اس وقت تو سب سے بڑا سوال بھروسے کا ہی ہے۔ ویسے، ڈاکٹر ایماندار ہو اور اس پر بھروسا ہو تو کڑوی سے کڑوی دوا آسانی سے پی جا سکتی ہے۔
کیا سارے سماجی دکھوں کا صرف اور صرف ایک علاج ہے کہ ایک اور نیا قانون بنا دیا جائے؟ ویسے ہر پریشانی کے لئے نئے قانون کی بات کرنا یا اس کا خیال بہت انقلابی لگتا ہے۔ مگر ایک اور نیا قانون زندگی کی پیچیدگیوں کا حل دے ہی دےگا، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ اب ایک بار میں تین طلاق ختم کرنے کے نام پر نیا قانون بنایا جا چکا ہے۔مگر نئے قانون سے پہلے یہ دیکھنا نہایت ضروری ہے کہ کیا بیماری کے علاج کے سارے موجودہ تدابیر ناکام ، بیکار یا بے اثر ہو گئے ہیں؟ تو کیا یہ تدبیر مسلمان عورتوں کے دکھوں کا علاج کر دےگی؟ اور کیا جو تدابیر پہلے سے ہیں، ان کا کارگر استعمال کیا گیا ہے؟
مہینوں گرماگرم بحث اور سماجی و سیاسی کشیدگی کے درمیان، اسی سال اگست میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے ایک مجلس کی طلاق (طلاقِ بدعت) کو خارج کر دیا تھا۔ حالانکہ وہ یہ کام دوسرے طریقے سے 15 سال پہلے بھی کر چکا تھا۔ یعنی قانونی اعتبار سے اس طرح کا طلاق اب ہمارے ملک میں بےمعنی ہے۔ یہ نافذ نہیں ہوگا۔پھر اچانک چند دنوں سے اس طرح کی طلاق کو روکنے کے لئے ایک قانون کا ذکر شروع ہو گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ کورٹ کے فیصلے کے بعد ایسی طلاق رکی نہیں ہیں، اس لئے سخت قانون ضروری ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ یہ مسلمان عورتوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے کیا جا رہا ہے۔توسوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ طلاق کا کوئی نیا قانون مسلمان عورتوں کی فکر کوختم کر دے گا ؟ کیا یہ نیا قانون مسلمان عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی گارنٹی کر دےگا؟ مگر اس سوال تک پہنچنے سے پہلے کچھ اور باتیں ضروری ہیں۔
ویڈیو : کیا طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دیے جانے سے مسلمان عورتوں کو فائدہ ہوگا؟
ہم اس طرح کے طلاق کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟
ہمارے موجودہ سماج میں آج بھی زیادہ تر لڑکیوں کی زندگی کوشادی سے ہی جوڑ کر دیکھا جاتا ہے ۔ اس شادی کے نتیجے میں اولاد کی پرورش و پرداخت بھی عورت کی ہی ذمہ داری مانی جاتی ہے۔شوہر کے گھر میں اس کے پاس اپنا کہنے، اس پر حق جتانے اور حق کا استعمال کرنے کے لئے بہت کچھ نہیں رہتا ہے۔ یہاں تک کہ شادی کے ساتھ ہی میکہ پر بھی اس کا حق ختم مان لیا جاتا ہے۔اسی واسطے سے طلاق شدہ/ بیوہ جیسے لفظ ہمارے سماج میں عورتوں کے لئے داغدار اور عیب دار مانے جاتے ہیں۔ عورت کی یہ شادی شدہ سماجی حالت ان پر ایک نہیں بلکہ کئی مصیبتوں کی وجہ بنتی ہیں۔ ہمارے ملک کے ہر مذہب کی عورتوں کی زندگی کا یہ کڑوا سچ ہے۔
اس کے لئے اپنی اور اپنی اولاد کی زندگی گزربسر مشکل ہو جاتی ہے۔ کل ملا کر وہ سب کے لئے ان چاہی ادھیربن میں لٹک جاتی ہے۔ایک مجلس میں دیا جانے والا طلاق من مانا بھی ہے۔ یکطرفہ بھی ہے۔ اس لیے غیرانسانی ہے۔ خاتون مخالف ہے۔ انصاف اور مساوات کے مذہبی اصول کے سخت خلاف ہے۔ یہ رشتے میں غیرمساوات پیدا کرنے والا ہے اور تشدد کی وجہ ہے۔ اس لیے اس کا ختم ہونا ضروری ہے۔ مگر اس کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ضروری ہے عزت سے زندگی جینے کی عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی گارنٹی۔
تو مردوں کے جیل جانے سے عورتوں کو باعزت زندگی مل جائےگی۔اب سوال ہے، اگر کسی شوہر نامی مرد نے ایک ساتھ تین طلاق دے دیا اور خبر کے مطابق، نئے قانون کے تحت اس کو سزا ہو گئی تو کیا اس سے خاتون کو عزت سے زندگی جینے کا حق مل جائےگا؟ وہ بے گھر اور بےسہارا نہیں ہوگی؟ اس کی اولاد سڑک پر نہیں آئےگی؟جیسے ہی خاندانی معاملہ دیوانی سے نکل کر فوجداری مقدمہ بنتا ہے، عام طور پر وہ رشتہ ٹوٹنے کی طرف ہی بڑھتا ہے۔ اسی لئے عام طور پر خاندانی معاملوں میں صلاح و مشورہ ، بات چیت، جھگڑے کی حالت میں ثالثی کی بات کی جاتی ہے۔ اسلام بھی رشتے کو پوری طرح ختم کرنے سے پہلے بات چیت کے عمل پر زور دیتا ہے۔
سزا کا مدعا تو مجرمانہ معاملوں میں آتا ہے۔ سوچنے والی بات ہے کہ اگر ایک مجلس کے تین طلاق کا معاملہ مجرمانہ دائرے میں آ گیا تو وہ رشتہ جڑا رہےگا یا ٹوٹےگا؟یہی نہیں، اس میں تو کئی اور ایجنسیوں کی دخل اندازی بڑھ جائےگی۔ جیسے پولیس۔
مگر کیا طلاقِ بدعت دونوں کو ہمیشہ کے لئے الگ کر دے گی۔طلاق اور طلاقِ بدعت کے معاملے میں سزا کی پوری سوچ ہی غلط فہمی سے بھری ہے۔ اس کا ہمارے سماج اور خاص طور پر عورتوں کی زندگیوں کی زمینی حقیقت سے کم ہی واسطہ لگتا ہے۔ ایک مجلس کی تین طلاق کو جرم بنانے اور اس کے لئے سزا تجویز کرنے کا مطلب کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ مان لینا نہیں ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق بولنے سے طلاق موثر ہو گیا؟ مرد عورتمیں اب نکاح کا قرار ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گیا؟ مگر اس ملک کے آئین کے تحت اب ایسا ممکن ہے؟
رواج اور چلن میں چاہے جو ہو، مگر اب اس ملک کے آئین کے دائرے میں اصل میں ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 2002، 2017 میں اور کئی ہائی کورٹ اپنے فیصلوں میں صاف طور پر کہہ چکے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق، طلاق ہی نہیں ہوگا۔ طلاق بنا صلح کا عمل اور خاتون کی باعزت زندگی کی گارنٹی کئے بغیر نافذ نہیں ہوگی۔ تب اس کے نافذ ہونے کا سوال ہی کہاں اٹھتا ہے۔
ان فیصلوں کی روشنی میں خواتین کے حقوق، پہلے جیسے ہی رہیںگے۔ ان کے نکاح ختم نہیں ہوںگے۔ وہ طلاق شدہ یا مطلقہ نہیں ہوںگی۔ مسئلہ تو تب کھڑا ہوگا، جب کوئی مرد اس طرح طلاق کی بنیاد پر خاتون سے اپنا جسم چھڑانا چاہےگا۔ اس کو، اس کا حق نہیں دےگا۔تو کیا ایسے معاملوں میں ہمارے موجودہ قانون کوئی راستہ بتاتے ہیں؟
کیا مسلمان عورتوں کے پاس ابھی کوئی قانونی راستہ ہے؟
جی،کئی راستے ہیں۔ بشرطیکہ عام عورتوں کو وہ راستے پتا ہوں اور وہ ان کا استعمال کر پانے کی حالت میں ہوں۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ اب طلاق کا یہ طریقہ غیرقانونی ہے۔ اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ ان کی شادی شدہ سماجی حالت پہلے جیسی ہی رہےگی۔
دوسری بات، گھریلو تشدد سے عورتوں کےتحفظ کے لیےبل، گھر یلوتشدد سے بچانے کا دیوانی قانون ہے۔ تشدد کے خلاف دیوانی قانون خاتون تحریک کی طویل جدو جہد اور زمینی حقیقت سے نکلا قانون ہے۔ یہ اس ملک کی تمام خواتین کو سب سے اہم اورضروری قانونی تحفظ دیتا ہے۔ اس میں وہ ساری باتیں شامل ہیں، جو کسی بھی خاتون کو کسی بھی حالت میں بےگھر، بےسہارا اور دانےدانے کا محتاج ہونے سے بچا سکتی ہیں۔ یہ باعزت زندگی جینے کے لئے ضروری ہر طرح کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ چونکہ، طلاق کی دھمکی یا ایک ساتھ تین طلاق دینا بھی تشدد کی ہی ایک شکل ہے، تو یہ اس حالت میں بھی نافذ ہوگا۔
سزا ہو گئی تو ان کا کیا ہوگا، جو رشتہ بچانا چاہتے ہیں ؟
یہی نہیں ، ایک مجلس کی تین طلاق کی وجہ سے ٹوٹتی شادی میں بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے ، جو بعد میں پچھتاتے ہیں۔ وہ اس در سے اس در شادی بچانے کے لیے پیشانی جھکاتے ہیں۔ فتویٰ لاتے ہیں ، یہ زمینی حقیقت ہے۔ یعنی وہ غصے یا کسی اور وجہ سے طلاق بول تو دیتے ہیں مگر وہ اصلیت میں الگ نہیں ہونا چاہتے ہیں۔ حلالہ کی وجہ یہی ہے۔
ویڈیو : تین طلاق اور حلالہ کی حقیقت
ایک مجلس کی تین طلاق کی چُھری کی دھار کند کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ایسے لوگوں کے رشتے ٹوٹے نہیں بلکہ بنے رہیں۔ حلالہ جیسی ناپسندیدہ اور ناگوار عمل سے کسی خاتون کو گزرنا پڑے ۔ اب اگر ایسی حالت میں ایسے لوگوں کو جیل کی سزا ہوگی تو کیا رشتے بنے رہیں گے۔ عورتوں کا کیا ہوگا ؟ کیا یہ خواتین کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا، اور اگر رشتہ ختم ہی ہونا ہے تب ، اور اگر رشتہ ٹوٹنا ہی ہے یا رشتے میں تشدد ہی تشدد ہے تو اس حالت میں بھی موجود مجرمانہ قانون بخوبی کام آئیں گے ۔ کیا شوہر یا اس کے کنبوں کے ظلم وستم سے بچاؤ کے لئے 498 اے یا اس طرح کی دوسری دفعات مسلمان خواتین پر نافذ نہیں ہوتی ہیں؟ ہوتی ہیں نا ۔ شوہر کا ظلم جرم ہے۔
یہی نہیں، اگر کسی وجہ سے رشتہ ختم ہو گیا تو شاہ بانو مقدمہ کے بعد طلاق شدہ خواتین کے لئے بنا قانون بھی ہے۔ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے خاتون اس کا سہارا لے سکتی ہے۔ ہاں، جن کی زندگیاں اس ظالمانہ طلاق کی وجہ سے تباہ ہوئی ہیں، وہ ضرور چاہیںگی کہ تین طلاق بولنے والوں کو سزا ملے۔ ان کا غصہ جائز ہے۔ ان کی زندگی کا قیمتی حصہ تباہ ہوا۔ مگر سوال ان سے بھی مکالمہ کرنے کا ہے۔ یہ کون کرےگا؟
عورتوں کےحقوق کی تحریک اور خاص طور پر مسلمان عورتوںکے ساتھ کام کرنے والی تنظیمیں بھی قانون بنائے جانے کے سوال پر ایک رائے نہیں ہیں۔ مسلمان خواتین کی زندگیوں سے سیدھا واسطہ رکھنے والی فلیویا اگنس یا رضیہ پٹیل جیسی کئی عورتیں، جلدبازی میں اٹھائے گئے ایسے کسی قدم کے حق میں نہیں ہیں، جو عورتوں کو اور مصیبت میں ڈال دے۔ ان میں سے کئی توجنسی مساوات کی بنیاد پر بنے قانون کے حق میں ہیں، لیکن اس قانون کی موجودہ شکل کو لے کرمتفق نہیں ہے۔ اس لئے جلدبازی میں محض تین طلاق کے لئے فوجداری قانون بنانے کا خیال، ابھی تو منطقی نہیں لگتا ہے۔ویسے، اگر خواتین کے حق میں واقعی کچھ ہونا ہی ہے تو کافی غورو فکر کے بعد تمام کمیونٹیوں کے خاندانی ذاتی قانون کو جنسی مساوات کی کسوٹی پر کسنے پر خیال کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے پہلے اس پر کھلی گفتگو ہونی چاہیے۔
ظاہر ہے، مخالف آوازیں بھی ہوںگی۔ مگر بھروسے کے ساتھ ایمانداری سے اٹھائے گئے قدم کے ساتھ ڈھیروں کھڑے بھی ہوںگے۔ اس وقت تو سب سے بڑا سوال بھروسے کا ہی ہے۔ ویسے، ڈاکٹر ایماندار ہو اور اس پر بھروسا ہو تو کڑوی سے کڑوی دوا آسانی سے پی جا سکتی ہے۔
( ناصرالدین سینئرصحافی ا ورمحقق ہیں، سماجی موضوعات خاص طورپر عورتوں کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔بہ شکریہ،ٹو سرکلس ڈاٹ نیٹ)