یہیں کا نوجوان ایسا ہے جس کو نوکری نہیں چاہیے، روز رات کو ٹی وی میں ہندو مسلم ٹاپک چاہیے۔
FICCI اور نیسکام نے 2022 میں نوکریوں کے مستقبل اور صورتحال پر ایک رپورٹ تیار کی ہے، جس کے بارے میں بزنس اسٹینڈرڈ میں چھپا ہے۔ لکھا ہے کہ اس سال آئی ٹی اور کمپیوٹر انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے جا رہے طالب علم جب چار سال بعد نکلیںگے تو دنیا بدل چکی ہوگی۔
ان کے سامنے 20 فیصد ایسی نوکریاں ہوںگی جو آج موجود ہی نہیں ہیں اور جو آج موجود ہیں ان میں سے 65 فیصد کی شکل پوری طرح بدل چکی ہوگی۔ ضروری ہے کہ آپ اپنی روزمرہ کیسمجھ کے سامان میں بگ ڈاٹا، آرٹی فیشیل انٹیلی جینس، روبوٹک کو شامل کریں۔ان کی وجہ سے پرانی نوکریاں جائیںگی اور نئی نوکریاں آئیںگی۔ کیا ہوںگی اور کس معیار کی ہوںگی، اس کی سمجھ بنانی بہت ضروری ہے۔
ریسرچ کرنے والی ایک کمپنی گارٹنر کا کہنا ہے کہ آرٹی فیشیل انٹیلی جینس کی وجہ سے درمیانی اور نچلے درجے کی ڈھیر ساری نوکریاں ختم ہو جائیںگی۔ اس کی جگہ پر اعلیٰ ترین صلاحیت، ہنر اور مینجمنٹ والی نوکریاں آئیںگی۔مستقل نوکریاں تیزی سے چلن سے باہر ہو رہی ہیں۔ مشترکہ معیشت کا چلن بڑھ رہا ہے۔ اس کو گگس اکونامی کہتے ہیں۔ میں نے پہلی بار سنا ہے۔ اس کے بارے میں صحیح سے نہیں معلوم۔ جیسے کورئیر بوائے ہوگا وہ کئی کمپنیوں کا سامان ڈھوئےگا۔آپ دہلی میں ہی سڑکوں پر دو پہیا گاڑیوں کی بھیڑ غور سے دیکھ سکتے ہیں۔ پیٹھ پر بوجھا لادے یہ نوجوان روزگار کی آخری لڑائی لڑتے نظر آئیںگے۔ کوورکنگ ہب ایک نیا رواج آیا ہے۔ اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کیجئے۔
شاید ہم اور آپ کسی چوراہے پر کھڑے ہوںگے، کسی بھی کام کے لئے، دو یا دو سے زیادہ اسکیل کے ساتھ، کوئی آئےگا کام کرائےگا، اور گھر بھیج دےگا۔ گھر جاکر ہم نیوز چینلوں پر وشو گرو بننے کا خواب دیکھتے ہوئے سو جائیںگے۔اکونامک ٹائمس کی مالینی نے بھی روزگار میں آ رہی تبدیلیوں پر ایک مضمون لکھا ہے۔ میں نے اس کے کچھ حصے بھی بزنس اسٹینڈرڈ میں چھپے فکّی اور نیسکام کی رپورٹ کے ساتھ ملا دیا ہے۔
مالینی نے لکھا ہے کہ کمپنیوں کو سرمایہ بنانے کے لئے اب ورکر کی ضرورت نہیں ہے۔ فیس بک میں محض 20000 لوگ ہی کام کرتے ہیں جبکہ کمپنی کا ویلیو 500 ارب ڈالر ہے۔ اس کو ہندوستانی روپے میں بدلیںگے تو صدمہ لگ جائےگا۔ڈجیٹل دورمیں نوکری دو سطح پر ہوگی۔ اعلیٰ صلاحیت والی اور کم از کم مزدوری والی۔ بہت سے دفتروں میں سر چھپاکے کام کرنے والے درمیان کے قابل لوگ غائب۔ بلکہ غائب ہو بھی رہے ہیں۔
ان سب تبدیلیوں کے سماجی و سیاسی نتیجے بھی ہوںگے۔ دنیا بھر میں حکومتیں تیزی سے ایسے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں جو بھٹکانے کے کام آ سکے۔ ایسے مدعے لائے جا رہے ہیں جن کو سنتے ہی خواب آنے لگتا ہے اور عوام سو جاتے ہیں۔ حکومتوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ کم از کم مزدوری بڑھائیں۔ مگر آپ جانتے ہی ہیں، حکومتیں کس کی جیب میں ہوتی ہیں۔
مالینی گوئل نے سرسری طور پر بتایا ہے کہ جرمنی، سنگاپور اور سویڈن میں کیا ہو رہا ہے اور ہندوستان ان سے کیا سیکھ سکتا ہے۔ بلکہ دنیا کو ہندوستان سے سیکھنا چاہیے۔یہیں کا نوجوان ایسا ہے جس کو نوکری نہیں چاہیے، روز رات کو ٹی وی میں ہندو مسلم ٹاپک چاہیے۔ اب اس کو الو بنانے کے لئے اس بحث میں الجھایا جائےگا کہ ریزرویشن ختم ہونا چاہیے۔
نوکری کا دشمن ریزرویشن ہے۔ پوری دنیا میں نوکری نہیں ہونے کے الگ وجہوں پر بحث ہو رہی ہے، ہندوستان ابھی تک اسی میں رکا ہے کہ ریزرویشن کی وجہ سے نوکری نہیں ہے۔حکومت کوئی تجویز نہیں لائےگی، تین طلاق کی طرح بحث میں الجھاکر نوجوانوں کا تماشا دیکھےگی۔ ریزرویشن پر بحث کے مسئلے کا استعمال فرنٹ کی شکل میں ہوگا، جس کو لےکر بحث کرتے ہوئے جوان خواب میں کھو جائےگا کہ اسی کی وجہ سے نوکری نہیں ہے۔لیڈر ووٹ لےکر اپنے خواب کو پورا کر لےگا۔ حقیقتوں کے لحاظ سے یہ ہمارے وقت کی سب سے بڑی بکواس ہے۔ نوکری نہ تو ریزرو طبقے کے لئے پیدا ہو رہی ہے اور نہ غیر ریزرو طبقہ کے لئے۔ یہی فیکٹ ہے۔ نوکری کی پیداوار پر تو بات ہی نہیں ہوگی کبھی۔
جاپان کے وزیر اعظم نے کارپوریٹ سے کہا ہے کہ تین فیصد سے زیادہ مزدوری بڑھائیں۔ جاپان میں ایک دہائی بعد معیشت میں تیزی آئی ہے۔ کمپنیوں کا منافع بڑھا ہے مگر یہاں لیبر کی ضرورت نہیں بڑھی ہے۔ ان کا مارکیٹ بہت ٹائٹ ہوتا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ یہ اور ٹائٹ ہوگا۔ ٹائٹ لفظ کا ہی استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ تکنیکی تبدیلی یا پیداوار کی شکل بدلنے سے اب انسانی وسائل کی اتنی ضرورت نہیں رہی۔ جاپان میں کئی سال تک کئی کمپنیوں نے مزدوری میں کوئی اضافہ نہیں کیا تھا۔
کل ملاکربات یہ ہے کہ روزگار سے متعلق موضوعات پر حقیقی بحث ہو، لوگوں کو پتا چلےگا کہ دنیا کیسے بدل رہی ہے اور ان کو کیسے بدلنا ہے۔ آپ اپنی جانکاری کا سورس بدلیے، خبروں کو کھوجکر پڑھیے۔ دھیان رہے، اخبار خرید لینے سے اخبار پڑھنا نہیں آ جاتا ہے۔ ہمیشہ کسی ایک ٹاپک پر دو سے تین اخباروں دیسی اور غیر ملکی ملاکر پڑھیں۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پوسٹ سے لیا گیا ہے۔)
Categories: فکر و نظر