خبریں

’اسمارٹ گاؤں کے بغیر اسمارٹ سٹی ممکن نہیں ‘

ملک کی سب سے نوجوان سرپنچ چھوی راجاوت نے کہا کہ پنچایت رقم کے لئے نوکرشاہی پر منحصر ہیں، ان کو مالی طاقتیں فراہم کی جانی چاہیے، وہیں صنعت کار کلپنا سروج نے روزانہ دو روپے کمانے سے لےکر کروڑوں کا کاروبار قائم کرنے کی کہانی بتائی۔

Photo: Facebook-Reuters

Photo: Facebook-Reuters

نئی دہلی : ایم بی اے کرنے کے بعد گاؤں کی خدمت کرنے کے لئے سرپنچ بنیں چھوی راجاوت نے کہا کہ ملک اور اسمارٹ سٹی کی مجموعی ترقی کے لئے گاؤں کی ترقی ضروری ہے۔  انہوں نے کہا کہ گاؤں کو اسمارٹ بنائے بنا اسمارٹ سٹی ممکن نہیں۔راجاوت نے کہا کہ پنچابٹ رقم کی منظوری کے لئے نوکرشاہی پر منحصر ہیں۔  نتیجہ دینے کے لئے پنچایت کو مالی طاقتیں فراہم کی جانی چاہیے۔

فکّی لیڈیز آرگنائزیشن (ایف ایل او) کی طرف سے ‘ خواتین : جنہوں نے اپنی راہیں خود بنائیں  ‘ نام کے پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے راجستھان کے سوڈا گاؤں کےسرپنچ چھوی راجاوت نے کہا، ‘ اسمارٹ گاؤں کے بغیر اسمارٹ سٹی ممکن نہیں ہیں ہم شہروں کی آرام دہ زندگی میں رہتے ہیں اور اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ گاؤں میں رہتے ہیں۔  ہرکوئی براہ راست یا بلاواسطہ طور پر گاؤں سے متاثر ہے۔  ‘

انہوں نے کہا کہ دیہی سطح پر منتخب نمائندہ نتیجہ دینے میں اہل نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس مطلوبہمالی خودمختاری نہیں ہے۔  راجاوت نے کہا، ‘ پنچایت کو ان کے صواب دید پر استعمال کے لئے رقم دیا جانا چاہیے۔  فی الحال پنچایت رقم کے لئے نوکرشاہی کی منظوری پر منحصر ہیں۔  ‘

چھوی راجاوت اس وقت چرچےمیں آئی تھیں جب انہوں نے کارپوریٹ کی نوکری چھوڑ‌کر اپنے گاؤں کے سرپنچ عہدے کا انتخاب لڑاتھا۔  چھوی راجستھان کے ٹونک ضلع‎ کی مالپرا تحصیل کے سوڈا گاؤں کی سرپنچ ہیں۔  سوڈا گاؤں جئے پور سے 60 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ایم بی اے کرنے کے بعد انہوں نے ٹائمس آف انڈیا، کارلسن گروپ آف ہوٹلس، ایئرٹیل جیسی کمپنیوں میں کام کیا ہے۔  وہ ملک کی پہلی خاتون سرپنچ ہیں جس کے پاس ایم بی اے کی ڈگری ہے۔  وہ ملک کی سب سے نوجوان سرپنچ بھی ہیں۔

اس موقع پر، دلت صنعت کار  کلپنا سروج نے اپنے تجربوں اور تکلیفوں کے بارے میں بات کی۔ روزانہ دو روپے کمانے کے لئے جدو جہد کرنے والی کلپنا فی الحال کروڑوں کا کاروبار کرنے والی کمپنی چلا رہی ہیں۔مہاراشٹر کے چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی کلپنا نے غریبی سے اٹھ‌کر ایک صنعت کار بننے اور پھر پدمشری انعام سے  سرفراز ہونے کی کہانی بتائی۔  سروج نے کہا کہ کامیابی کا راستہ مشکل لیکن ناممکن نہیں۔

مہاراشٹر کے اکولا ضلع‎ کے روپرکھیڑا گاؤں میں پیدا ہوئیں کلپنا کو بچپن سے ہی صنفی امتیاز اور ذات پات کو لے کر امتیازی  سلوک کا مقابلہ کرنا پڑا تھا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 12 سال کی عمر میں ہی ان کی شادی کر دی گئی تھی۔  جہاں ان کو گھریلو نوکرانی سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا تھا۔  شادی کے چھ مہینے بعد ہی ان کے والد ان کو واپس اپنے گھر لےکر آ گئے۔  ان کے والد مہادیو پولس کانسٹبل تھے۔

سسرال والوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر انہوں نے ایک بار زہر بھی کھا لیا تھا۔  ظلم و ستم کی وجہ سے ان کی پڑھائی بھی چھوٹ گئی تھی۔کچھ کرنے کے لئے گاؤں میں ان کے پاس زیادہ اختیار نہیں تھا۔  گاؤں میں وہ صرف کھیتی کر سکتی تھیں۔  وہ ممبئی جانا چاہتی تھیں لیکن گھروالوں کو یہ منظور نہیں تھا۔

حالانکہ کسی طرح گھروالوں سے لڑجھگڑ‌ کر 15 سال کی عمر میں ممبئی پہنچی۔  یہاں انہوں نے کپڑوں کی ایک دکان پر کام کرنا شروع کیا۔  اس کے بعد انہوں نے اپنا ایک بوٹک کھولا۔وہ ریڈیو سنا کرتی تھی۔  ریڈیو پر انہوں نے سرکاری اسکیموں کے تحت لون ملنے کی جانکاری ملی۔  90 کی دہائی میں انھیں 50 ہزار روپیے کا لون ملا اور اپنی محنت اور لگن کے دم پر آج وہ ایک کامیاب صنعت کار ہیں۔  سال 2013 میں ان کو پدمشری اعزاز سے نوازا گیا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)