دو ہزار کروڑ کے فنڈ کے ساتھ پچاس کروڑ لوگوں کو بیمہ دینے کی کرامت ہندوستان میں ہی ہو سکتی ہے۔ یہاں کے لوگ ٹھگے جانے میں ماہر ہیں۔ دو بجٹ پہلے ایک لاکھ بیمہ دینے کا اعلان ہوا تھا، آج تک اس کا پتا نہیں ہے۔
ہندوستان کے کسانوں نے آج اخبار کھولے ہوںگے تو دھوکہ ملا ہوگا۔ جن اخباروں کے لئے وہ محنت کی کمائی کا ڈیڑھ سو روپیہ ہر مہینے دیتے ہیں، ان میں سے کم ہی نے بتانے کی جرأت کی ہوگی کہ ایم ایس پی پر ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ربیع کی فصل کے دام لاگت کا ڈیڑھ گنا کئے جا چکے ہیں۔ خریف کے بھی ڈیڑھ گنا دئے جائیںگے۔
شاید ہی کسی اخبار نے کسانوں کو بتایا ہوگا کہ اس کے لئے حکومت نے الگ سے کوئی پیسہ نہیں رکھا ہے۔ انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے کہ 200 کروڑ کا اہتمام کیا ہے۔ 200 کروڑ میں آپ لاگت سے ڈیڑھ گنا زیادہ ایم ایس پی نہیں دے سکتے ہیں۔ اس پیسے سے اشتہار بنا کر کسانوں کو ٹھگ ضرور سکتے ہیں۔
کسانوں کو تو یہ پتا ہے کہ ان کی جانکاری اور مرضی کے بغیر بیمہ کا پریمیم کٹ جاتا ہے۔ یہ نہیں پتا ہوگا ان کی پیٹھ پر سوار بیمہ کمپنیوں نے 10000 کروڑ روپے کما لئے ہیں۔بیمہ کمپنیوں نے حکومت اور کسانوں سے پریمیم کے طور پر 22004 کروڑ روپے لئے ہیں۔ بیمہ ملا ہے محض 12020 کروڑ۔ یعنی بیمہ کمپنیوں نے کسانوں سے ہی پیسے لےکر 10000 کروڑ کما لئے۔ ایکسپریس کے ہریش دامودرن لکھتے ہیں کہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسمارٹ فون، جی پی ایس، ڈرون، ریموٹ سینسنگ سے دعویٰ کا تصفیہ ہوگا، جبکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے۔
بیمہ لےکر تلاش کیجیے ہاسپٹل کہاں ہے، ہاسپٹل میں ڈاکٹر کہاں ہے
صحت کو لے کرڈھانچہ کیسا ہے، آپ جانتے ہیں۔ اس بجٹ میں ہیلتھ کا حصہ بہت کم بڑھا ہے مگر اسکیمیں بڑھ گئی ہیں۔ اعلان ہو گیا کہ تین ضلعوں کے درمیان ہاسپٹل بنےگا۔ یہ بھی ضلعوں میں ایک فیل گڈ پیدا کرنے کے لئے ہی ہے۔ پچھلے چار سال میں کتنے ہاسپٹل بنائے؟ اس کا کچھ اتاپتا نہیں، یہ نئے ہاسپٹل کب تک بنیںگے، رام جانے۔
ہم ضلعوں میں موجود کئی سرکاری ہسپتالوں کو بہتر بناکر صحت کا فائدہ دے سکتے تھے۔ ڈاکٹر پیدا کرنے پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ ایم بی بی ایس کے بعد ایم ڈی کرنے کی سہولت نہیں بڑھائی گئی ہے اس لئے ہسپتال بنانے کے نام پر ٹھیکےدار کماتے رہیںگے اور آپ ٹیمپو کرایہ دے کر دہلی ایمس کے لئے بھاگتے رہیںگے۔ آپ کی تقدیر جھوٹ کے گروہوں میں پھنس گئی ہے۔
کالج نہیں، نیتا جی کی ریلی میں جاکرپورا کر لیں اپنا کورس
پچھلے بجٹ تک آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم جیسے ادارہ کھلنے کا اعلان ہوتا تھا۔ اب حکومت نے ان اداروں کو ترقی کے لئے رام بھروسے چھوڑ دیا ہے۔ ضلع میں ان کا بورڈ تو دکھےگا لیکن ان کا معیار بننے میں کئی دہائی لگ جائیںگے۔ جو پہلے سے موجود ہیں ان کا بھی ڈھانچہ چرمرانے والا ہے۔ اب آپ پوچھیے کیوں؟ پہلے پوچھیے کیوں؟
پہلے حکومت ان اداروں کو قومی اعزاز کا ادارہ مانکر فنڈ دیتی تھی، جس کی جگہ اب ان کو ہوم لون کی طرح لون لینا ہوگا۔ حکومت نے اب ان اداروں سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
آئی آئی ٹی اور ایمس جیسے ادارے ہندوستان کی حکومتوں کی ایک شاندار کامیابی رہے ہیں۔ اس بار تو ایمس کا نام بھی سنائی نہیں دیا۔ کوئی پروگریس رپورٹ بھی نہیں۔ ایسے ادارہ کھولنے کی خبروں سے قصبوں میں ہلچل پیدا ہو جاتی ہے۔ وہاں بیٹھے لوگوں کو لگتا ہے کہ دہلی چلکر آ گئی ہے۔ دس سال بعد پتا چلتا ہے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔
تعلیم کا بجٹ اس بار 72000 کروڑ سے 85010 کروڑ ہو گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کو لے کر بجٹ 33329 کروڑ ہے۔ یہ کچھ نہیں ہے۔ صاف ہے حکومت یونیورسٹی کی کلاس روممیں ابھی اساتذہ کی بحالی نہیں کر پائےگی۔
آپ نوجوانوں کو بنا ٹیچر کے ہی پڑھکے پاس ہونا ہوگا۔ تب تک آپ نیتا جی کی ریلی کو ہی کلاس مانکراٹینڈ کر لیں۔ اسی میں ماضی سے لےکر مستقبل تک سب ہوتا ہے۔ تقریر میں قدیم میڈیکل سائنس تو ہوتا ہی ہے جس کے لئے میڈیکل کالج کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
تاریخ کے لئے طرح طرح کی فوجیں بھی ہیں جو مفت میں تاریخ اور علمِ سیاست پڑھا رہی ہیں۔ اسکولی تعلیم کا بجٹ آٹھ فیصد بڑھا ہے مگر یہ بھی کم ہے۔ 46356 کروڑ سے بڑھکر 50000 کروڑ ہوا ہے۔
15 لاکھ تو دیا نہیں، 5 لاکھ بیمہ کا جملہ دے دیا
2000 کروڑ کے فنڈ کے ساتھ پچاس کروڑ لوگوں کو بیمہ دینے کی کرامت ہندوستان میں ہی ہو سکتی ہے۔ یہاں کے لوگ ٹھگے جانے میں ماہر ہیں۔دو بجٹ پہلے ایک لاکھ بیمہ دینے کا اعلان ہوا تھا۔ خوب ہیڈلائن بنی تھی آج تک اس کا پتا نہیں ہے۔ اب اس ایک لاکھ کو پانچ لاکھ بڑھا کر نئی ہیڈلائن خریدی گئی ہے۔
ریونیو سکریٹری ہنس مکھ ادھیا کے بیانات سے لگ رہا ہے کہ وزیر خزانہ سے پارلیامنٹجانے کے راستے میں یہ اعلان جڑوایا گیا ہے۔ ادھیا جی کہہ رہے ہیں کہ اکتوبر لگ جائےگا لانچ ہونے میں۔ پھر کہہ رہے ہیں کہ ممکن ہے اس سال فائدہ نہ ملے۔ پھر کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم نیتی آیوگ اور ریاستوں سے ملکر اس کا ڈھانچہ تیار کر رہے ہیں۔
انڈین ایکسپریس نے بتایا ہے کہ کئی ریاستوں میں ایسی اسکیم ہے۔ آندھر پردیش میں 1.3 کروڑ غریب فیملیوں کے لئے این ٹی آر یونانی خدمات ہیں۔ غریبی لکیر سے اوپر کے 35 لاکھ فیملیوں کے لئے صحت یاب خدمات ہیں۔
تلنگانہ میں آرویگیہ شری ہے۔ ہرسال غریب فیملیوں کو ڈھائی لاکھ کا بیمہ مفت ملتا ہے۔ تمل ناڈو میں 2009 سے 1.54 کروڑ فیملیوں کو دو لاکھ کا بیمہ جلد دیا جا رہا ہے۔چھتیس گڑھ میں بھی ساٹھ لاکھ فیملیوں کو بیمہ جلد دیا جا رہا ہے۔ کرناٹک میں 1.4 کروڑ فیملیوں کو ڈیڑھ لاکھ تک کا کیشلیش بیمہ دیا جا رہا ہے۔ اقتصادی طور پر کمزور فیملیوں کو یہ بیمہ مفت میں دستیاب ہے۔
ہماچل پردیش میں بیمہ کی تین اسکیمیں ہیں۔ مرکز کی بیمہ اسکیم کے تحت 30000 کا بیمہ ملتا ہے اور وزیراعلیٰ بیمہ اسکیم کے تحت 1.5 لاکھ کا۔بنگال میں صحت ساتھی نام کا بیمہ ہے۔ ہر فیملی کو ڈیڑھ لاکھ کا بیمہ کوَر ملتا ہے، کسی کسی معاملے میں پانچ لاکھ تک کا بیمہ ملتا ہے۔ کم سے کم 3 کروڑ لوگ اس بیمہ کے دائرے میں آ جاتے ہیں۔
پنجاب میں 60 لاکھ فیملیوں کو بیمہ دئے جانے پر غور ہو رہا ہے۔ وہاں پہلے سے 37 لاکھ بی پی ایل فیملیوں کو بیمہ ملا ہوا ہے۔ گووا میں چار لاکھ کا بیمہ ہے۔ بہار میں کوئی بیمہ نہیں ہے۔
اس طرح دیکھیںگے کہ ہر ریاست میں غریب فیملیوں کے لئے بیمہ اسکیم ہے۔ کئی کروڑ لوگ ا س کے دائرے میں پہلے سے ہی ہیں۔ ان اسکیموں کا کیا ہوگا، پتا نہیں۔ اسی کو سلجھانے میں سال بیت جائےگا۔
دوسرا، ان بیمہ اسکیم کے بعد بھی غریب کو فائدہ نہیں ہے۔ مہنگی صحت ابھی بھی غریبی کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ لوگ علاج کی وجہ سے غریب ہو جاتے ہیں۔ ایک مطالعہ بتاتا ہے کہ بیمہ کی اتنی اسکیموں کے بعد بھی علاج پر خرچ ہونے والا 67 فیصد پیسہ لوگ اپنی جیب سے دیتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ ضرور بیمہ کے نام پر کوئی بڑا گیم چل رہا ہے جس کو ہم سمجھنے میں اہل نہیں ہیں۔ بجٹ میں ہی کہا گیا ہے کہ 330 روپے کے پریمیم والا پردھان منتری جیون جیوتی بیمہ اسکیم 5.22 کروڑ فیملیوں کو مل رہا ہے۔ اس کے تحت 2 لاکھ کی زندگی بیمہ ہے۔
13.25 کروڑ لوگوں کو وزیر اعظم تحفظ بیمہ اسکیم مل رہا ہے۔ اس کے لئے محض 12 روپے کا سالانہ پریمیم دینا ہوتا ہے۔ دو لاکھ کا کَور ہے۔ کتنے کو ملا ہے؟
جئیتی گھوش نے انڈین ایکسپریس میں لکھا ہے کہ پچاس کروڑ کو بیمہ اسکیم کا فائدہ دینے کے لئے حکومت کو 60 سے 1 لاکھ کروڑ تک خرچ کرنے ہوںگے۔ یہ کہاں سے آئےگا۔ بجٹ میں تو اس کا ذکر ہے بھی نہیں۔
اسمارٹ سٹی کی بج گئی سیٹی
بجٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسمارٹ سٹی اسکیم کا کام جاری ہے۔ اس کے لئے 99 شہروں کا انتخاب ہوا ہے اور 2 لاکھ کروڑ سے زیادہ کا بجٹ بنایا گیا ہے۔ ابھی تک 2350 کروڑ کے ہی پروجیکٹ پورے ہوئے ہیں۔
20852 کروڑ کے پروجیکٹ جاری ہیں۔ اس کا مطلب کہ اسمارٹ سٹی بھی جملہ ہی ہے۔ 2 لاکھ کروڑ کی اس اسکیم میں ابھی تک 2 ہزار کروڑ کی اسکیم ہی پوری ہوئی ہے۔زیرتعمیراسکیم کو بھی شامل کر لیں تو 23000 کروڑ کی ہی اسکیم چل رہی ہے۔ باقی سب سلوگن دوڑ رہا ہے۔ بہت سے لوگ اسمارٹ سٹی بنانے کے لئے فرضی اجلاس میں جا کر مشورہ دیتے تھے۔ اخباری مہم چلاتے تھے کہ اپنا میرٹھ بنےگا اسمارٹ سٹی۔ خواب پھینکو نہیں کہ لوگ دوڑے چلے آتے ہیں، بغیر جانے کہ اسمارٹ سٹی ہوتا کیا ہے۔
امرت اسکیم میں 500 شہروں میں تمام فیملیوں کو صاف پانی دینے کے لئے ہے۔ ایسا کوئی شہر ہے ہندوستان میں تو بتائیےگا۔ آنے جانے کا کرایہ اور ناشتہ کا خرچہ دوںگا۔
خیر 77640 کروڑ کی یہ اسکیم ہے۔ پانی سپلائی 494 پروجیکٹ کے لئے 19428 کروڑ کا ٹھیکہ دیا جا چکا ہے۔ سیویج ورک کے لئے 12 429 کروڑ کا ٹھیکہ دیا جا چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے اسکیم کے آدھے حصے پر ہی آدھا کام شروع ہوا ہے۔ پھر بھی اس اسکیم کی ترقی رپورٹ تو ملی اس بجٹ میں۔
ہندوستان میں 8.27 کروڑ لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔
نقصان نہیں سنبھلا تو سنبھالنا ہی چھوڑ دیا
حکومت چار سال سے مالی نقصان منضبط رکھنے کا اپنا ہدف پورا نہیں کر پائی ہے۔ بزنس اسٹینڈرڈ نے لکھا ہے کہ سرمایہ کاری میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے بجٹ کو دیکھنے کا۔
دوسرا طریقہ ہو سکتا ہے کہ جو سرمایہ کاری ہوئی وہ زمین پر کتنا گیا تو مالی سال 18 میں 190 ارب کم ہو گیا ہے۔ اس کو کیپٹل آؤٹلے کہتے ہیں۔ اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ بجٹ کے جان کار انہی اعداد و شمار پر غور کرتے ہیں اور گیم سمجھ جاتے ہیں۔ ہم ہندی کے قاری بیوقوف اخباروں کی رنگین گرافکس میں الجھکے رہ جاتے ہیں۔
جی ایس ٹی رانی جی ایس ٹی رانی، گھوگھو رانی کتنا پانی
جی ایس ٹی کے تحت ایک اسکیم ہے (PRESUMPTIVE INCOME SCHEME) میری سمجھ سے اس کے تحت آپ اندازہ لگاتے ہیں کہ کتنی آمدنی ہوگی اور اس کی بنیاد پر حکومت کو ٹیکس جمع کراتے ہیں۔
پہلے یہ اسکیم 2 کروڑ ٹرن اوور والوں کے لئے تھی، بعد میں حکومت نے اس کو گھٹا کر 50 لاکھ تک والوں کے لئے کر دی۔اس اسکیم کے تحت ایک سچائی کا پتا چلا۔ حکومت کو قریب 45 لاکھ رٹرن تو ملے مگر پیسہ بہت کم ملا۔ ایک یونٹ سے اوسطاً محض 7000 روپے۔ اوسط ٹرن اوور بنتا ہے 17 لاکھ روپے۔ یا تو کوئی چوری کر رہا ہے، کم ٹرن اوور بتا رہا ہے یا پھر واقعی کمائی اتنی ہی ہے۔
11 مہینے کی جی ایس ٹی آنے کے بعد اب حکومت کو لگ رہا ہے کہ 50000 کروڑ کا نقصان ہو سکتا ہے۔ حکومت اس سال ہی 4.44 لاکھ کروڑ نہیں جٹا سکی مگر امید ہے کہ 2018-19 میں 7.44 لاکھ کروڑ جٹا لےگی۔ دیکھتے ہیں۔
بزنس اسٹینڈرڈ لکھتا ہے کہ گروس کیپٹل فارمیشن (Gross Capital Formation) میں لگاتار گراوٹ ہے۔ مالی سال 2014 میں یہ جی ڈی پی کا 34.7 فیصد تھا، مالی سال 2017 میں 30.8 فیصد ہو گیا ہے۔حکومت جتنا خرچ کرتی ہے اس کا 70 فیصد فکسڈ کیپٹل فارمیشن (FIXED CAPITAL FORMATION) ہونا چاہیے، مگر یہ 28.5 فیصد سے کم ہوکر مالی سال 18 میں 26.4 فیصد ہو گیا ہے۔
1 کھرب کی اسکیمیں زیر التوا پڑی ہوئی ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ-ساتھ حکومت بھی اس میں شامل ہو گئی ہے۔
آپ اخباروں کے قاری ہیں تو غور سے پڑھیں۔ دیکھیں کہ آپ سے پیسے لےکر یہ اخبار آپ کو بیدار کر رہے ہیں یا بجٹ پر تھرڈ کلاس رنگین کارٹون بنا کر جھانسا دے رہے ہیں۔گودی میڈیا کا کینسر گاؤں قصبوں میں پھیل گیا ہے۔ اوپر سے آپ ہی اس کے پیسے دے رہے ہیں۔ ایک ہی اخبار پڑھنا بند کر دیں۔ ہر مہینے نیا اخبار لیں۔ ورنہ ایک دن آپ بھی گودی ہو جائیںگے۔ آنکھ کھلی نہیں کہ تھپکی سے سو جائیںگے۔
Categories: فکر و نظر