راجاؤں کی تاریخ میں یقین کرنے والے لوگ رعایا کی تاریخ سے کتراتے ہیں۔ آپ نے بھی غور کیا ہوگا کہ خلجی، رتن سنگھ اور پدماوتی کی تثلیث میں الجھی ہوئی فلم رعایا کے رہن سہن، ان کی سوچ سے پوری طرح کنارہ کئے ہوئی ہے۔
میں نے سنجے لیلا بھنسالی کے نام سورا بھاسکر کا خط پڑھا۔ یہ خط ماڈرن فہم اورذی شعور عورت کے ذریعے اس مرد کو لکھا گیا ہے، جس نے پوری شان و شوکت کے ساتھ لوک کہانی میں پوشیدہ راجپوتانہ شان کے سامراجی تاریخ کا فلمی پاٹھ تیار کیا ہے۔ اچھی فلم وہ ہوتی ہے، جو اپنی کہانی کے نتیجے میں ناظرین کو فکر و خیال عطا کرتی ہے۔ اس لحاظ سے پدماوت ایک ترقی پسندمخالف خیال ہے کیونکہ چتّوڑ کے قلعے میں عورتوں کے جوہر کو یہ فلم درست ٹھہراتی ہے۔ پدماوتی کے ساتھ سیکڑوں عورتوں کا جوہر آپ کو پرانے ہندوستانی سماج میں عورت کی بے بسی کی علامت نہیں لگتا بلکہ آگ میں کود جانے والی ان عورتوں کو ہیرو ماننے کے لئے اکساتا ہے۔ جو سماج مرد اساس ہے، اس میں عورتیں شہادت کی تقدیر کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں۔ دہلی کا بادشاہ علاءالدین خلجی بھی عورتوں کو کھلونا سمجھتا ہے اور میواڑ کا شہنشاہ راول رتن سنگھ بھی پدماوتی کو جوہر کی اجازت دےکر مردوں سے الگ عورتوں کی شناخت کوخارج کرتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا، اگر سنجے لیلا بھنسالی نے خلجی اور رتن سنگھ کی کہانی کے بہانے اس وقت کی عورتوں کے حالات پر فلم بنائی ہوتی!
میں نے کل پدماوت دیکھی۔ اتفاق سے جس دن فلم ریلیز ہوئی، میں جئے پور میں تھا اور راجستھان میں اس فلم کو ریلیز نہیں ہونے دیا گیا ہے۔ راجستھان کے علاوہ تین اور ریاستوں میں پدماوت ریلیز نہیں ہوئی ہے۔ فلم کی ریلیز کے بعد میں نے کوئی تبصرہنہیں کیا، کیونکہ کل تک فلم میں نے دیکھی نہیں تھی۔ ریلیز سے پہلے کرنیسینا کے تانڈو کو لےکر میرا غصہ اس لئے زیادہ تھا، کیونکہ وہ تانڈو اظہار کی آزادی کے خلاف تھا۔ اظہار کیسا بھی ہو، ایک ماڈرنسماج میں اس کو روکنا ناانصافی ہے۔ کل جب ہم نے فلم دیکھی، تب میرے والد ساتھ تھے۔ ان کا پہلا رد عمل یہی تھا کہ اس فلم میں تو وہی سب ہے، جس سے کرنی سیناکے نظریات کو بنیاد ملتی ہے-پھر وہ اس کے خلاف کیوں ہے؟ دراصل جو اظہارخیال اور ترقی پسندیت کو تاریخی خرابی مانتا ہے-وہ اتنا خودکش ہوتا ہے کہ خود کے لئے خطرناک ہوتا ہے۔ اگر پدماوت کے پیچھے کوئی تجارتی سازش نہیں ہوگی، تو مستقبل میں کرنی سینا کو فلم کے خلاف اپنی کرنی کے لئے افسوس ہوگا اور ضرور ہوگا۔
ایک اور بات جو مجھے کہنی ہے، وہ یہ کہ بحیثیت انسان کو انسان سمجھنے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے پاس انسان کو سمجھنے کے دو ہی درجے ہوتے ہیں۔ ویلن اور ہیرو۔ جبکہ کسی بھی انسان کے اندر یہ دونوں ہی صفات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پدماوت کا علاءالدین خلجی ایک خطرناک بدمعاش ہے اور راول رتن سنگھ اور پدماوتی ایشور کا اوتار۔یہی وجہ ہے کہ پدماوت میں علاءالدین خلجی کی میواڑ پر فتح کو راجپوتوں کی تباہی کے برعکس ایک بڑی شکست کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔ یہ شکست اس لئے بھی لگتی ہے کیونکہ جس پدماوتی کے لئے علاءالدین خلجی میواڑ پر حملہ کرتا ہے، وہ پدماوتی اس کو حاصل نہیں ہو پاتی ہے۔ وہیں راول رتن سنگھ ایک بیوی کے ہوتے ہوئے بھی سری لنکا جزیرے سے نایاب موتیوں کے ساتھ جب پدماوتی کو حاصل کرتا ہے، تو اس کو ہم اتنی نفرت سے نہیں دیکھ پاتے۔ کیا وجہ ہے کہ خلجی کی ایک سے زیادہ عورت کے لئے نفسانی خواہش ہمیں بری لگتی ہے، لیکن اسی برائی کے چلتے راول رتن سنگھ ہمیں برا نہیں لگتا؟ یہی وہ نقطہ نظر ہے، جس کی گفتگو سورا بھاسکر نے اپنے خط میں کی ہے۔
یہ تاریخ ہے کہ راجپو توں کی بربادی کے پیچھے افیون، عیّاشی، جھوٹی شان اور آپسی جھگڑے کی وجہ رہے ہیں، لیکن پدماوت میں فلمکار کا نقطہ نظر اس سچائی کے ایک دم برعکس ہے۔ راجاؤں کی تاریخ میں یقین کرنے والے لوگ رعایا کی تاریخ سے کتراتے ہیں۔ آپ نے بھی غور کیا ہوگا کہ خلجی، رتن سنگھ اور پدماوتی کی تثلیث میں الجھی ہوئی فلم رعایا کے رہن سہن، ان کی سوچ سے پوری طرح کنارہ کئے ہوئی ہے۔ پدماوتی کے جس جوہر نے اپنے وقت کو اور مستقبل کو جس طرح سے متاثر کیا، اس کا کوئی بیان فلم میں نہیں ہے۔ خلجی میواڑ کے جن گاؤں کو لوٹتے ہیں، ان گاؤں کا کوئی منظر فلم میں نہیں ہے۔ اس طرح یہ فلم پوری طرح سے یک طرفہ ہے اور بہت کوشش کرنے کے بعد بھی اس فلم کے حق میں ، میں کوئی دلیل نہیں جٹا پا رہا ہوں۔ سوائے اس کے کہ سنجےلیلا بھنسالی نے شان و شوکت کا ایک اور سمندر پار کر لیا ہے۔
Categories: فکر و نظر