مسلمانوں کو لگ رہا ہے کہ احسان ختم ہوگیا ۔ ہندوؤں کولگ رہا ہے کہ حکومت نے مسلمانوں سےحق چھین لیا ہے اورانھیں ’مان سرووریاترا‘ وغیرہ پر دی جانے والی 1 لاکھ کی امدادی رقم جاری ہے، یہ سچ بھی اور دونوں طرف کی خوش فہمی بھی ۔ نہ مسلمانوں کے اوپر سے احسان اترا ہے نہ مسلمانوں کا حق چھینا گیا ہے،البتہ مودی حکومت نے ایک تیرسے کئی شکار کرکے اپنا الوضرورسیدھا کرلیا ہے۔
چلو اچھا ہی ہواحج سبسڈی ختم کردی گئی ۔ 700 کروڑ کی سبسڈی کے بوجھ تلے دبے لوگوں کو کم ازکم نجات مل گئی لیکن کیا سچ میں۔ اقلیتی امور کے وزیر کے مطابق اب یہ رقم مسلم بچیوں کی تعلیم پر خرچ ہوگی ۔ مطلب احسان دوسری طرف منتقل ہوجائے گا۔ 2012 میں سپریم کورٹ نے 2022 تک رفتہ رفتہ حج سبسڈی کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ اور بات کہ حکومت نے اسے غیر قانونی نہیں کہا تھا ۔ خیرحکومت نے 2012 میں 836.55 کروڑ کی سبسڈی دی تھی ۔ 2013 میں ڈیڑھ سو کروڑ سے زائد کٹوتی کے بعد 680.03 کروڑ کی سبسڈی جاری کی تھی ۔ 2014 میں 100کروڑ اور کم کرکے 577.07 کروڑکردی۔ 2015-16 میں مزید 50-50 کروڑکم کردی گئی۔ابھی2017 میں حکومت نے 450 کروڑ روپئے حج سبسڈی میں دئیے تھے ۔ گویا کہ رفتہ رفتہ کے بجائے آدھی سبسڈی کی رقم بیک وقت ختم کردی گئی ۔
اس فیصلہ پر کچھ کہنے سے پہلے ایک بات یاد دلا دینا ضروری ہے کہ ابھی آخری کابینہ میٹنگ میں ائیر انڈیا میں 49 فیصد ایف ڈی آئی کو منظوری دی گئی ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ حج سبسڈی صرف سفر حج کیلئے ملتی تھی اور وہ سفر ائیر انڈیا کے توسط سے ہی ہوتا تھا۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ائیرانڈیا فی الحال 50 ہزار کروڑ کا قرض دار ہے۔ حج کے نام پر ملنے والی سبسڈی اور لاکھوں مسلمانوں کے سفر حج سے صرف اورصرف ائیر انڈیا اب تک ڈوبنے سے بچا رہا ۔ صاف لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ حج سبسڈی نہیں بلکہ ائیر انڈیا سبسڈی تھی ۔ ائیر انڈیا میں اب جب ایف ڈی آئی کے دروازے کھول دئیے گئے تو گویا اس حج سبسڈی کو جو کہ چور دروازے سے ائیر انڈیا کی امداد تھی اس کی ضرورت ہی نہیں رہی ۔ لیکن جب تک گلوبل ٹینڈر جاری نہیں ہوتا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ چور دروازہ مکمل طور سے بند ہوگیا ہے۔ اس چور دروازے کے ساتھ ساتھ سبسڈی ایک بے وقوف بنانے کا کھیل بھی ہے۔
اس کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے. مثلاً صرف امسال موسم حج میں1,75,000 ہزار افراد حج پر جائیں گے۔ حج فارم کی قیمت فی کس300 روپے ہے جو واپس نہیں ہو تی ہے. صرف اس سال3,55,000افراد نےحج فارم پر کیا ہے گویا صرف حج فارم سے حکومت کو 10 کروڑ 65 لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی. حکومت فرسٹ کلاس حجاج سے فی کس 2,41,000 روپئے لیتی ہے اور سکنڈ کلاس حجاج سے 2,11,000 روپیہ وصول کرتی ہے۔ تقریباً 70 فیصد حجاج سکنڈ کلاس سروس سے فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ فرسٹ کلاس سے تقریبا 30 فی صد حجاج فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس طرح 52,500 حجاج سال فرسٹ کلاس میں جائیں گے گویا وہ حکومت کو 1265 کروڑ25 لاکھ روپیہ ادا کریں گے اوراسی طرح 1,22,500 سکنڈ کلاس کی سہولت کافائدہ اٹھا نے والے حکومت کو 2584 کروڑ 75 لاکھ روپے دیں گے.گویا تمام حجاج حکومت کو 3850 کروڑ روپے دیں گی. 8 مہینے قبل یہ 3850 کروڑ روپے حکومت کے کھاتے میں جمع ہوجائیں گے کیونکہ ہرحاجی کو اپنی رقم اصولاً 8 مہینے پہلے ہی جمع کرنا ہوتی ہے۔اس رقم پر حکومت کو 7 فیصد کی شرح سے 180 کروڑ روپیہ سود ملے گا۔ پھر بھی مسلمان سبسڈی کے احسان کے بوجھ تلے دبا ہوا رہتا ہے۔
سبسڈی ختم کردی گئی مگرگلوبل ٹینڈر ابھی جاری کرنے کی بات نہیں کی گئی ہے،حالانکہ اس کا مطالبہ مسلم تنظیموں کی جانب سے ہوا ہے ۔ اگرگلوبل ٹینڈرجاری ہوتا ہے تو نہ صرف حکومت کی اجارہ داری ختم ہوگی بلکہ اس سے سستے سفر کی راہ بھی ہموار ہوگی ۔ سب سے بڑی بات حاجیوں کو صرف ائیر انڈیا سے سفر کے قید سے بھی نجات ملے گی اور ساتھ چوردروازے اور سود جیسے بھیا نک معاملے میں پھنسے مسلمانوں کو نجات بھی ملے گی۔ لیکن اگر حکومت گلوبل ٹینڈر جاری نہیں کرتی تو ابھی چور دروازہ کھلا ہی رہے گا۔
سیاسی فوائد بھی کم نہیں ہیں۔ کرناٹک اوردیگر ریاستوں میں جلد ہی انتخابات ہونے والے ہیں۔سبسڈی کے خاتمہ سے ابھی دو دن پہلے انھیں انتخابات کو لے کربی جے پی میں منتھن ہوا ہے۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ ابھی کچھ دنوں پہلے جب امت شاہ نے کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدھارمیا پر ہندو مخالف ہونے کا الزام لگایا اور مبینہ طور پر بی جے پی کے ایک لیڈر نے کہا کہ اگر ہندو ہو تو بی جے پی کو ووٹ کرو اور مسلمان ہو تو کانگریس کو اسی پر طنز کرتے ہوئے سدھارمیا نے بھی کہا کہ وہ لوگ بھی ہمیں رام مخالف اور ہندو مخالف کہتے ہیں جس کے نام ہی میں ’رام‘ ہے۔ اسی طرح گجرات میں کانگریس کے ’جینو دھاری‘ راہل گاندھی کی انڑی اور روزانہ کسی نہ کسی مندر میں پوجا نے ہندتو ووٹ بینک کو کمزورکردیا تھا لہذا اسے مضبوط کرنے کا کوئی نہ کوئی انتظام ضروری تھا۔ بی جے پی کی انتخابی میٹنگ کے دودن بعد حج سبسڈی کے خاتمے کا اعلان ٹائمنگ پر لگائے گئے شاٹ کو بتانے کےلئے کافی ہے۔
ظاہر ہے یہ فیصلہ شدت پسند ہندوؤں اور ہندتوا کے پرستاروں کےلئے کسی مژدہ سے کم نہیں ہے ۔ اس سے جہاں ووٹ بینک مضبوط ہوگا وہیں کانگریس کی چڈی بھی ڈھیلی ہوگی ۔ طلاق کے معاملہ میں مسلمانوں کی گندگی کا فائدہ اٹھا کرکم سے کم بی جے پی نے 2 فیصد مسلم خواتین کے ووٹ بینک میں سیندھ لگا ہی لیا تھا،اب حج سبسڈی کو جانے والے پیسوں سے مسلم بچیوں کی تعلیم سے نقب زنی کے مزید مستحکم ہونے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ مسلم ووٹوں میں بی جے پی کی سیندھ صرف کانگریس ہی نہیں بلکہ تمام نام نہاد سیکولرپارٹیوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ مودی حکومت یہ فیصلہ نہ کرتی مگرخواہ نرم یا گرم بی جے پی سمیت تمام پارٹیاں اب ’وکاس‘ کے ساتھ ’ہندتوا‘ کا تڑکا لگانے لگی ہیں۔ اس لئے ہندووں کو یہ باور کرانے کےلئے کہ ان کے ووٹوں کے اصلی حقدارہم ہی ہیں، بی جے پی کو بظاہر کچھ نہ کچھ مسلم مخالف فیصلہ لینا ہی تھا ۔
رہی بات اس فیصلے کی تو اس سے مسلم بھی خوش اور ہندو بھی خوش ۔ مسلمانوں کو لگ رہا ہے کہ احسان ختم ہوگیا حالانکہ حکومت نے اسے دوسری جانب منتقل کردیا ہے ۔ ہندوؤں کولگ رہا ہے کہ حکومت نے مسلمانوں سے چھین لیا ہے اورانھیں ’مان سرووریاترا‘ وغیرہ پر دی جانے والی 1 لاکھ کی امدادی رقم جاری ہے، یہ سچ بھی اور دونوں طرف کی خوش فہمی بھی ۔ نہ مسلمانوں کے اوپر سے احسان اترا ہے نہ مسلمانوں کا حق چھینا گیا ہے،البتہ مودی حکومت نے ایک تیرسے کئی شکار کرکے اپنا الوضرورسیدھا کرلیا ہے۔
Categories: فکر و نظر