اتر پردیش میں ایم ایل اے سرکاری خزانے سے غریبوں کو کمبل کے ساتھ سرکاری اسکولوں کے طلبا کو جوتے-موزے اور سویٹر بھی بانٹ رہے ہیں۔ مگر اس ادا سے جیسے ان کی بڑی مہربانی کہ جنوری میں بانٹ دے رہے ہیں ورنہ مارچ-اپریل میں بانٹتے تو کوئی کیا کر لیتا؟
گلوبلائزیشن نام دھاری’سروائیول آف دی فٹیسٹ ‘ کی غیربرابری اور استحصال پر مبنی، غیر انسانی اور امیرپرست پالیسیوں کے 24 جولائی، 1991 سے چھائے آ رہے گہرے کہاسے نے ملک کے غریبوں کی زندگی کے روایتی وسائل ، ماخذ اور مہارتوں کو حقیقی طور پرجڑ سے ختم کر دینے کے جو متعدد براہ راست اور بالواسطہ مہم چلا رکھے ہیں، ان سے غریب کس طرح منظرنامے سے ہی باہر ہو چلے ہیں، یہ حقیقت آج کسی سے بھی چھپی نہیں ہے۔
یہ بھی کہ اس بیچ امیروں اور غریبوں کے درمیان الگاؤ کی کھائیاں لگاتار گہری اور چوڑی ہوتی گئی ہیں۔نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج کی تاریخ میں امیروں نے نہ صرف کئی اسکول-کالج، اعلیٰ تعلیمی ادارہ اور ہسپتال، بلکہ خوشی ، تہوار اور غم منانے کی جگہوں، یہاں تک کہ وکیل اور صحافی بھی غریبوں سے ‘ چھین ‘ لئے ہیں۔
بلاوجہ نہیں کہ اس کے چلتے اخباروں میں بھی غریبوں کی وہ جگہ نہیں ہی رہ گئی ہے، جو ان اخباروں کے بڑے سرمایہ کے کھیل میں شامل ہونے سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ ٹی وی کے پردے سے تو خیر ان کو غائب ہوئے لمبا عرصہ بیت گیا۔اس امیر و غریب علیٰحدگی کی ہولناکی کو اس حقیقت سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ملک کی پارلیامنٹ میں اب ایک بھی غریب رکن پارلیامنٹ نہیں بچا۔ راجیہ سبھا تو کئی دہائی پہلے ہی دھن پتیوں کی سبھا میں بدل گئی تھی، اب یہ بتانے کے لئے کسی اعداد و شمار کی ضرورت نہیں کہ پارلیامنٹ بھی ارب پتیوں اور کروڑپتیوں کے حوالے ہو گئی ہے۔
آپ چاہیں تو کمل ہاسن سے بھی پوچھ لیجئے۔ تمل ناڈو کے دناکرن اکیلے نہیں ہیں، جنہوں نے اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں ووٹروں کو خریدکر ‘ اماں ‘ کی سیٹ اپنے نام کر لی۔ امیروں کے ذریعے ووٹ کی خرید و فروخت اور غریبوں کے راشن کارڈ تک کی لوٹ پاٹ اب عام واقعات میں شمار ہیں۔ اتنی عام کہ کئی لوگ تو ان کو حادثہ بھی نہیں مانتے۔سو، امیر اور غریب اب، ہوائی جہازوں اور شاہراہوں پر کون کہے، ‘ بھارتیہ ریل ‘ میں بھی ایک دوجے سے نہیں ملتے۔ فلیکسی کرایوں کے دور میں وہاں بھی امیروں کے کوچ الگ ہیں، غریبوں کے الگ۔
منافع کو وقف نجی شعبے کی ہی طرح جس مسافر کی جیب میں جتنا زیادہ مال، وہ اتنا ہی قابل احترام۔ ہاں، امیروں کے کوچ میں غریبوں کا ایسا غیراعلانیہ داخلہ ممنوع ہے، جو غلامی کے دنوں میں ہندوستانیوں کے اوپری درجوں کے کوچ میں گھسنے کی سزایابی کو بھی شکست دیتا ہے۔یہ ممنوع عام ڈبوں میں لد-پھند کر ‘ سفر ‘ (اردو والا نہیں، انگریزی والا) کرنے والے غریبوں کو یاد بھی نہیں کرنے دیتا کہ 1977 میں ریل وزیر مدھو دنڈوتے نے ریلوے کا تیسرا درجہ ختم کیا تو خواب دیکھا تھا کہ ایک دن سارے عوام اس کے کوچوں میں رقم کی دھمککے بجائے یکسانیت کی آئینی چمک کے ساتھ سفر کر سکیںگے۔
غلامی کے دنوں میں کم سے کم ایک انٹر کلاس ہوا کرتا تھا، جس میں غریب انگریز اور امیر ہندوستانی ریل مسافروں کی ملاقات ہو جاتی تھی، لیکن اب امیر اور غریب ریل مسافر پلیٹ۔فارموں پر بھی ملتے ہیں تو اجنبیت اور انگریزیت ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔چھوڑ بھی کیسے سکتی ہے، ‘ اچھے دن ‘ لانے کے وعدے پر چُنکر آئی حکومت نے کالے دھن سے نکالے گئے پندرہ لاکھ روپے کھاتوں میں جمع کرانے کے بجائے غریبوں کی تعداد کو ہی متنازع بنا ڈالا ہے!
اس کا کھیل صاف ہے کہ غریبی جائے یا نہیں، غریب کہیں نظر نہ آئیں اور آئیں بھی تو ملک کی کوشش سے رچی جا رہی مہاشکتی والی امیج کے آڑے نہ آئیں، نہ یکسانیت پر مبنی سماج بنانے کے آئینی عزم کا خواب ہی دیکھ سکیں۔وہ حکومت اور اس کے ‘ سویم سیوک ‘ سے ملکر خود کو وسائل کے طور پر اس قوم پرستی کے احیا میں کھپائے رکھیں، جو امیرپرستی میں اقتصادی آزادخیالی کو تو اندھی مادّہ پرستی کی حد تک جاکر سر آنکھوں پر لئے گھوم رہا ہے، لیکن سماجی سخاوت سے پاگل پن کی حد تک بدگمان ہے۔
آخر وہ غریبوں کا اس سمجھ سے گزرنا کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اس راشٹرواد کے نام پر ان پر جو ‘ پاکیزگی’ تھوپی جا رہی ہے، اس کی یکجائی زبردستی کی یکسانیت جمہوریت اور راشڑ واد دونوں کا مشترکہ دشمن ہے۔یقیناً، اس نظام میں امیروں کے دن سونے کے ہیں تو راتیں چاندی کی۔ کیا تعجب کہ غریب اس ہڈیاں کپکپانے والی ٹھنڈ میں بھی ہمیشہ جاری ان کے تہواروں سے دو-چار ہونے سے نہیں بچ پا رہے۔
‘ عالی مرتبت ‘ امیروں کو تو ویسے بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چینلوں اور اخباروں نے ابھی ان کو موسمِ بہار کی آمد کی اطلاع نہیں دی ہے۔ ان کو درجہ حرارت کی گراوٹ کا تہوار منانے سے ہی کیوں پرہیز ہونے لگا، جب وہ اپنی گراوٹوں تک کے جشنوں سے پرہیز نہیں کرتے۔
ان کو ایسا پرہیز نہیں ہے، اسی لئے آپ ان دنوں روز بروز کمبل تقسیم تقریبات کی خبریں پڑھ رہے ہیں۔ ان تقریبات میں گلوبلائزیشن کی سہولیت کا فائدہ اٹھاکر ترقی یافتہ ہوئے وہ نودلتیے پرانے رئیسوں سے آگے ہیں، جن کی کئی غیرسرکاری تنظیموں پر بھی ویسا ہی قبضہ ہے، جیسا سیاست پر۔ ان میں سے کئی اس تہوار میں عوامی نمائندگان کے چولے میں حصہ لے رہے ہیں۔
اتر پردیش میں آدھا ٹھنڈ بیت جانے کے بعد کئی جگہوں پر ایم ایل اے کے ذریعے غریبوں کو کمبل کے ساتھ سرکاری اسکولوں کے طلبا کو جوتے-موزے اور سویٹر بھی بانٹ رہے ہیں۔
اپنی طرف سے نہیں، خزانے سے، مگر اس ادا سے جیسے ان کی بڑی مہربانی کہ جنوری میں بانٹ دے رہے ہیں ورنہ مارچ اپریل میں بانٹتے تو کوئی کیا کر لیتا؟ ان کو یاد نہیں کہ ان کا کام ان سب کو اپنی عنایت کا محتاج بنائے رکھنا نہیں، ان کے فائدے کی فلاحی تدبیر کرنی ہے۔ہاں، غریبوں کو حاشیے سے بھی باہر کر دینے کی تمام سرکاری و غیر سرکاری قواعد کے باوجود امیروں کے ان تقریبات کے لئے غریبوں کا قطعی ٹونٹا نہیں۔کارل مارکس نے غلط تھوڑے ہی کہا تھا کہ غریب امیروں کو اپنے اوپر لدے رہنے سے نہ روکیں تو وہ ان کے لئے ‘ اور بہت کچھ ‘ کر سکتے ہیں۔ان کی کمبل تقسیم تقریب بھی ایک پنتھ، دو کاج یعنی ایک راستہ، دو کام کے بلند جذبہ سے مملو ہیں! چیریٹی کی چیریٹی، تہوار کا تہوار!
لیکن غریب ہیں کہ ان سے کمبل لیتے ہوئے بھی اپنا پورا چہرہ نہیں دکھا پا رہے۔ اس لئے کہ کیمروں کا فوکس لینے والوں پر نہیں دینے والوں پر ہے اور دینے والوں کو جتنی دلچسپی دینے میں ہے، اس سے زیادہ دیتے ہوئے دکھنے میں۔ تبھی تو وہ جن کو دے رہے ہیں، ان کی طرف نہیں، کیمروں کی طرف دیکھتے ہیں-ایک ٹک! کیسی دریادلی ہے یہ اور کتنی مشکل!
یاد کیجئے،44-1943میں بنگال میں تیس لاکھ لوگوں کی جانیں لینے والا خوف ناک قحط پڑا تو امیروں کے گودام اناجوں سے اٹے پڑے تھے۔ ان کو اندیشہ ہوا کہ کہیں بھوکے مر رہے قحط زدہ ‘ بوبھو کچھتہ کِم نا کروتی پاپم ‘ کی تکمیل کرتے ہوئے گوداموں پر ٹوٹ پڑے اور مرنے سے پہلے مرنے-مارنے پر اتر آئے تو گوداموں میں ایک دانہ بھی نہیں بچےگا۔
اس سے بچنے کے لئے انہوں نے گوداموں کے باہر بھگوئے ہوئے چنے رکھوانے شروع کر دئے اور ہر قحط متاثر ین کے ایک مٹھی لےکر آگے بڑھ جانے کا ‘ انتظام ‘ کر دیا۔اب ایک مٹھی چنا کو ہتھیار بنانے کا زمانہ چلا گیا تو کمبل ہی سہی۔ پہچان لیجئے-ان کو بانٹنے والے رسوئی۔گیس سبسیڈی کی چھوٹی سی رقم چھوڑ کر واہ واہی لوٹتے ہیں، لیکن پیداوار کے سارے وسائل پر جوں کا توں قابض رہنا چاہتے ہیں۔
ان کو معلوم ہے کہ غریب ایسے ہی ان کی چیریٹی، سماجی خدمات یا ‘ مفت ‘ کے شکار بنتے رہیں تو ان کے قبضے کی عمر قطعی کم نہیں ہونے والی۔ وہ تو تب کم ہوگی جب اس سمجھداری کی ترقی ہو کہ آزادی کے ستّر سال بعد بھی غریب ایک کمبل کے محتاج ہیں، تو اس کے ذمہ دار استحصال پر مبنی وہ نظام ہی ہے، جس کو امیر کسی بھی حالت میں ختم نہیں ہونے دینا چاہتے اور جس نے موسموں تک کو قاتل بنا ڈالا ہے۔
اودھی کے معروف شاعر رفیق شادانی اسی سمجھداری کے حق میں بتاتے تھے-
ایک بھائی جی ہم سے ای پوچھن / کاہے دیہیا تروئی پیرانی ہے؟
ہمہوں غصے ما کہی دیہن ونسے / توہری کرپا ہے، مہربانی ہے۔
بہتر ہو کہ ملک کے سارے محروم طبقے اپنے غصے کے ساتھ ان کی اس ‘ مہربانی ‘ کو ہمیشہ گانٹھ باندھ رکھیں۔ اس بات کو بھی کہ ان کو کمبل بانٹنے والے امیروں کی ہوس نے ہی نہ ملک کی ہوا کو سانس لینے لائق رہنے دیا ہے، نہ پانی کو پینے لائق۔ان کی ہوس کی وجہ سے بدتر ہوا ، ہوا اور آبی آلودگی ہرسال 25 لاکھ سے زیادہ غریبوں کی جان لے لے رہی ہے اور اقتصادی آزادکاری نے سماجی آزادکاری کی گاڑی کے آگے کاٹھ لگا رکھا ہے۔ان امیروں سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اتنے ہی دریادل ہیں تو اپنی فلک بوس عمارت بنانے والے مزدوروں-کاریگروں، گھریلو نوکرانیوں، چوکیداروں، کار صاف کرنے والوں یا ہر صبح کارخانہ کے سامنے جمع ہونے والے بےروزگاروں کے تئیں کیوں نہیں ہوتے؟
اپنی سہولیت کے لئے دن رات ایک کرتے ان غریبوں کا احسان کیوں نہیں مانتے؟ اس کے الٹے یہ امکان کیوں پالتے ہیں کہ یہ غریب ہمیشہ حقوق کے شعور سے محروم اور ان کے احسان مند بنے رہیںگے۔ کوئی نہ کوئی تو یہ کہہکر ان کو جگا ہی دےگا-یہ ملک تمہارا بھی ہے بھولو نہ میرے یار! رکھو زمیں پر پاؤں تو حق سے چلو!
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر