پی بھول چکی ہے۔
اٹل جی بھی خوب سینما دیکھتے تھے۔ اڈوانی تو مشہور ہی ہیں۔ اروند کیجریوال بھی اپنی ٹیم کے ساتھ سینما دیکھنے جایا کرتے تھے۔ شیلا دیکشت بھی فلمیں دیکھتی تھیں۔ انوپم کھیر، کرن کھیر، پریش راول، ونود کھنہ، راجیش کھنہ، ہیما مالنی یہ سب فلموں سے ہی ہیں۔راہل گاندھی کو سب صلاح دیتے ہیں۔ ان کو صدر بنکر کیا کرنا چاہیے۔ ہارنے کے بعد نہانا چاہیے یا نہیں۔ باہر نکلتے وقت کون سا کرتا پہننا چاہیے۔ ویسے ایک صلاح میں بھی راہل کو دے دیتا ہوں۔ نیوز چینل دیکھنا بند کر دیں۔ لگتا ہے راہل نے میری صلاح سے پہلے ہی نیوز چینل دیکھنا بند کر دیا ہے۔
راہل کو فلموں کے علاوہ نوٹنکی دیکھنی چاہیے۔ کیسے بولتے بولتے رویا جاتا ہے۔ کیسے چیخا جاتا ہے۔ کیسے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ نوٹنکی بہت کام کی چیز ہے۔ ان کو لیڈر بنا سکتی ہے۔ فلم دیکھنے سے اینکر لیڈر بنےگا۔ نوٹنکی سیکھنے سے وہ خود لیڈر بن سکتے ہیں۔آپ لوگ صحافت کی فکر نہ کریں۔ کسی بھی حکومت کا تجزیہ اس کے دور میں میڈیا کی آزادی سے کیاجانا چاہیے۔ عوام کے جانے کتنے مدعے ہیں۔ ہمارے پاس تو وسائل نہیں ہیں لیکن جن کے پاس ٹی آر پی ہے، وسائل ہے وہ کس لئے ہے۔ کیا اس پر بحث ومباحثہ کرنے کے لئے ہے کہ راہل گاندھی فلم دیکھنے چلے گئے۔ کہیں گودی میڈیا کو اس بات کا ڈر تو نہیں کہ فلم دیکھتے دیکھتے راہل کو فرضی ڈائیلاگ بولنا آ گیا تو کیا ہوگا۔
ہے گودی میڈیا، ذرا گود سے اترو بھی۔ آنگن سونا پڑا ہے۔ ٹھمک ٹھمک کر چلو بھی۔ کب تک گود سے چپکے رہوگے۔
Categories: فکر و نظر