مہا راشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کی 1975 میں جب تشکیل ہوئی تھی تب اس کے اسٹاف ممبران کی تعداد بارہ تھی، اس دوران یکے بعد دیگرے اسٹاف ممبران ریٹائر ہوتے گئے، لیکن ان کی جگہ کوئی نئی بھرتی نہیں ہوئی۔
ممبئی : مہاراشٹر حکو مت نے اقلیتوں کے معاملات میں گویا کہ آنکھیں بند کرلی ہیں ، اور اسے اقلیتی امو ر سے کوئی زیادہ دلچسپی باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ یہ وہ تاثر ہے جس کو اکثر ذمہ دار مسلمان مہا راشٹر اور اقلیتوں کے معاملات پر غوروفکر کے بعد ظاہر ہورہے ہیں۔ اس تاثر کی ایک وجہ نہیں کئی وجو ہات ہیں۔ اقلیتوں کی فلاح وبہبو د کے لئے وزیر اعظم کے 15نکا تی پر وگرام کے تحت جو ادارے قائم ہوئے ہیں ۔ ان کے متعلق حکومت مہا راشٹر کا رویہ متعصب ہے۔ اسلئے بہت سے مسلم لیڈ ان بی جے پی کی مہاراشٹر سرکا ر پر یہ الزام بھی عائد کر رہے ہیں ، کہ اس نے اقلیتوں کے متعلق سوتیلا رویہ قائم کیا ہے۔ اقلیتوں کی فلا ح وبہبود کے لئے جو ادارے قائم ہیں، ان کی موجو دہ حالت پر ایک نظر ڈالتے چلیں ۔ تو صورتحال خو د بخود واضح ہوجاتی ہے۔
مولانا آزاد مالیاتی کارپوریشن:وزیر اعظم کے اقلیتی وصغیر کے 15نکاتی اسکیم کے نفاد کے لئے ایک اہم ادارہ مولانا آزاد مالیاتی کارپوریشن ہے۔ اس ادارہ کا مقصد اقلیتی طبقات کے افراد کو کاروبار وتعلیم کے لئے قرض فراہم کرناہے ۔ جب سے مہاراشٹر میں بی جے پی سرکا ر قائم ہوئی ہے ۔ اس ادارے کا نہ تو کوئی چیئر مین مقرر کیاگیا ہے۔ اور نہ ہی کسی ڈائر کٹر کا تقرر ہو اہے۔ سچر کمیٹی جو اقلیتوں کی اقتصادی ترقی کے لئے منظور کی گئی ہیں ان کے نفاد کے لئے یہ ایک اہم ادارہ ہے ۔ چیئر مین وڈائر کٹرس کی تقرری نہیں ہونے او راسٹاف میں فعال افسران کے فقدان کی وجہ سے یہ ادارہ بحران او ر تعطل کا شکا ر ہے۔حکو مت دیگر اقلیتی امور کے علاوہ مولانا آزاد کا رپوریشن کو بھی فعال کرنے کے وعدے تو کر تی ہے ۔لیکن آج تک اس سلسلے میں کوئی ٹھو س قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔
مہا راشٹر اسٹیٹ مائینارٹی کمیشن: 2014 میں مہا راشٹر میں برسراقتدار ہونے کے بعد بی جے پی حکومت مہاراشٹر اسٹیٹ مائینارٹی کمیشن کے چیئر مین کے عہدے پر محمد حسین خان عرف امیر صاحب کا تقرر کیا تھا۔ مہا راشٹر اسٹیٹ مائینارٹی کمیشن کو سول عدالت کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے چیئر مین کو وزیر مملکت کا درجہ دیا گیاہے۔ کمیشن اقلیتوں کے حقوق کی پاسبانی کا ذمہ دار ہے، کمیشن میں چیئر مین اور دس ممبران کا تقرر ہونا چاہئے تھا، لیکن مہا راشٹر سرکا ر نے صرف چیئرمین کا تقرر کیا تھا، مہا راشٹر اسٹیٹ مائینارٹی کمیشن کی تاریخ میں پہلی بار یہ واقعہ ہوا کہ حکو مت نے ایک جی آر کے ذریعہ چیئرمین کو برطرف کردیا، اس کے بعد سے آج تک مہا راشٹر اسٹیٹ مائینارٹی کمیشن کے چیئرمین کا عہدہ خالی ہے۔ دس ممبران کی جگہ بھی خالی ہے۔ مہاراشٹر اقلیتی کمیشن کا سالانہ بجٹ ایک کروڑ روپئے ہے۔ کمیشن کی نگرانی میں کئی اسکیمیں نافذ کی جاتی ہیں ۔ سب سے اہم سرگرمی کمیشن کی یہ ہے کہ وہ اقلیتوں کی شکایات کی سماعت کرتاہے اور سرکاری محکمو ں کو ان شکایات پر ہدایات جاری کرتاہے ۔ مائینارٹی کمیشن ایکٹ کے تحت جاری یہ کا م کا ج بھی چیئر مین اور ممبران کے نہیں ہونےکے سبب ٹھپ ہے۔
مہاراشٹر اسٹیٹ وقف بورڈ: مہا راشٹر میں ایک لاکھ ایکڑوقف املاک ہیں ۔ ان املاک کا نگراں ادارہ مہاراشٹر اسٹیٹ وقف بورڈ ہے۔ یہ ادارہ انتہائی خراب حالت میں ہے ۔ اس کی ذمہ داری جہاں حکومت مہاراشٹر پرہے۔ وہیں اس بورڈ کے ممبران وعہدیداران پر بھی بد نظمی اور بدحالی کے لئے قصور وار ٹہرائے جاتے ہیں، وقف بورڈ مفاد پرست طاقتوں کی رساکشی اور اکھاڑ پچھا ڑ کا میدان بن چکاہے۔ اور حکومت کی دلچسپی اس ادارے کے سدھا ر میں کم سے کم دکھائی دے رہی ہے اسلئے وقف بورڈ کے حالات سدھر نہیں رہے ہیں ۔ وقف بورڈ کے کچھ ممبرا کی سرگرمیاں بھی ناپسندیدہ اور مشکوک ہیں ۔ وقف بورڈ کے عہدیداران اور ممبران کے آپسی خلفشار ،اختلافات اور تنازعات بھی عروج پر ہیں، جس کی وجہ سے وقف بورڈ کی کا رکردگی متاثر ہورہی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکو مت کے پاس کوئی موثر پلان نہیں ہے۔
وقف بورڈ کے چیف ایکزیکٹیو افسر کے طورپر ایک کل وقتی عہدیداران درکاہے ۔ لیکن بی جے پی سرکار کے ساڑھے تین سال کے دور میں قلیل وقت کے لئے کل وقتی سی ای اونصیب نہیں ہوا ۔ یہ حیرت انگیز بات ہے۔ اس ساڑھے تین سال مدت میں وقف بور ڈ کے معاملات زیادہ تر عارضی یا کارگزار سی ای او کے ذریعے کئے جارہے ہیں۔ حکومت نے نسیمہ بانو پٹیل نامی ایک جونیئر خاتون افسر کو جو اورنگ آباد کے ریو نیو ڈپارٹمنٹ کی سپر نٹنڈنٹ تھی، کا رگزار سی ای او بنایاتھا جبکہ وقف قانون کے مطابق مہاراشٹر ایڈمنسٹر یٹوسروس کے ڈپٹی سیکریڑی سطح کے کسی مسلم افسر یا اسکے مساوی مرتبہ کےمسلم افسر کو وقف بورڈ کا سی ای او بنانا چاہئے ۔ اس قانو ن پر کم عمل ہو رہا ہے۔ یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ مہاراشٹر میں سرگرم وقف لینڈ مافیا کی ایک طاقت ور مستقل اور ایماندار سی ای او کی تقرری میں رکاوٹیں پیداکر تی ہے۔ اس لاپی کی یہ کو شش ہوتی ہے کہ ایسے افسران کا بطور سی ای او یا عارضی کارگزار سی ای او تقرر کیاجائے ، جو ان کے مفادات کو ٹھیس نہیں پہنچائے اور وقف املاک کی جو لوٹ مار جاری ہے ۔ اس کا سلسلہ قائم رہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اب حکو مت مہاراشٹر کے ایڈ منسٹر یٹو سروس میں ڈپٹی سیکریڑی او ر اس سے اعلیٰ درجہ پر فائز مسلم افسران بہت کم رہ گئے ہیں ۔ اس میں سے کئی افسران ایسے ہیں جو مہاراشٹر اسٹیٹ وقف بورڈ کے اندرونی حالات سے واقف ہیں اور ان حالات میں وہ کام کرنا نہیں چاہتے۔ اس لئے وہ سی ای او کے عہدے کے لئے درخواست نہیں دیتے ہیں اور نہ ہی یہاں کام کرنے کے خواہش مندہیں۔ اہل مسلم افسران کی کمی اور عوام دلچسپی کیوجہ سے انتظامیہ نے مہاراشٹر جو ڈیشیل سروس سے بھی رجوع کیا تھا۔ ماضی میں 2سی ای او ایسے مقر ر کئے گئے جو مہا راشٹر جوڈیشیل سروس سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ ایک طبقہ نے مہاراشٹر اسٹیٹ وقف بورڈ میں جو ڈیشیل افسروں کی تقرری کی بھی مخالفت کی تھی۔ اور یہاں کے حالات سے جو ڈیشیل لیڈ ر کے افسران بھی بدد ل ہوئے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ آج مہا راشٹر کی جو ڈیشیل سروس کا بھی کو ئی افسر وقف بورڈ کا سی ای او بننے کیلئے آمادہ نہیں ہے۔ اب حکو مت کے پاس یہ راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ کسی سینئرمسلم آئی پی ایس افسر کا تقرر وقف بورڈ سی ای او کے طورپر کیاجائے۔ مہاراشٹر میں اسپیشل انسپکٹر جنرل آف پولس کے عہدے پر قیصرخالد مقرر ہیں۔چونکہ وقف بورڈ کے سی ای او کے تقرر کےلئے صرف مسلمان افسر ہی ہونا لازمی نہیں بلکہ اس کااردوداں ہونا بھی ضروری ہے اور آئی جی پی قیصر اردوداں بھی ہیں اسلئے ان کا تقرر وقف بو رڈ کے سی ای او کے طورپر کیا جاسکتا ہے ۔ ہر یانہ ،پنجاب ،کرناٹک ،تلنگانہ اور دیگر کئی ریا ستوں میں وقف بورڈ کے معاملات کو سدھا رنے کے لئے سی ای او کے طورپر ریاستی لیڈ ر کے کسی مسلم ، اردوداں آپی پی ایس افسر کے تقرر کی مثالیں دستیاب ہیں۔
بہرحال مہاراشٹر سرکار جو اقلیتی اداروں کے سدھار میں زیادہ دلچسپی لیتے دکھا ئی نہیں دی رہی ہے اس لئے یہا ں جو موجو د ہے کو ئی مسلم افسر جو سی ای او کے عہدے کے لئے اہل ہیں یہاں کا م کرنے سے صاف انکا ر کردیتا ہے ، اسلئے حکومت کے پاس کوئی اور راستہ ہیں ہے کہ کارگزار اور عارضی سی ای او کے ذریعے وقف بورڈ کا کام چلایاجائے۔ فی الحال منترالیہ میں اقلیتی ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی سیکریڑی سندیش تڑوی کو مہاراشٹر اسٹیٹ وقف بورڈکا عارضی گارگزار سی ای اور بتایا گیاہے۔ منترالیہ میں اقلیتی ڈپارٹمنٹ کے اہم امو ر کے بعد چونکہ یہ عہدہ ان کے لئے عارضی اور کارگزار ہے اسلئے وہ مہاراشٹر بھرمیں واقع ایک لاکھ ایکڑ وقف املاک کے معاملات کی دیکھ بھال کسی طرح کرسکتے ہیں ۔ یہ بات کو بخوبی سمجھی جاسکتی ہے ۔ وقف بورڈکے متعلق تمام شکایات بھی گویا ان کےکانو ں تک پہنچ کر لوٹ جاتی ہے۔ اس لئے وقف بو رڈ کے معاملات بھی ریاستی حکو مت کی سرد مہری کا ایک ثبوت قرار دیئے جارہے ہیں ۔
مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی: حکومت مہاراشٹر نے گیارہ سرکاری ممبران پر مشتمل مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی قائم کی تھی، جس کے ایگزیکیٹیو چیئرمین عبدالرؤ ف خان کا انتقال ہوگیا ، لیکن اس کے ایک سال سے زائد عرصہ بعد بھی کوئی نیا ایگزیکیٹیو چیئرمین مقرر نہیں کیا گیاہے۔ اردو اکیڈمی کی کارکردگی مسلسل تنقید کا نشانہ بنی ہے۔ مذکورہ اردو اکیڈمی نے 2برس قبل جلگاؤ ں ،بھساول میں تین روزہ اردو میلہ منعقد کیاتھا، ا س پر 26لاکھ روپئے خرچ ہوئے صرف 3دن کے اردو میلہ میں 26 لاکھ روپوں کے اخراجات پر کئی حلقوں سے تنقید ہوئی تھی، مہا راشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی نے انعامات کاجو اعلان کیا۔ وہ بھی تنازعات کا شکا ر ہو ا امسال اردو اکیڈمی کے ممبران سے انعامات کے فیصلے کا اختیارات لے لیا گیا اور انعامات کے لئے ایک خصوصی کمیٹی بتائی گئی۔ اس کمیٹی نے انعامات کے فیصلےکئے، لیکن کچھ حلقوں نے ان فیصلوں پر بھی نکتہ چینی کی۔
مہا راشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کی 1975 میں جب تشکیل ہوئی تھی تب اس کے اسٹاف ممبران کی تعداد بارہ تھی، اس دوران یکے بعد دیگرے اسٹاف ممبران ریٹائر ہوتے گئے، لیکن ان کی جگہ کوئی نئی بھرتی نہیں ہوئی۔ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے ممبران اور عہدیداران آخر کس قد ر کارگر ہیں ، یا ماضی میں بھی موثر رہے ہیں ، اس کا اندازہ اس بات سے کیاجاسکتا کے کہ گزشتہ 30برسوں میں سے ممبران اور عہدیداران مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی میں ایک کلرک اور ایک پیو ن کی بھی نئی بھرتی نہیں کرواسکے۔ 1975میں جو نئی بھر تی خاص طور پر مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کےلئے کی گئی تھی اس میں ایگزیکیٹیو افسر ۔ ایڈمیٹر امکان اور اردو کلرک کی اسامیاں خاص طورپر قابل ذکر تھیں۔ لیکن ان کی جگہ بھی آج تک نئی بھر تی نہیں ہوئی ہے۔ آج اردو اکیڈمی میں گنتی بھر اسٹاف باقی رہ گیاہے۔ یہ اسٹاف بھی مائینارٹی ویلفیئر ڈپارٹمنٹ ، جی اے اور دیگر محکموں سے سرکاری ملازمین کواردو اکیڈمی میں ٹرانسفر کرکے فراہم کیا گیاہے ۔ جب کہ اردو اکیڈمی کے لئے خاص طورپر کوئی بھر تی برسہا برس بعد بھی نہیں ہوئی ہے۔ اردو اکیڈمی کی جو بری حالت ہے اس سے بھی حکمراں لاتعلق ہیں، وقف بورڈ کی طرح اردو اکیڈمی کی خراب صورتحا ل کیلئے صرف حکومت ہی نہیں، اکیڈمی کے ممبران بھی برابر کے ذمہ دار ہیں، لیکن اس حالت کے سدھار کیلئے حکومت جو کچھ کرسکتی ہے، وہ کام نہیں کیا جارہاہے۔
(بہ شکریہ ممبئی اردو نیوز)
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ