فکر و نظر

کیا 2جی معاملہ اب بی جے پی کے جی کا جنجال بننے والا ہے؟

اگر سی بی آئی اور اس کے وکیل ہائی کورٹ میں لیڈروں اور کاروباریوں کے درمیان سانٹھ۔گانٹھ کو ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو 2019 کے عام انتخاب میں بی جے پی کو کچھ بڑے سوالوں کا سامنا کرنا پڑے‌گا۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

اس سال پہلے بھی یہ خیال کہیں نہ کہیں لوگوں کے ذہن میں آیا تھا کہ 2جی مقدمہ میں کچھ گڑبڑی ہو رہی ہے۔ مجھے یاد ہے، میں نے ایک ٹوئٹ کیا تھا کہ 2جی کیس کا نتیجہ 2019 میں ایک اہم انتخابی موضوع بن سکتا ہے۔ میرے ذہن میں آئے اس خیال کی بنیاد بس یہ  بات تھی کہ 2014 کے عام انتخاب میں اہم انتخابی موضوع بننے والے  معاملے کی سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے ذریعے کی جا رہی روزانہ کی سماعت کو ختم ہونے میں چھ سال کا طویل وقت نہیں لگنا چاہیے۔ اس سے یہ شک پیدا ہوتا تھا کہ سماعت کے عمل میں کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔

حال ہی میں میرا شک تب اور مضبوط ہو گیا جب وزیر اعظم نریندر مودی چنئی گئے اور وہاں انہوں نے کافی گرمجوشی سے ڈی ایم کے صدرکروناندھی کو سلام کیا اور ان کی فیملی کے سارے لوگوں سے ملاقات بھی کی، جس میں 2جی معاملے کے کچھ ملزم بھی شامل تھے۔غور طلب ہے کہ مودی کی یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب مقدمہ کی سماعت پوری ہو چکی تھی اور 2جی معاملے میں فیصلے کو دسمبر کے لئے محفوظ رکھا گیا تھا۔ تقریباً اسی وقت، دی وائر نے انل امبانی کے پورے بیان کو شائع کیا، جو استغاثہ کے اہم گواہ تھے۔جن سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ ریلائنس ٹیلی کام کے سینئر افسروں کے ذریعے بنائی گئی کچھ شیل کمپنیوں اور اور ڈی ایم کے فیملی ممبروں کی ملکیت والی کچھ کمپنیوں کے درمیان کی سانٹھ گانٹھ کو اجاگر کرنے میں سی بی آئی کی مدد کریں‌گے۔

لیکن، امبانی کو اپنے بیان میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کہنا تھا کہ ان کو ان کی ٹاپ منیجمنٹ ٹیم کے ذریعے بنائی گئی مختلف کمپنیوں کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں ہے، جبکہ انہوں نے اجلاس کے کاغذات اور دوسرے سرکاری دستاویزوں پر دستخط کرنے کی بات قبول کی۔ اس کے رد عمل میں جج اوپی سینی کو ایک بار کہنا پڑا تھا، ‘ آپ کچھ زیادہ ہی بھول رہے ہیں۔ کچھ یاد کرنے کی کوشش کیجئے۔ ‘

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

سماعت کے ابتدائی مرحلے میں سرکاری وکیل یو یو للت، جو اب سپریم کورٹ کے جج ہیں، نے کھلی عدالت میں یہ تبصرہ کیا تھا کہ کسی بھی سوال کا جواب نہ دےکر امبانی نے استغاثہ  کے ساتھ عدم تعاون کیا ہے۔ سی بی آئی نے اس وقت امبانی کوہوسٹائل وٹنیس اعلان کرنے کی بھی مانگ کی تھی۔اس پس منظر میں یہ قطعی حیران کرنے والا نہیں ہے کہ جج سینی نے سی بی آئی اور استغاثہ کے عمل کی کافی کڑے الفاظ میں ملامت کی ہے۔ سینی نے یہ صاف طور پر کہا کہ ابتدائی مرحلے میں استغاثہ’ کافی جوش اور جذبے’ سے بھرا ہوا تھا۔ لیکن، بعد میں جاکر یہ پوری طرح سے گمراہ اور تذبذب کا شکار ہو گیا۔

جج نے یہ تو کہا ہی کہ سی بی آئی کوئی ثبوت پیش کرنے میں پوری طرح سے ناکام رہی، انہوں نے یہ بھی اشارہ  کیا ہے کہ سی بی آئی کی استغاثہ جماعت کے ممبروں یکجہتینہیں تھی۔ جج کا صاف طور پر یہ کہنا ہے کہ سی بی آئی کی استغاثہ جماعت نے ایک کی مرتب اور منظم رائے یا نقطہ نظر کونہیں اپنایا۔استغاثہ کرنے والی ٹیم میں شامل ایک سینئرممبر نے مضمون نگار کو بتایا کہ اس مقدمہ کے بیچ میں سی بی آئی کی طرف سے مقرر ایک سینئر وکیل کو ہٹا بھی دیا گیا تھا اور اس کے خلاف محکمہ جاتی تفتیش بٹھا دی گئی تھی۔ یعنی کہیں نہ کہیں کچھ مشکوک  چل رہا تھا، جس کے بارے میں مودی حکومت کو یقینی طور پر جواب دینا چاہیے۔

جج کا کہنا ہے کہ ایک دور ایسا بھی آیا جب سی بی آئی کی استغاثہ جماعت کی تحریری پیش کش  سے محکمہ ہی پلّہ جھاڑنے لگا-ان پر کوئی بھی سینئر ممبر دستخط نہیں کر رہا تھا۔ ان دستاویزوں پر کافی نیچے کے رینک والے ایک سی بی آئی انسپکٹر کا دستخط تھا۔یہ جج کے ذریعے اٹھائے گئے کچھ بےحد سنجیدہ سوالات ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ ہائی کورٹ ان کی تفتیش کرے‌گا، جہاں اپنی بگڑی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے سی بی آئی نے اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کیا مودی حکومت واقعی بدعنوانی سے لڑنے کے لئے سنجیدہ ہے؟

اس بیچ میڈیا کی بحث 2جی گھوٹالہ کی سیاست کی طرف مڑ گئی ہے، جس میں کانگریس کو لگتا ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں اس کا فریق صحیح ثابت ہوا ہے۔ اپنی جھینپ مٹانے کے لئے حکمراں جماعت نے اپیل دائر کرانے میں چستی دکھائی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حال تک این ڈی اے حکومت میں اٹارنی جنرل رہے مکل روہتگی، جو ارون جیٹلی کے کافی قریبی دوست بھی ہیں، نے اس فیصلے کو اپنی حمایت دی ہے اور کافی مضبوطی کے ساتھ کہا ہے کہ پالیسی کے متعلق غلطیوں کو جرم کے زمرہ میں نہیں رکھا جانا چاہیے۔

روہتگی نے کہا کہ یہ ان کا ذاتی خیال ہے۔ یہاں یہ یاد کیا جا سکتا ہے کہ این ڈی اے کے اقتدار میں آنے سے پہلے وہ 2جی مقدمہ میں انل امبانی گروپ کی کمپنیوں کا بچاؤ کر رہے تھے۔ اس حقیقت کو ایک وکیل کے ذریعے دی جانے والی خدمات کا نام دےکر آسانی سے درگزر کیا جا سکتا ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ جب بات سیاست اور کارپوریٹ کے درمیان سانٹھ۔گانٹھ کی آتی ہے، تو چیزیں کس طرح اندر ہی اندر، پرت در پرت جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔جج نے پی ایم او کے رویے پر بھی غور کیا ہے اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کو کلین چٹ دی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ پی ایم او کے دو اعلیٰ افسروں، ٹی کے اے نائر اور پُلک چٹرجی نے اس وقت کے ٹیلی کام وزیر اے۔ راجا کے کچھ خط وکتابت کو وزیر اعظم کی جانکاری سے دور رکھا۔

PTI

PTI

جج سینی کا کہنا ہے کہ راجا سازش کا محور نہیں تھے، جیسا کہ سی بی آئی کی چارج شیٹ میں کہا گیا تھا۔ آخر میں جج کو مجرمانہ سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس لئے سی بی آئی کے مقدمہ کو برقرار نہیں رکھا گیا۔ اس کے بعد سینی کہتے ہیں کہ چونکہ سی بی آئی کے خاص مقدمہ میں ہی کوئی مجرمانہ عمل ثابت نہیں ہو رہا ہے، اس لئے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے ذریعے دائر دوسرا معاملہ بھی چلائے جانے کے لائق نہیں ہے۔

یہ معاملہ انل امبانی کے ذریعے پرموٹیڈ سوان ٹیلی کام پرائیویٹ لمیٹڈ سے 200 کروڑ روپے شاہد بلوا کی کمپنی ڈائنیمِکس ریئلٹی اور وہاں سے کوسےگاوں فروٹس اینڈ ویجیٹیبلس لمیٹڈ سے سینےیُگ فلمس پرائیویٹ لمیٹڈ اور آخرکار ڈی ایم کے فیملی کی ملکیت والی کلائ گنار ٹی وی تک جانے سے متعلق ہے۔ یہی پیسہ یعنی 200 کروڑ روپے اسی راستے سے سفر کرتے ہوئے پھر ڈائنیمکس ریئلٹی تک پہنچ جاتا ہے۔حالانکہ، ای۔ڈی نے سوان ٹیلی کام اور کلائی گنار ٹی وی تک کئی کمپنیوں کے درمیان سانٹھ۔گانٹھ ثابت کرنے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن سی بی آئی جج نے اس بنیاد پر اس پر غور نہیں کیا چونکہ اصل مقدمہ میں سی بی آئی کے ذریعے مجرمانہ سازش کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے مختلف کمپنیوں کے ذریعے 200 کروڑ روپے کے یہاں سے وہاں جانے کو ‘ مجرمانہ عمل ‘ نہیں مانا جا سکتا۔

سی بی آئی اور ای۔ڈی کو دہلی ہائی کورٹ میں اپنی اپیل کے تحت یہی بات ثابت کرنی ہوگی۔ مجرمانہ سازش سے جنم لینے والی ‘ مجرمانہ حصولیابی ‘ یا رشوت-کو ثبوت کے ساتھ ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔2جی معاملے کے دو حصے تھے۔ ایک، یو پی اے حکومت کے مختلف لیڈروں کے ذریعے مشورہ دیے جانے کے باوجود نیلامی نہ کرنے کی پالیسی سے متعلق غلطی کی تھی۔ سپریم کورٹ کے ذریعے تمام لائسنس کو منسوخ کرکے اور ان کی نیلامی کراکر اس غلطی کو درست کیا جا چکا ہے۔اس لئے سی بی آئی اور ای۔ڈی پر مجرمانہ عمل اور رشوت خوری کو ثابت کرنے کی ذمہ داری تھی۔ لیکن سی بی آئی اور استغاثہ  ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ فیصلے کی زبان  اپنے آپ میں تفتیشی ایجنسیوں کو کٹہرےمیں کھڑا کرنے والا ہے۔

اگر سی بی آئی اور اس کے وکیل ہائی کورٹ میں سیاستدانوں اور کاروباریوں کے درمیان سانٹھ۔گانٹھ کو ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو 2019 کے الیکشن میں بی جے پی کو کچھ سنگین سوالوں کا مقابلہ کرنا پڑے‌گا۔ ابتک کی ٹی وی بحثوں میں بی جے پی نے 2جی کا استعمال کانگریس کو چت کرنے کے لئے کیا ہے۔ لیکن، اس پوائنٹ سے آگے بد عنوانی پر حملہ کرنے کا مودی کا دعویٰ ہر کسی کو کھوکھلا نظر آئے‌گا۔اگر جج سینی کو یہ لگا کہ سی بی آئی اور اس کے وکیل ‘ گمراہ اور تذبذب  کا شکار تھے، تو اس کے پیچھے یقیناً کوئی وجہ ہوگی۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب 2جی معاملے میں مقدمہ کےسامنا کر رہا ایک ملزم جب ہندوستان کے سب سے بڑے کاروباری گروپوں میں سے ایک کا پرموٹر ہو اور اس کو غیرملکی دورے پر وزیر اعظم کے ساتھ سفر کرنے کی خاص اجازت دی جاتی ہے، تو اس سے جانچ ایجنسیوں  کو کیا پیغام جاتا ہے؟ 2019 تک بی جے پی کو ایسے کئی سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔