لوک سبھا نے طلاق بد عت یا ایک مجلس کی تین طلاق سے متعلق بل کواکثریت سے پاس کر دیا ہے۔ اب اس بل کو راجیہ سبھا سے پاس ہونا ہے۔
عام طور پر قانون انسانی زندگی سے اٹھے سوالوں کا جواب دینے کے لئے ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی سے جڑے مدعوں کا حل بتاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر دلچسپ ہے، یہ بل تو سوال ہی سوال کھڑا کر رہا ہے۔
تو آئیے ہم دیکھتے ہیں سوالات کیا ہیں:
1۔ 2002 میں شمیم آرہ اور 22 اگست 2017 کوشاعرہ بانو اور دوسرے کئی کیس میں سپریم کورٹ نے صاف طور پر بغیر کسی صلح کے عمل سے گزرے ایک مجلس کی تین طلاق کو خارج کر دیا تھا۔ یعنی ایک مجلس کاتین طلاق قانونی طور پر ہمارے ملک میں غیر قانونی ہے۔ اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔ اس لئے جو چیز قانونی اعتبار سے زیرو ہے، محض اس مسئلے پر قانون بنانے دینے کا کیا مطلب ہے؟ اس سے کیا حاصل ہوگا؟
2۔ اس بل کے آرٹیکل 2 (بی) میں بیان کئے گئے ایک جھٹکے والا طلاق کی قسمیں قانونی طور پر پہلے ہی بےمعنی ہو چکے ہیں۔ پھر اس سے متعلق قانون کیسے معنی خیز ہو جائےگا؟
3۔ یہی نہیں، جو چیز اثردار نہیں ہوئی، بےمعنی ہے، وہ جرم کیسے ہو گئی؟
4۔ اس قانون کے بننے سے کافی پہلے یہ طے ہو گیا تھا کہ مردکے محض ایک ساتھ تین بار طلاق بول کر / لکھ کر / بتا دینے سے کسی جوڑے کا نکاح ختم نہیں ہوگا۔ یعنی مرد کی اس حرکت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ تو یہ حرکت ایسا ‘ جرم ‘ کیسے ہو گیا کہ اس کو سیدھے فوج داری ہی بنا دیا جائے؟
5۔ اس بل کے آرٹیکل سات کے تحت تین طلاق ایک ساتھ بولنا، لکھنا، کسی طرح سے بتانا فوجداری اور غیر ضمانتی جرم ہوگا۔ یعنی پولیس کسی کو بغیر وارنٹ گرفتار کر سکتی ہے۔ یعنی تھانے سے اس کی ضمانت نہیں ہو سکتی ہے۔ یہی نہیں، اب اگر محض شک کی بنیاد پر پولیس یا کوئی بھی تیسرا شخص، کسی بھی تھانے میں جاکر اگر خبر کر دےگا کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا ہے تو وہ گرفتار ہوکر جیل چلا جائےگا۔ کیا آسانی سے اس کا غلط استعمال نہیں ہوگا؟ کیا یہ پولیس کو غلط اور غیرضروری طور پر دخل اندازی کرنے کا موقع نہیں دے رہا ہے؟ کیا اس سے پولیس یا وکیلوں کی چاندی نہیں ہو جائےگی؟ کیا اس سے خاندانی جھگڑوں کے کیس بلاوجہ الجھیںگے نہیں؟
6۔ کیا کوئی بتائےگا کہ قانون کا پورا زور جوڑوں کے درمیان صلح کی بجائے فوراً سے پیشترجیل بھیجنے پر کیوں ہے؟
یہ بھی پڑھیں:کیا تین طلاق کے اس فوجداری قانون سے مسلم عورتوں کا بھلا ہوگا؟
7۔ اس سے بھی اہم مدعا ہے کہ یہ قانون چاہتا ہے کہ گرفتار ہوکر جیل کی ہوا کھانے والا شوہر نامی شخص اپنی بیوی اور اولاد کے لئے ‘ گزر بسر کے لئے بھتہ ‘ کی ذمّہ داری لے۔ اب وہ جیل میں ہے۔ ‘ گزر بسر کا بھتہ ‘ کیسے دےگا؟ اس عورت اور اس کی اولاد کو کیسے ملےگا؟ گزر بسرکے لیے بھتہ جیسا لفظ کیا صنفی برابری کا لفظ ہے؟
8۔ گزارا بھتہ کتنے دن کے اندر ملےگا، یہ قانون کچھ نہیں بتاتا؟ کیا عورت کو گزارے کے لئے چکر نہیں کاٹنا پڑےگا؟ شوہر کے جیل جانے کے بعد اس کو بےسہارا نہیں ہو جانا پڑےگا؟
9۔ تین طلاق کے زیادہ تر معاملے دنیا کے سامنے اس لئے بھی آتے ہیں کہ عام طور پر خواتین رشتے کو ختم کرنے سے بچنا چاہتی ہیں۔ وہ بہت شدید ظلم وستم کی حالت میں ہی شادی سے الگ ہونا چاہتی ہیں۔ یہ ہمارے سماج کی مردانہ بناوٹ کی دین ہے۔ اب اگر کسی کا شوہر جیل چلا گیا ہے تو سوال ہے؛صلح،سمجھوتہ یا ساتھ رہنے کی گنجائش کتنی بچےگی؟ مرد اپنے مردانہغرور کے ساتھ اس کے لئے کتنی آسانی سے تیار ہوگا؟ یہ دونوں کے لئے کتنا آسان ہوگا؟
10۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ایک مجلس کے تین طلاق یعنی طلاق بد عت جیسی چیز اب رہی نہیں۔ دوسری طرف موجودہ قانون طلاق بدعت کو جرم بھی بنا رہا ہے۔ یعنی تب ایک اور سوال ہے کہ کیا نیا قانون بنانے والے کیا یہ مانکے چل رہے ہیں کہ ایک مجلس کے تین طلاق سے رشتے آخرکار ختم ہو گئے یا ہو جانا چاہئے؟
11۔ اسلامی شریعہ کا ایک دھڑا کہتا ہے کہ ایک مجلس کا تین طلاق اثردار بھی ہے یعنی نکاحٹوٹ گیا اور ایسا کرنے والے شخص کو سخت سزا بھی دینی چاہئے۔ تو کیا موجودہ قانون سازمجلس کے ممبر آئین کے تحت قانون بنا رہے ہیں یا شریعہ کے تحت؟
ویڈیو : کیا طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دیے جانے سے مسلمان عورتوں کو فائدہ ہوگا؟
12۔ اس قانون کے جو مقصد بتائے جا رہے ہیں، کیا وہی مقصد موجودہ قوانین سے پورے نہیں ہوتے ہیں؟ اس نیا قانون میں ایسا کیا خاص اور الگ ہے، جو،2005 کے گھریلو تشدد سے بچانے کے قانون، سی آر پی سی کی دفعہ 498-اے، 125 یا 1986 کے مشہور طلاق کے بعد مسلمان عورتوں کے حقوق کی حفاظت والے قانون میں نہیں ہے؟
13۔ جب بھی خواتین یا سماجی مدعوں سے منسلک مسائل پر قانون بنتے یا ترمیم ہوتے ہیں تو اس سے پہلے خاتون تحریک سے جڑے دانشوروں، قانون کے ماہرین سے رائے لی جاتی ہے۔ حال میں بنے کئی قانون اس کے نمونے ہیں۔ اس قانون کو بناتے وقت ایسی کوئی رائے کیوں نہیں لی گئی؟ بل پر گفتگو کرنے کی کوشش کیوں نہیں ہوئی؟ قانون بنانے میں اتنی جلدبازی کیوں دکھائی گئی؟ لوک سبھا میں بھی اس کو ایک ہی دن میں پاس کرانے کی جلدبازی کیوں تھی؟ خبر کے مطابق، Law Commission of India بھی پرسنل لا کو قانونی بنانے پر غور کر رہا ہے۔ اس کی رپورٹ آنے کا انتظار کیوں نہیں کیا گیا؟
14۔ شادی بیاہ، طلاق،بچے،بچیاں کس کے ساتھ رہیںگے یہ سول دائرے کے معاملے مانے جاتے ہیں۔ ہاں، اگر شدید تشدد ہے اور تشدد کا دائرہ رک نہیں رہا ہے تو اس حالات میں گھریلو معاملے بھی فوج داری ضرور بنیںگے۔ عورتوں سے متعلق تحریک کی لمبی جدو جہد کا نتیجہ تھا کہ گھریلو تشدد سے بچاؤ کا قانون کو سول بنایا گیا۔ اب اس قانون کو فوج داری بناکر، کیا ہم قانون کی گاڑی کو پیچھے کی طرف لے جا رہے ہیں؟
15۔ سزا کے حق میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ اس سے طلاق رکیں گے۔ یہ سماجی مسائل کو سمجھنے کی ناسمجھی ہے۔ یہ سوچ صحیح نہیں ہے کہ سخت سزا سے جرم رک جائےگا۔ نربھیا کے بعد ترمیم شدہ قانون میں آبروریزی کے لئے پھانسی کی بھی سزا ہے۔ نربھیا کے معاملے میں پھانسی کی سزا ہوئی۔ سزا کے بعد بھی خواتین کے ساتھ جنسی تشدد رکی نہیں ہے۔ کم بھی نہیں ہوئی ہے۔ تو کیا محض قانون بنا دینے یا جیل بھیج دینے سے یہ مسئلہ ختم ہو جائےگا اور خواتین کی تکلیف دور ہو جائےگی؟
16۔ حکومت اس قانون کو بنانے کے حق میں صنفی مساوات، جینڈر جسٹس، عورتوں کی خود مختاری کی بات کر رہی ہے۔ کیا اس قانون سے عورتوں کو یہ سب مل جائےگا؟
17۔ طلاق ناپسندیدہ عمل ہے۔ مگر کئی بار یہ رشتے کو سڑنے سے اور انسانی شخصت کو بچانے کے لئے ضروری بھی ہو جاتا ہے۔ تاکہ رشتے سے جڑے تمام فریق اپنی زندگی سکون سے گزار سکیں۔ یہ قانون یہ کیوں نہیں بتاتا کہ طلاق کا اب کون سا طریقہ ہوگا؟ طلاق کے لئے اب کسی کو کیا کرنا ہوگا؟
18۔ اسلام میں نکاح کا رشتہ ختم کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ خاتون کی طرف سے بھی۔ مرد کی طرف سے بھی۔ دونوں کے طرف سے بھی۔ اور قاضی کے طرف سے بھی۔ سوال ہے، اب کون سا طریقہ چلےگا؟ وہ کون سا طریقہ ہوگا، جو مسلمان خواتین کو عزت، برابری دےگا اور بےسہارا نہیں کرےگا؟ ان کی اولادوں کو بے سہارا نہیں کرےگا؟
19۔ اسلام کے مطابق اور شمیم آرا معاملے میں سپریم کورٹ اور کئی ہائی کورٹ کے فیصلوں میں طلاق سے پہلے صلح کی کوشش کو ضروری مانا گیا ہے۔ یہی نہیں،خاندان سےمتعلق نیا قانون بھی صلح کا وقت دینا ضروری مانتا ہے۔ یہ قانون ایسی کسی کوشش کی بات نہیں کرتا ہے؟
20۔ ایک طرف سماجی طور پر مسلمانوں کے متعلق بڑھتی نفرت اور تشدد ہے۔ سیاسی طور پر ان کی بڑھتی علیحدگی ہے۔ دوسری طرف، اس ماحول میں ایسا قانون ہے۔ کیا اس سے مسلمانوں کے بڑے طبقے میں حکومت کے مقصد پر شک پیدا نہیں ہوگا؟
ویڈیو : تین طلاق اور حلالہ کی حقیقت
21۔ کیا یہ خواتین کے حقوق کی حفاظت کے نام پر سماجی صف بندی کی کوشش نہیں ہے؟
22۔ کہا جا رہا ہے اور دکھایا جا رہا ہے کہ مسلمان عورتیں یہی چاہتی ہیں۔ کیا چند این جی او ہی تمام خواتین کی آواز ہیں؟ ملک کے الگ الگ حصوں میں مسلمان خواتین کے ساتھ کام کرنے والی بہت ساری تنظیم / این جی او / مسلمان دانشور، اسلامی قانون کے جان کار، آئین کے ماہر اس قانون کو فوجداری بنائے جانے کے سخت خلاف ہیں۔ وہ اس شکل میں کسی قانون کے حق میں نہیں ہیں۔ کیا ان کی رائے لی گئی؟ ان کی باتیں کیوں نہیں سنی گئیں؟
23۔ اس قانون کا نام ہے-دی مسلم ویمین (پروٹیکشن آف رائٹس آن میریج) بل، 2017 یعنی مسلم خاتون (شادی کے حقوق کی حفاظت) بل، 2017۔ نام سے تو یہ شادی شدہ زندگی کے حقوق کی حفاظت کی بات کرتا ہوا لگتا ہے۔ مگر ایسا ہے کیا؟ یہ تو طلاق بھی نہیں بلکہ طلاق کی ایک شکل کی بات کرتا ہے۔ اس شکل کی جس کی قانونی وقعت اب زیرو ہے۔
24۔ کچھ لوگ یہ بھی دلیل دے رہے ہیں کہ فوج داری اور سزا کی بات کو اگر چھوڑ دیں پھر بھی یہ اچھا قدم ہے۔ کیوں… کیونکہ چلیے قانون بننے کی شروعات تو ہوئی۔ جی۔ یہ بل محض سات دفعات کا ہے۔ اس میں کل ملاکر فوج داری اور سزا کی بات ہی ہے۔ پھر کس چیز کی شروعات ہوئی؟
25۔ حکومت کے پاس لوک سبھا میں اکثریت ہے۔ اس کی طاقت اس نے 28 دسمبر 2017 کو دکھا بھی دی۔ اگر وہ واقعی میں جینڈر جسٹس کے لئے فکرمند تھی تو بہتر ہوتا وہ سبھی کی رائے سے اس قانون کو بنانے کو قانونی شکل دینےکی بات کرتی۔ وہ قدم واقعی تاریخی ہوتا۔ مگر کیا واقعی موجودہ حکومت بے خوف جینڈر جسٹس چاہتی ہے؟
( ناصرالدین سینئرصحافی ا ورمحقق ہیں، سماجی موضوعات خاص طورپر عورتوں کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔)