ادبستان

غالب اور غم روزگار: غم عشق اگر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا

’غالب کی شاعری میں زندگی کے بہت سارے رنگ ہیں جن میں ایک رنگ وہ بھی ہے جنہیں عام طور پر ناقدین نظر انداز کرتے رہے ہیں اور وہ ہے عوامی دردوکرب کا رنگ جسے غالب نے اپنی شخصی زندگی کے تجربوں کے حوالے سے شاعری میں ڈھالا ہے۔‘

Art by Khwaab Tanha Collective

Art by Khwaab Tanha Collective

بڑا ذہن زمانے میں قید نہیں ہوتا۔وہ زمانی مکانی حدود کو توڑ تے ہوئے ایسے مقام پر پہنچ جاتاہے ،جسے مشخص کرنے کے لیے ایک نئی کائنات تخلیق کرنی پڑتی ہے۔ایسا ذہن رسم و رہ عام سے کوئی رشتہ نہیں رکھتا۔اس کے اپنے افکار واقدار ہوتے ہیں، مرزا اسد اللہ خاں غالب عندلیب گلشن ناآفریدہ تھے کہ انہیں اپنے زمانے کے احساس واظہار میں ایک طرح کی اجنبیت اور مغائرت محسوس ہوتی تھی، مگر ہر بڑے ذہن کے ساتھ کچھ ایسی مشکلات ، مسائل ، مصائب اور حوادث جڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ذہن کی خارجی اور داخلی پرواز تھم سی جاتی ہے۔غالب کے تخیل کی پرواز تو نہیں رکی اور وہ دشت امکان کو نقش پا سمجھتے رہے مگرغموں کے ساتھ غالب کی زندگی کا کچھ ایسا رشتہ جڑ گیا کہ وہ قید غم سے آخری سانس تک نجات حاصل نہ کرسکے :

قیدحیات وبند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

غالب کی جان سے بہت سے ایسے غم جڑ گئے تھے کہ انھیں اس طرح کے شعر کہنے پر مجبور ہونا پڑا:

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں

سوز غم ہائے نہانی اورہے

دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں رلائے کیوں

اور یہ غم فطری تھا کہ غالب دراصل بہت سی اذیتوں اور آزار سے گزررہے تھے ۔7سال کی عمر میں والدین کا انتقال ،13سال کی عمر میں شادی ،پھر کفالت کرنے والے چچا نصراللہ بیگ کا ارتحال اور اس کے بعد ایک اور ایسا مرحلہ آیا جس نے غالب کے پورے وجود کو ہی چکنا چور کردیا۔ جس کی وجہ سے غالب اپنی شکست کی آواز بن کر رہ گئے ۔غالب کی اصل ذہنی پریشانی کا آغاز اس ’’خفیہ شقہ‘‘ کی وجہ سے ہواجو نواب احمد بخش نے لارڈلیک سے حاصل کیاتھا جس کے نتیجے میں غالب کی سالانہ پنشن صرف ساڑھے 700روپے تک محدود ہوگئی تھی۔غالب کے تمام ذہنی اور معاشی مشکلوں کی جڑ یہی پنشن تھی جس کی واگزاری کے لیے وہ کلکتہ تک گئے، مقدمے لڑے ،مگر غالب کو کامیابی نہیں ملی۔یہی معاشی پریشانی غالب کی زندگی کے لیے عذاب بن گئی اور غدر نے غالب کے ذہنی سکون کو اور بھی غارت کردیا۔غالب کو احساس تھا کہ 1857کی مسلح مزاحمت سے معاشرت پر منفی اثرات پڑیں گے ۔ انہوں نے اس مزاحمت کے منفی رخ کو محسوس کرلیاتھا اسی لیے انہوں نے حریت پسند سپاہیوں کو شہدے ، کمینے ، نمک حرام تک کہنے سے بھی گریز نہیں کیااور انگریزوں کو آزاداں ، نیک نہاداں ،شیر مرداں تک کہا۔

ویڈیو:غالب کےحضور میں اقبال

 غالب کے آئینہ ادراک میں یہ بات روشن ہوگئی تھی کہ یہ مزاحمت مسلمانوں پر قیامت بن کر ٹوٹے گی۔معاشرتی آداب واطوار اور جینے کے سلیقے کو متاثرکرے گی۔چنانچہ وہی ہوا جو غالب نے سوچا تھا۔ پوری قوم معاشی تنگدستی کی شکار ہوگئی، اغنیااور امرا کے ازواج واولاد بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے،مزاحمت نے پورے معاشی نظام کو متاثر کیا ،تنگدستی اور مفلسی بڑے بڑے دروازوں پر دستک دینے لگی، حالات ایسے ہوگئے کہ روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لالے پڑگئے۔1857کی مزاحمت سے غالب کی زندگی بھی متاثر ہوئی ،انہوں نے عیش ونشاط کے جو خواب دیکھے تھے وہ سب چکنا چور ہوگئے۔ان کی آرزوئیں اور تمنائیں ملیا میٹ ہوگئیں:

دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنائیں اسد

جانتے ہیں سینہ پر خوں کو زنداں خانہ ہم

 غالب کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معاش کا تھا ۔ غدر نے معاش کی ساری راہیں مسدود کردی تھیں۔اسی لیے غالب اس مزاحمت اور بغاوت سے نہ صرف دور رہے بلکہ مزاحمت کرنے والوں کی شدید مخالفت بھی کی ۔غالب غم روزگار کی حقیقت سے آشنا تھے، انہیں احساس تھا کہ معاشی تنگدستی انسان کو مجبور اور مصلحت پسند بنادیتی ہے ، انسان کی اڑان اور حوصلوں کو توڑ دیتی ہے اور اسے بے حیثیت بنادیتی ہے۔مفلسی صرف آدمی کا اعتبار نہیں کھوتی بلکہ بہاریں بھی چھین لیتی ہے۔اسی لیے غالب نے ایک عام آدمی کی طرح مادی اور معاشی کرب کو محسوس کیا اور اپنی شاعری میں غم روزگار کو اپنے خیال کا پیرہن عطا کیا:

جاتی نہیں خلش الم روزگار کی

اے آسماں ہواوہ تیرا انقلاب کیا

نذر درد دل غم دنیاکیا

اک مٹایا داغ اک پیدا کیا

اسیر بند دل ہوکر غم دنیا سے فارغ ہوں

میری آزادیوں کا راز ہے مہجور ہوجانا

پیداہوئے ہیں ہم اس الم آباد جہاں میں

فرسودن پائے ہوس ودست طلب کو

غالب مادیت پرست تھے کہ مادیت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ معاش اور معیشت سے ہی پورا نظام قائم ہے مادیت سے رشتہ توڑ کر زندہ رہنا ممکن ہی نہیں ہے۔اسی لیے غالب نے انسان کی اس بنیادی ضرورت پر زور ڈالا اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس طرح کے شعر کہے :

ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسد

ہم نے یہ مانا کہ دہلی میں رہیں کھائیں گے کیا

مزہ جہاں کا اپنی نظر میں خاک نہیں

سوائے خون جگر سوجگر میں خاک نہیں

معاشی مجبوری انسان کے نہ صرف ذہنی نظام کو بدل دیتی ہے بلکہ حساس وجود کو لخت لخت کردیتی ہے۔ غالب کی شاعری میں جو تضادات اور تناقضات ہیں اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ غالب ہمیشہ معاشی تنگدستی کے شکار رہے۔ ان کی پوری زندگی کرایہ کے کمرے میں گزری،انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے ’’اس ناداری کے زمانے میں جس قدر کپڑا اوڑھنا بچھونا گھر میں تھا بیچ کر کھاگیا،گویا اور لوگ روٹی کھاتے تھے اور میں کپڑا کھاتاتھا۔‘‘
بڑے فنکاروں کی زندگی میں درد کے پیوندلگتے ہی رہتے ہیں۔غالب کی زندگی بھی اسی درد سے گزررہی تھی۔اس لیے غالب نے خطوط میں اپنے اس درد کا بغیر کسی تکلف کے اظہار کیا ۔ایک خط میں لکھتے ہیں :

ایک پیسے کی آمدنہیں بیس آدمی روٹی کھانے والے موجود

مقام معلوم سے کچھ آئے جاتاہے جوبقدر سد رمق ہے

ایک اور خط میں اسی طرح اپنی معاشی تنگدستی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’پندرہ دن پہلے تک دن کو روٹی ،رات کو شراب ملتی تھی، اب صرف روٹی ملے جاتی ہے شراب نہیں۔‘‘ایک اور خط میں لکھا ہے کہ ’’روٹی کھانے کو نہیں ، شراب پینے کو نہیں ، جاڑے آتے ہیں لحاف توشک کی فکر ہے ۔‘‘
غالب کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ خواص کے شاعر تھے ،عوام سے ان کا رشتہ نہیں تھا ، مگر ایسا سوچنا غلط ہے کیونکہ غالب اپنی زندگی میں عام آدمیوں جیسے تجربوں سے گزرے تھے اور ان تجربوں کو انہوں نے اپنی شاعری اور نثر کے ذریعہ شیئر کیا ۔ایک جگہ لکھاہے کہ ’’وہ عزت وربط وضبط جو ہم رئیس زادوں کا تھا اب کہاں ،روٹی کا ٹکڑا ہی مل جائے تو غنیمت ہے۔‘‘

عام آدمی کی طرح غالب کے لیے بھی معاش کا مسئلہ ا ن کی زندگی میں بڑی اہمیت کاحامل تھا۔ اسی لیے جب غالب داخل حوالات ہوئے تو ایک شعر کہا:

شادم از بند کہ از بند معاش آزادم

از کف شحنہ رسد جامہ ونانم دربند

(قید سے خوش ہوں کہ قید معاش سے بری کردیااب مجھے روٹی ،کپڑا داروغۂ جیل پہنچاتاہے)غالب نے اسی معاشی تنگدستی کی وجہ سے اپنے ممدوح بھی بدلے اور ممدوح سے معاوضہ طلبی میں بھی کسی تکلف سے کام نہیں لیا۔چنانچہ انہوں نے ایک قصیدے میں حسن طلب کااظہار کرہی دیا اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی قبیح عمل نہیں کہ انسان اپنے ہنر کا صلہ طلب کرے۔ذہنی ،توانائی جب خرچ ہو تو اس کے لیے اس طرح کے مطالبے کو خوشامد کہنا صحیح نہیں ہے۔ خاص طور پر غالب جیسے حالات سے دوچار لوگوں کے لیے یہ خوشامد نہیں حاجت ہے۔ غالب نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا :
’’زندہ ہوں مگر زندگی وبال ہے ،یہاں جان کے لالے پڑے ہیں‘‘۔ اسی طرح ایک اور خط میں لکھا ہے ’’جیوں تو کوئی غم خوار نہیں ،مروں توکوئی عزادار نہیں۔‘‘
اسی تناظر میں غالب کے یہ اشعار دیکھئے جو بادشاہ کے حضور میں ماہ تنخواہ کے تعلق سے کہے ہیں:

نہ کہوں آپ سے تو کس سے کہوں

مدعائے ضروری الاظہار

پیر و مرشد اگر چہ مجھ کو نہیں

 ذوق آر ایش سرو، دستار

کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر

تانہ دے باد زمہر یر آزار

کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش

جسم رکھتا ہوں ہے اگر چہ نزار

کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال

کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار

رات کو آگ اور دن کو دھوپ

بھاڑمیں جائیں ایسے لیل ونہار

آگ تاپے کہاں تلک انساں

دھوپ کھائے کہاں تلک جاندار

دھوپ کی تابش آگ کی گرمی

ربنا وقنا عذاب النار

میری تنخواہ جو مقرر ہے

اس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار

بس کہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض

اور رہتی ہے سود کی تکرار

میری تنخواہ میں تہائی کا

ہوگیا ہے شریک ساہوکار

آپ کا بندہ اور پھروں ننگا

آپ کا نوکر اور کھاؤں ادھار

میری تنخواہ کیجئے ماہ بہ ماہ

تانہ ہو مجھ کو زندگی دشوار

غالب کے ساتھ معاشی دشواریاں یوں بھی لاحق تھیں کہ وہ خاصے فراخ دل تھے ، کہتے ہیں کہ کوئی فقیر مرزا کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں جاتاتھا، وہ اپنے عزا واقربا کا خاص خیال رکھتے تھے۔معاشی مجبوری کے باوجود نوکروں کو ملازمت سے برخاست نہیں کیا۔غالب کی نجی زندگی سب کے لیے سبق آموزہے ۔غالب نے بڑی اچھی بات کہی تھی :

غم عشق اگر نہ ہوتا،غم روزگار ہوتا

اسی غم روزگار نے غالب کی شاعری کو ہمارے عہد کے احساس سے جوڑ دیاہے، کیونکہ عالم کاری، لامرکزیت کے اس عہد میں بہت کچھ تبدیلیوں کے باوجود انسان کے بنیادی مسائل وہی ہیں۔نیوکلیائی ٹیکنالوجی ، حیاتی ، مائیکروٹیکنالوجی سے بھی نہ تو انسان کی بنیادی تقدیر بدلی ہے اور نہ ہی بنیادی سروکار۔وسائل کے بڑھنے سے مسائل کم نہیں ہوتے۔21ویں صدی کے انسان کی زندگی سے وہی مسائل جڑے ہوئے ہیں، جو 18ویں ،19ویں اور 20ویں صدی کے انسانوں کے تھے۔غالب کے شعر وں میں آج کی صدی کا انسان بھی اپنے جذبے اور احساس کا چہرہ دیکھ سکتاہے۔غالب کی شاعری وہ کہانی ہے جسے ہم معاشرے کے شب وروز میں دیکھتے سنتے آئے ہیں۔ فکری سطح پر غالب کا رشتہ اشرافیہ طبقے سے ہے ، مگر معاشی سطح پر غالب کی حیثیت ہمارے آج کے عہد کے عام آدمی کی سی تھی۔وہی آدمی جو آج بھی حاشیے پر کھڑا ہے اور بہ زبان غالب کہہ رہاہے:

تیرا اقبال ترحم مرے جینے کی نوید

تیراانداز تغافل مرے مرنے کی دلیل

نیک ہوتی میری حالت تو نہ دیتا تکلیف

جمع ہوتی مری خاطر تو نہ کرتا تعجیل

قبلہ کونِ مکاں خستہ نوازی میں یہ دیر

کعبہ امن و اماں عقدہ کشائی میں یہ ڈھیل

غالب خاک نشیں کو خود بھی احساس تھا:

اور میں وہ ہوں کہ گر جی میں کبھی غور کروں

غیر کیا خود مجھے نفرت میری اوقات سے ہے

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیاہے

غالب وظیفہ خوار ہو دوشاہ کو دعا

وہ دن گئے کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

تمام اذیتوں اور معاشی مجبوریوں کے باوجود غالب انا پرست تھے اور ان کے اندر مسلمات پر کاری ضرب کی جرأت بھی تھی۔غالب جیسا شاعر ہی اس طرح کے جرأت مندانہ شعر کہہ سکتاتھا:

بندگی میں وہ آزاد وہ خود بیں ہیں کہ ہم

الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

طاعت میں تار ہے نہ مئے وانگبیں کی لاگ

دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

غالب ایک بڑے تخلیقی ذہن کا نام تھا جس نے جبر اور ادعائیت کے خلاف آواز بھی بلند کی، ان کی شاعری میں زندگی کے بہت سارے رنگ ہیں جن میں ایک رنگ وہ بھی ہے جنہیں عام طور پر ناقدین نظر انداز کرتے رہے ہیں اور وہ ہے عوامی دردوکرب کا رنگ جسے غالب نے اپنی شخصی زندگی کے تجربوں کے حوالے سے شاعری میں ڈھالا ہے۔اس طرح غالب نے خواص کے ساتھ عوام سے بھی خاصی گفتگو کی ہے۔ضرورت ہے کہ غالب کے اس پہلو پر بھی غور کیا جائے اور ان کی مجتہدانہ فکر کے ساتھ ساتھ ان کے شعروں میں عوامی جذبہ واحساس کی جستجو کی جائے ۔پروفیسر گوپی چند نارنگ نے غالب پر لکھتے ہوئے بہت ہی اہم بات لکھی ہے کہ ’’غالب کی جدلیاتی فکر 21ویں صدی کے مابعد جدید مزاج سے خاص مناسبت رکھتی ہے۔‘‘

یہ مضمون 27دسمبر 2017کو شائع کیا گیا تھا۔