1 فروری 2018 کو عراق سے شائع ہونے والے اور دوسرے ممالک کے مختلف شہروں سے پرنٹ ہونے والےروزنامہ “الزمان” نےاردن میں مہنگائی کےخلاف مظاہروں کی خبر شائع کی ہے۔
29 جنوری 2018 کو شائع ہونے والے اخباروں میں یمن کے حالیہ دارالحکومت عدن میں غصہ کی لہر کو ایک بڑی خبر کے طور پرشائع کیاہے ۔ لندن سے شائع ہونے والے روزنامہ ” الشرق الاوسط” کے مطابق ان جھڑپوں کے دوران کم سے کم 15 افراد ہلاک اور درجنوں کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ اخبار کے مطا بق یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب “جنوبی ٹرانزیش کمیٹی” نامی جماعت کے مسلح افراد نے سرکاری دفاتر پر حملہ کیا اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ ان کی جھڑپیں ہوئیں۔ یمنی وزارات داخلہ نے حالات کے قابومیں ہونے کا دعوی کیا۔اس دوران یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی نے فوری طور پر فائر بندی کرنے اور فورسز کو بیرکوں میں واپس جانے کا حکم دیا۔
وزیر اعظم احمد عبید بن دغر نے ان واقعات کو “انقلاب کی کوشش” قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صورت حال ایک “جامع فوجی تصادم” کی جانب بڑھ رہی ہے اور اس سے صرف حوثی ملیشیاؤں اور ایران کو فائدہ ہوگا۔ دوسرے دن بھی یہ جھڑپیں کچھ علاقوں میں جاری رہی اور متحدہ عرب امارات اور سعودی زیر قیادیت کولیشن فورسیز کے درمیان اختلافات کی خبریں بھی میڈیا میں چلتی رہی،جب کہ کولیشن کے ترجمان نے ان افواہوں کو غلط قرار دیا۔
اگلے دن روزنامہ “الشرق الاوسط” نے اپنے پہلے صفحے پر یہ خبر شائع کی کہ لبنانی وزیر خارجہ جبران باسل کے لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کو بدمعاش اور لبنان میں فرقہ واریت اور سیکوریٹی مسائل کو ہوادینے کا ذمہ دار بتانے والے بیان نے لبنان میں فرقہ وارانہ اشتعال اور سیکورٹی مسائل پیدا کردیے، جس سے فریقین میں تنازعہ ایک غیر معمولی حد تک بڑھنے کے بعد صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لئے مختلف جہتوں میں سیاسی تحرکات کی ضرورت محسوس کی گئی ہے، خاص طور پر “تحریک امید” کے حامیوں کی جانب سے ٹائر جلائے گئے، بیروت اور بعلبک میں شاہراہیں بلاک کر دی گئی اور صدر میشال عون اور ان کے داماد باسیل کی تصویریں تک جلائی گئیں۔
1 فروری 2018 کو عراق سے شائع ہونے والے اور دوسرے ممالک کے مختلف شہروں سے پرنٹ ہونے والےروزنامہ “الزمان” نےاردن میں مہنگائی کےخلاف مظاہروں کی خبر شائع کی ہے۔ جس میں سینکڑوں مظاہرین نے حکومت سے مہنگائی کم کرنے کے لیے احتجاج کیا۔ اخبار کے مطابق وزیر اعظم آفس اور عمان میں پارلیمنٹ کے باہر مظاہرین حکومت گرانے اور پارلیمنٹ ختم کرنے کا مطالبہ کررہے تھے، پارلیمنٹ کے باہر تقریبا 500 افراد جمع ہوئے اور انہوں نے پلے کارڈ اٹھار کھے تھے جس میں لکھا تھا” بھوک کی سیاست نہیں چلے گی اور ۔۔۔ ، پارلیمنٹ گرے گی اور ٹیکس لگانے والی حکومت نہیں چلے گی۔
متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے روزنامہ “البیان” نے عادل الراشد کا ایک کالم 1 فروری 2018 کو بعنوان ” یمنی کیا چاہتے ہیں” شائع کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں کے دوسرے ملکوں کے شہریوں کی طرح یمنیوں کی اکثریت کی یہ خواہش ہے کہ ان کے ملک میں امن وسلامتی قائم ہو،اور ایک باعزت زندگی جینے کا حق شہریوں کو ملے ، روزی روٹی کے مواقع میسر ہوں ، تعلیم اور صحت کی سہولیات اچھی ہوں اور ملک کی تعمیر وترقی میں شہری حصہ لیں، اس طرح کی خواہش رکھنے والےعام شہری ہیں ، جن کے خواب چرالیے گئے اور ان کا بچپنا چھین لیا گیا اور نوجوانوں کو اس ایندھن میں جھونک دیا گیا جوحکمران طبقہ نے لگائی ہے۔ میرا سوال ہے آپس میں لڑنے والے گروپوں اور باہم مختلف جماعتوں سے کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں؟ ایک ملک مختلف شناختوں اوراکائیوں میں تقسیم ہوچکا ہے جس میں قبیلوں، پارٹیوں اور ظاہری اور غیر ظاہری وفاداریوں کی بنیاد پر فیصلے ہورہے ہیں۔ خالی پیٹ بارودوں اور گولیوں سے بھرے جارہے ہیں ،اسکول فوجی اڈوں کا کام کررہے، جس میں بچوں کو تعلیم کے بجائے ہتھیاروں سے مسلح کیا جارہا ہے اور یمن کے لوگ جس خوشحالی کے لیے جانے جاتے تھے وہ مایوسی،محتاجی، اور جہالت میں تبدیل ہوچکی ہے، اورجس بدعنوانی اور کرپشن سے لڑنے کےلیے ہر ہرہر فرنٹ اور محاذ پر ایک قیادت ہے اور کچھ فائدہ اٹھانے والے افراد ہیں جو مصلحت اور فائدہ کے مطابق بدلتے رہتے ہیں اور ایجنڈا کے مطابق کام کرتے ہیں اور جنگ بندی اورآگ بجھانے کی کسی کوشش کو ناکارہ بنانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔گروپ نے اپنی تلواریں اور قلم نکالے تھے اور جس کی بیخ کنی کے مطالبے ہورہے تھے وہ کرپشن اب ان کے پروگراموں کی پہچان اور سربراہوں اور ان کے ماننے والوں شان امتیازی بن گئی۔
الجزائر سے شائع ہونے والے اخبار ” الشروق” نے تونس کے دورے پر گئے فرانسیسی صدر کے اس اعتراف کوشائع کیا ہے جس میں فرانسیسی صدر نے لیبیا میں فرانس کی مداخلت کو ایک بہت بڑی غلطی سے تعبیر کیا ہے، اور یہ کہ اس غلطی کا ارتکاب دنیا کی بڑی طاقتوں نے کیا ہے، انہوں نے یہ کہا کہ فوجی مداخلت حل نہیں تھی اور یہ مداخلت کسی واضح سیاسی اور سفارتی لائحہ عمل تیار کے بغیر ہوئی تھی۔ ماکرون نے یہ باتیں تونس کے دورہ کے اختتام کے موقع پر منعقد ہونے والے پریس کانفرنس میں لیبیا کے حالات پر کیے گئے سوال کے جواب میں کہیں، ان کا کہنا تھا کہ فوجی مداخلت نے معمر قذافی کی حکومت توختم کردی لیکن اس کا کو بدل نہیں پیش کیا اور اسی وجہ سے یہ ایک غلط حل تھا جس نے لیبیا کو ایک بحران میں ڈھکیل دیا اور لیبیا کے پڑوسی ملکوں خاص طور سے تونس کی سیکوریٹی کو کمزور کردیا ہے۔
مصر سے شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار “الیوم السابع” نےمصری صدر عبدالفتاح السیسی کی سلطنت عمان کے دورے کی خبر کو نمایا ں طورپر شائع کیا ہے۔ اخبار کے مطابق صدر سیسی صدر بننے کے بعد اپنے پہلے دورے میں سلطنت عمان کا دورہ کررہے ہیں جس میں ان کی ملاقات سلطان قابوس اور حکومت کے بڑے ذمہ داروں سے ہوگی جس میں مختلف شعبوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو فروغ دینے کےبارے میں بات چیت ہوگی ۔
Categories: عالمی خبریں