پچھلے کچھ وقتوں میں کئی سنگین جرائم میں بچوں کے شامل ہونے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
ہم بیتے 17 جنوری کو لکھنؤ واقع برائٹ لینڈ کالج کی کلاس سات کی 11 سالہ طالبہ کے ذریعے اپنے کالج میں چھٹی کرانے کے لئے پہلی کلاس کے معصوم طالب علم کو دوپٹے سے باندھنے اور چاقو سے مار ڈالنے کی کوشش کی ساری پرتیں بھی نہیں ادھیڑ پائے تھے کہ ہریانہ کے یمنانگر واقع سوامی وویکانند پبلک اسکول کے 12ویں کے طالب علم کے ذریعے اپنے پرنسپل کو گولیوں سے بھون ڈالنے کی خبر نے ہلاکر رکھ دیا۔
ابھی کچھ دن پہلے ہی بالغ ہوئے یہ طالب علم صرف اتنی سی بات پر انتقام کے جذبہ سے بھر اٹھا کہ پرنسپل نے لگاتار غیرحاضری کو لےکر اس کو ڈانٹا اور اس کے پروجیکٹ فائل پر دستخط کرنے سے منع کر دیا تھا۔ یہ کہہکر کہ وہ اتنی خراب پروجیکٹ رپورٹ منظور نہیں کرنے والے ہیں۔ پھر تو وہ اپنے والد کی لائسینسی ریوالور چرا لایا اور…!
گزشتہ سال ستمبر میں ہریانہ کے ہی گروگرام کے ایک بڑے پرائیویٹاسکول میں 16 سالہ طالب علم کے ذریعے دوسرے درجے کے طالب علم کی بے رحمی سے قتل کرنے کے بعد یہ دوسری ایسی واردات ہے، جس نے نہ صرف اس ریاست بلکہ پورے ملک کے سماجی، ثقافتی اور تعلیمی مستقبل کو لےکر پرانے اندیشوں کو تو گہرا کیا ہی ہے، نئے بھی پیدا کر دئے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ ہریانہ ان دنوں بچیوں سے گینگ ریپ، اغوا اور قتل کی ایک کے بعد ایک واردات کے حوالے ہیں اور تین سال سے اس کے اقتدار پر قابض وزیراعلیٰ منوہرلال کھٹر یہ کہہ کر انھیں روکنے کی ذمہ داری سے پلہجھاڑ لے رہے ہیں کہ ساری خرافات کی جڑ ریاست کی پچھلی حکومت ہے، جو خراب قانونی نظام کی وراثت چھوڑ گئی ہے۔
ایسے میں اس قتل کو لےکر بھی ان سے کسی بامعنی رد عمل کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ویسے بھی، اس نے جو خدشات پیدا کئے ہیں، ان کو کسی ایک ریاست یا علاقے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔لیکن جو ایک چیز گروگرام سے لکھنؤ اور لکھنؤ سے یمنانگر تک آئینے کی طرح صاف ہے، وہ یہ کہ طالب علموں کے تشدد پر اتر آنے کی یہ تینوں ہی وارداتیں شہروں / مہانگروں میں واقع نجی اسکولوں میں ہوئی ہیں۔
سرکاری اسکولوں میں ہوئی ہوتیں تو اب تک یہ ان کے بد حال نظام پر سو سو لعنتیں بھیج رہے ہوتے، لیکن اب ان کو یہ قبول کرنا بھی گوارا نہیں کہ ان کے طالب علموں کے اس تشدد کا کوئی میلان نجی کاری کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوا ‘ عالی مرتبت مدن موہن مالویوں کی نئی جماعت ‘ کو تعلیم کو خرید-فروخت کی چیز بنانے میں حاصل ‘ کامیابی ‘ تک بھی جاتی ہے۔
کیا کیجئےگا، عوام سے بے پروا حکومتوں کے اس دور میں نجی کاری کی عظمت ہی کچھ ایسی ہے کہ پرائیویٹ اسکول ایڈمنسٹریشن کی ساری ذمہ داری سے ایک مشت آزادی کے لئے ‘ دلیل ‘ دئے جا رہے ہیں کہ طالب علم اسکولوں میں تو کچھ ہی گھنٹے گزارتے ہیں اور ان کی ذہنیت کا تعین ان کے ماں باپ یا سرپرستوں کے ذریعے ان کے گھروں میں کیا جاتا ہے۔
یوں تو بات کچھ حد تک صحیح بھی ہے۔ کوئی طالب علم اپنے گھر میں بڑوں کو ‘ ہر حال میں خواہشوں کی حصولیابی ‘ کے لئے کسی بھی اخلاقیات، معیار یا اقدار کے قابل نہیں دیکھتے تو خود اسکول میں ان کی فکر کیوں کرنےلگا؟لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ تب یہ اسکول محض ‘ کچھ گھنٹوں ‘ کے لئے موٹی-موٹی فیس کیوں وصول کرتے ہیں اور کیوں اپنے پر پھیلاکر اس دیہی ہندوستان کو بھی اپنے پنجوں میں سمیٹنے کو بےتاب ہیں، جہاں تعلیم کی خرید فروخت میں لاچار طبقوں کے طالب علم اس قدر بھگوان بھروسے ہیں کہ ان میں سے 36 فیصدی ملک کی راجدھانی کے نام تک نہیں جانتے اور آدھے سے زیادہ معمولی ضرب تقسیم کے سوال بھی حل نہیں کر پاتے!
لیکن 24 ریاستوں کے 28 ضلعوں کے 30 ہزار طالب علموں کے درمیان سروے میں اجاگر ہوئے ان حقائق سے نجی شعبوں کی بانچھیں کھلی ہوئی ہیں تو اس لئے نہیں کہ وہ پوری طرح سے اس بدحالی کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ہاں، اس کے خاتمے کے وعدے پر سرپرستوں کو دھوکہ کے اس کے ارادے پر قطعی شک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس نے اپنی مہارت کو کبھی چھپایا نہیں اور اس کے طالب علموں کی ان کارستانیوں کے بعد یہ صاف ہونا باقی نہیں کہ وہ کتنا غیر ذمہ دارہے اور کیسے شہری تیار کر رہا ہے۔
حال میں ہی ہمیں چھوڑ گئے ہندی کے سینئر شاعر کنور نارائن کی نظم کے لفظ ادھار لےکر کہیں تو اس نجی کاری نے ہی ملک کی حالت بگاڑکر رکھ دی ہے کہ نہ اسکول، اسکول رہ گئے ہیں، نہ ہسپتال، ہسپتال اور بچےہوں یا بڑے، سب کے سب اپنی پرانی پہچانوں سے الگ ہونے کو لعنتی ہیں :
کل پھر ایک ہتیا ہوئی
عجیب پرستیتھیوں میں
میں اسپتال گیا
لیکن وہ جگہ اسپتال نہیں تھی
وہاں میں ڈاکٹر سے ملا
لیکن وہ آدمی ڈاکٹر نہیں تھا
اس نے نرس سے کچھ کہا
لیکن وہ اِستری نرس نہیں تھی
پھر وہ مجھے آپریشن روم میں لے گئے
لیکن وہ جگہ آپریشن روم نہیں تھی
وہاں بےہوش کرنے والا ڈاکٹر پہلے سے موجود تھا
لیکن وہ بھی دراصل کوئی اور تھا
پھر وہاں ایک ادھ مرا بچّہ لایا گیا
جو بیمارنہیں بھوکا تھا
ڈاکٹر نے میز پر سے آپریشن کا چاقو اٹھایا
مگر وہ چاقو نہیں زنگ لگا بھیانک چھرا تھا
چھرے کو بچّے کے پیٹ میں بھونکتے ہوئے
اس نے کہا اب یہ بالکل ٹھیک ہو جائےگا!
ہاں، ان بچّوں کو اس طرح ‘ بالکل ٹھیک ‘ کرنے کے عمل میں کئی دیگر عوامل پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہریانہ میں اس قتل سے ٹھیک پہلے آل انڈیا ویدک کانفرنس میں حصہ لینے مہاراشٹر کے اورنگ آباد گئے مرکزی وزیر ستیہ پال سنگھ نے صحافیوں کے سامنے دعویٰ کیا کہ انسان کی مسلسل ترقی کے چارلس ڈارون کا اصول ‘ سائنسی طور سے غلط ہے کیونکہ ہمارے آباواجداد نے کبھی کسی بندر کے انسان بننے کا تحریری یا زبانی ذکر نہیں کر کیا۔ انسان جب سے زمین پر دیکھا گیا ہے، انسان ہی رہا ہے اور طالب علموں کو یہ بات بتانے کے لئے اسکول کالجوں کے نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ‘
نریندر مودی حکومت کے اور بھی کئی وزیر آج کل، کبھی بھی اور کہیں بھی، کچھ بھی عجیب و غریب بیان دینے سے پرہیز نہیں کرتے، اس لئے اکثر ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، لیکن ستیہ پال سنگھ کا قول یہاں اس لئے بامعنی ہے کیونکہ ملک کا محکمہ تعلیم بھی ان کی وزارت کے ہی ماتحت ہے۔
سوال ہے کہ جب ملک کے وزیر تعلیم ہی یہ تمیز نہیں کر پائے ہیں کہ وہ 19ویں صدی کے انگریز فطرت پرست ڈارون اور دوسروں کو ڈارو ن ازم کی طرف سے دیے گئے حیاتیاتی ترقی سے متعلق اس نظریے کو غلط طور پر وضاحت کرنے کا اختیار نہیں ہے اور یہ سائنس دانوں کے غور و فکر کا موضوع ہے، تو ان کےتھوپے ہوئےتعلیمی نظام سے ملعون طلبہ و طالبات اپنے اندر اس کی ترقی کیسے کریں؟
کیا راجستھان کے وزیرِ مملکت برائے تعلیم واسودیو دیونانی کی مدد لیں، جن کا دعویٰ ہے کہ کشش ثقل کا اصول نیوٹن سے ایک ہزار سال قبل برہماگپت دوم نے دیا تھا اور اس کو بعد میں جدید سائنس دانوں کے ذریعے فروغ دیا گیا؟ایسے عظیم تجربہ کاروں کے پاس ہمارے نونہالوں کی تعلیم اور مستقبل کی تعمیر کا ذمہ ہے تو کیا تعجب کہ ہم مسلسل ایسی واردات سے دو چار ہو رہے ہیں، جو ہماری سماجی سوجھ بوجھ سے پرے کہانیاں لگتی ہیں۔
اس سلسلے میں سعادت حسن منٹو کی ایک مختصر کہانی یاد آتی ہے :
شہر کے ناکے پر ایک ہوٹل کے پاس کوئی واردات ہوئی تو پولیس انسپکٹر نے ایک سپاہی سے وہاں پہرا دینے کو کہا۔
دوسرے دن ایک اسٹور کے پاس دوسری واردات ہو گئی، تو اس نے سپاہی کو پہلی جگہ سے ہٹاکر وہاں تعینات کر دیا۔ لیکن رات 12 بجے ہی ایک لانڈری کے پاس تیسری واردات ہو گئی۔
سپاہی کو وہاں جاکر پہرا دینے کا حکم ملا تو اس نے کہا، ‘ انسپکٹر صاحب، اب مجھے وہاں کھڑا کیجئے، جہاں نئی واردات ہونے والی ہے۔ ‘
ابھی تک واقعات کا پیچھا کرتے آ رہے ہمارے کپتان اس مختصر کہانی کے آئینے میں اپنی شکلیں دیکھکر ہی ان تشدد اختیار کرنے والے طالب علموں کا وہ طبقاتی کردار پڑھ پائیںگے، جو مسلسل عدم مساوات سے پیدا ہوا ہے۔ تب وہ اس نتیجہ تک بھی پہنچ سکیںگے کہ ملک کے سارے طالب علم ان کے جیسے نہیں ہو گئے اور اس بہانے ان سب پر تہمتیں نہیں لگائی جا سکتیں، کیونکہ ان سب کے والد کے پاس ایسی لائسینسی یا غیرلائسینسی بندوق نہیں ہیں۔
اس آئینے میں نہیں دیکھیںگے تو بالغ ہونےکی عمر گھٹاتے اور برےکاموں کی سزا کڑی کرتے یعنی ‘ پات پات کو سینچبو، بری بری کو لون ‘ والی کہاوت کو سچ کرتے رہ جائیںگے۔
ہاں، ان کے یہ نہ سمجھنے کی قیمت یہ سارا ملک چکائےگا کہ ان حالات میں غیرسماجی ہوتے جا رہے سماج کو اس کا کھویا ہوا سماجی سمجھ لوٹانا زیادہ ضروری ہے، کیونکہ بچے تبھی دوراندیشیاور شعور سے ثروت مند ہو سکتے ہیں، جب بڑے خود کو جہالت سے بچائے رکھ سکیں۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں)
Categories: فکر و نظر