کاس گنج تشدد کے بعد دورے سے لوٹی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں پولیس اور مقامی انتظامیہ کے کردار پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔
نئی دہلی: 26 جنوری کو اتر پردیش کے کاس گنج میں ہوئے تشدد کے بعد دہلی سے گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے علاقے کا دورہ کرنے کے بعد حقائق کو میڈیا کے سامنے رکھا۔ پریس کلب آف انڈیامیں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے غیر سرکاری تنظیم یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے تحت بنی اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیشکی۔
اس کمیٹی میں اترپردیش پولیس کے سابق آئی جی ایس آر داراپوری، سینئر صحافی امت سین گپتا، صحافی راکھی سہگل اور علیم اللہ خان سمیت کئی سماجی کارکن شامل تھے۔ 26 جنوری کو کاس گنج کے بہادر ویر عبدالحمید چوک پر مسلم کمیونٹی کے لوگ ترنگا پھہرا رہے تھے ،تبھی ایک این جی او سنکلپ فاؤنڈیشن اور اے بی وی پی کےکچھ نوجوان بائک ریلی نکال رہے تھے۔ چوک پر تنازعے کے بعد دونوں گروپ میں بحث ہوئی اور جوان اپنی بائک چھوڑکر وہاں سے بھاگ گئے۔
اس تنازعے کے درمیان گولی بھی چلی تھی، جس میں ایک جوان چندن گپتا کی موت ہو گئی اور دو دیگر جوان نوشاد اور اکرم بھی شدید طور سے زخمی ہو گئے۔ جائےواردات پر بائک چھوڑکر بھاگے نوجوانوں کے بارے میں ابتک پولیسنے کچھ نہیں کہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تفتیش جاری ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کاس گنج میں یہ فساد تمام طبقوںکے درمیان بھائی چارہ کو بگاڑنے اور آنے والے 2019 میں پارلیامنٹ انتخابات میں فائدہ لینے کے مقصدسے پہلے سے منصوبہ بند تھا۔قصبے سے لوٹے صحافی امت سین گپتا نے بتایا، ‘ کاس گنج ایسا قصبہ ہے جہاں تمام کمیونٹی کےلوگ بہت ہی قریب رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کے الگ الگ محلّے ہیں۔ دکانوں کی دیواریں بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں لوگ مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ کاس گنج میں صرف بابری مسجد گرانے کے بعد فساد ہوا تھا ، اس کے پہلے یا بعد میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ‘
چندن گپتا کی موت کو لےکر انہوں نے کہا، ‘ میں نے وہاں دونوں کمیونٹیز سے بات کی اور پایا کہ مسلم کمیونٹی کے لوگ بھی چندن کی موت کو لےکر غم زدہ ہیں۔ ایک بات جو سب سے اہم ہے کہ چندن کو کس جگہ گولی لگی تھی اور کس نے اس کو مارا یہ ابتک صاف نہیں ہے۔ وہاں کی دونوں کمیونٹی میں کشمکش کی حالت بنی ہوئی ہے کہ آخر چندن کو کس نے گولی ماری۔ کاس گنج کے باشندے ابھی تک کسی کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ میڈیا میں کئی نام سامنے آ رہے ہیں، لیکن وہاں کے لوگوں کو کچھ نہیں پتا۔ ‘
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ابتک ایک بھی بائک کے مالک کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ ایس ایچ او شترودھن سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ ابھی جانچکر رہے ہیں۔ پولیس نے یہ بھی صاف کر دیا ہے کہ عبدالحمید چوک سے بائک ریلی لے جانے کی کسی بھی طرح کی اجازت انتظامیہ کے ذریعے نہیں دی گئی تھی۔
ایسا بتایا گیا کہ 26 جنوری کو پولیس زیادہ جگہوں پر موجود نہیں تھی کیونکہ پولیسلائن میں یوم جمہوریہ کا پروگرام چل رہا تھا۔ ہلکامحلّے میں ہوئے ایک تنازع میں پولیس ایک گھنٹے بعد پہنچی تھی۔اس دن سنکلپ فاؤنڈیشن اور اے بی وی پی نے پربھو پارک سے صبح 8 بجے ہوائی فائرنگ کر کے ریلی شروع کی تھی اور ریلی کے ساتھ پو لیسکے لوگ موجود نہیں تھے۔ جب دونوں گروپوں کے درمیان تنازعہ ہوا، اس کے بعد ریلی میں شامل کچھ جوان بلرام گیٹ کے پاس آکر وہاں کھڑی ایک ٹرولی میں لدی اینٹوں سے پتھربازی کرنے لگے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنکلپ فاؤنڈیشن اور اے بی وی پی نے 15 اگست، 2017 کو بھی ایسی ریلی کا انعقاد کیا تھا، لیکن اس وقت کوئی تنازعہ نہیں ہوا تھا۔تنازعہ ہونے کے بعد 28 جنوری کو کلکٹر نے ایک امن جلوس بلایا تھا اور کہا کہ علاقے کے مسلموں کو اپنی دکان کھولنی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق دکانوں کو کھولتے اور بند کرتے وقت پولیس نے بہت سارے مسلمانوں کو گرفتار کیا۔
بنو جیوتسنا لاہری نے پولیسپر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ‘ پولیس نے اس معاملے میں جانبداری کی ہے۔ فسادات میں سب سے زیادہ نقصان مسلمان کاروباریوں کا ہوا ہے کیونکہ ایک بھی ہندو کی دکان نہیں جلائی گئی اور نہ ہی کسی مندر کو نقصان پہنچایا گیا۔ پولس نے جو معاملے درج کئے ہیں، ان میں صرف مسلم لوگوں کے نام درج ہیں۔ بلرام گیٹ(کاس گنج) تشدد کے ایف آئی آر میں ایس ایچ او سنگھ نے نصیرالدین، اکرم اور توفیق وغیرہکا نام درج کیا ہے۔ ‘
لاہری بتاتی ہیں، ‘ 29-30 جنوری کو جن کی دکانیں لوٹی اور جلائی گئیں، وہ لوگ کاس گنج پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کروانے پہنچے تھے۔ کاروباریوں کا کہنا ہے کہ پولیس ایف آئی آر درج کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کبھی کہا گیا شام کو آؤ، کبھی صبح آؤ اور کبھی بولتے ہیں تب لکھیںگے، جب تمام گرفتاریاں ہو جائیںگی۔ پولیسابتک متاثر مسلمانوں کی دکانوں اور جلائی گئی دو مسجدوں کو دیکھنے تک نہیں گئی ہے۔ ‘
ایس پی سنیل سنگھ کے تبادلے پر سوال اٹھاتے ہوئے لاہری نے کہا، ‘ میں نے جب مسلم کمیونٹی کے لوگوں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ سی او ویر کمار نے بہت مدد کی۔ ایس پی سنیل نے بھی امن اجلاس میں ہندو کمیونٹی کے لوگوں کو خبردارکیا تھا کہ وہ فساد پھیلنے نہیں دیںگے اور اپنا کام کریںگے۔ 29 جنوری کو ایس پی کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔ کیا یہ سوال نہیں پیدا کرتا کہ ایک ایسے آدمی کو کیوں ہٹا دیا گیا، جو فساد روکنا چاہتا تھا۔ اس کے پیچھے مجھے سیاسی سازش لگتی ہے۔ یہ انتخاب کے لئے دونوں کمیونٹی کو بانٹکر مذہب کے نام پر ووٹ لینے کی ایک کوشش معلوم پڑتی ہے۔ ‘
لاہری نے بتایا کہ پولیس نے جو ایف آئی آر درج کی ہے، اس پر بہت بڑا سوال ہے۔ ایف آئی آر میں مسلموں کے خلاف صاف طور پر پتھربازی اور گولی چلانے کا ذکر ہے، جبکہ ہندوؤں کے لئے صرف دنگا فساد لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس تشدد میں ایک جوتے کی دکان شیروانی بوٹ کو بھی جلا دیا گیا۔ دکان کے مالک منصور شیروانی نے کئی بار ایف آئی آر لکھوانے کی کوشش کی کہ ان کی دکان کو لوٹکر آگ کے حوالے کر دیا گیا لیکن ایف آئی آر لکھنے سے پہلے پولیس نے ان سے کہا کہ درخواست میں نقصان کی تفصیل ہٹانی پڑےگی، تبھی ایف آئی آر لکھی جائےگی۔ پریشان ہوکر انہوں نے نقصان کی تفصیل ہٹا دی۔ ان کی عرضی پر الگ سے کوئی ایف آئی آر نہیں درج ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کاس گنج فرقہ وارانہ تشدد:تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ٹی وی اینکر؟
تشدد میں مارے گئے چندن گپتا کے قتل پر سوال اٹھاتے ہوئے صحافی راکھی سہگل نے کہا، ‘ چندن گپتا کو گولی کافی قریب سے ماری گئی ہے۔ یہ بھی صاف نہیں ہے کہ گولی کس چھت سے چلی۔ پولیس کو شک ہے کہ سلیم کی چھت سے گولی چلی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ گولی وہیں سے چلی ہے۔ پولیس نے جو بندوق ملنے کا دعویٰ کیا ہے، وہ دونوں بندوق لائسینسی ہے۔ پولس کو گولی اور بندوق کی فارینسک تفتیش کروانی چاہیے۔ خودبخود سب صاف ہو جائےگا کہ کیا گولی سلیم نے چلائی تھی۔ ‘
راکھی نے بتایا کہ چندن کے انتم سنسکار کے وقت 500-600 لوگوں کے ساتھ پولیس بھی گئی تھی۔ 27 تاریخ کو جو دکانیں جلائی گئیں، وہ تمام سنسکار سے لوٹ رہے لوگوں نے جلائیں اور جب پولیس ساتھ میں موجود تھی، تو کیسے یہ تشدد ہوا؟راکھی نے تشدد کا الزام پولیس اور انتظامیہ پر لگاتے ہوئے کہا، ‘ چندن کے انتم سنسکار سے لوٹے لوگوں نے مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹا اور جلایا اور تب پولیس موجود تھی۔ اگر پولیس کے سامنے یہ سب ہو رہا تھا، تب اس پورے واقعہ کے لئے مقامی انتظامیہ اور پولیس ذمہ دار ہیں۔ ‘ راکھی کا کہنا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ فساد جان بوجھ کر کروایا گیا کیونکہ پولیس نے مکمل جانبداری کےطور پر کچھ لوگوں کو تشدد پھیلانے کی چھوٹ دی تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندو کمیونٹی کے لوگ بھی اس فساد سے غم زدہ ہیں، لیکن وہ سامنے آکر یہ نہیں کہنا چاہتے کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ پھر ان کو ٹارگیٹ کیا جائےگا۔ اس فساد کے بعد دونوں کمیونٹیز کے لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں چندن گپتا کی موت پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ موت کے 14 گھنٹے کے بعد ایف آئی آر لکھا گیا تھا اور پولیس نے دیری کی وجہ نہیں بتائی ہے۔ چندن کے جسم پر کسی بھی قسم کا کوئی زخم کا یا خون کا نشان نہیں ہے۔
ویڈیو : کاس گنج سے لوٹے دی وائر کے اجئے آشیرواد اور مہتاب عالم سے پرشانت کنوجیا کی بات چیت
پولیس کے ذریعے میڈیا میں دئے گئے بیان اور میڈیا میں آئی چندن کی لاش کی تصویر الگ کہانی بیان کرتی ہے۔ تصویر میں گولی لگنے کا نشان ہاتھ کے اوپری حصے میں ہے اور پولیسکا کہنا ہے کہ گولی کالر بون پر لگی تھی۔ واضح ہو کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ ابتک آنی باقی ہے۔
راکھی کا کہنا ہے کہ اس تشدد میں علاقے کے طاقتور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ چندن کے قتل کا ملزم سلیم کی علاقے میں بہت باعزّت سمجھا جاتاہے اور جب انہوں نے مقامی لوگوں سے بات چیت کی تو ہندو لوگوں نے بھی کہا کہ وہ اچھے انسان ہیں۔ رپورٹ میں بلرام گیٹ مارکیٹ کے پاس کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ ان کو یقین نہیں ہے کہ چندن کو جی آئی سی یا سلیم کے گھر کے پاس گولی لگی ہوگی۔ ایک نے بتایا کہ گولی ریلوے اسٹیشن روڈ کے پاس لگی تھی۔ ایک دیگر آدمی نے بتایا کہ چندن کو لگی گولی، چندن کے ہی ایک دوست کے ذریعے غلطی سے چلی تھی، جو بندوق لہرا رہا تھا۔
یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پولیس فائرنگ میں نوشاد کو گولی لگی تھی۔ ایسا بھی کہا جا رہا ہے کہ پولیسکی گولی چندن کو لگی تھی۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پولیسفائرنگ اور نوشاد کے زخمی ہونے کی جگہ کا پتہ نہیں لگا پائی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ کاس گنج کے لوگ بھی کشمکش کی حالت میں ہے کہ کیسے سلیم کا نام ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے۔ برقی فیملی کا کوئی کریمنل بیک گراؤنڈ نہیں ہے۔
کچھ دکانداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سلیم کے کپڑوں کی دکان بہت اچھیچلتی تھی اور حسد کے چلتے کسی دکاندار نے ان کا نام لےکر ان کی فیملی کو برباد کرنے کی کوشش کی ہے۔رپورٹ کے مطابق سلیم صبح 9.30 بجے کے قریب یوم جمہوریہ کے پروگرام میں شامل تھا اور اس کے بعد اسکول سے اپنے بچّوں کو لانے گیا تھا۔ تنازعہ اس کے بعد ہوا تھا۔ واقعہ کے وقت سلیم جائےواردات پر موجود نہیں تھا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ 27 جنوری کو چندن کےانتم سنسکار کے دن بغل کے علاقے امن پور میں بھی تشدد پہلے سے منصوبہ بند تھا۔ ایک عیدگاہ میں توڑپھوڑ ہوئی تھی، لیکن انتظامیہ نے حالت کو قابو میں کر لیا۔ عید گاہ میں بھی تعمیر کاکام کروایا گیا۔
کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ 26 جنوری کے تشدد کے بعد علاقے میں افواہ بھی تھی کہ مسلمان اپنی دکانوں میں سامان سستے قیمت پر بیچ رہے ہیں۔ حالانکہ اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔تشدد کے بعد بہت سارے مسلمانوں کے گھروں اوردکانوں میں تالے لگے ہوئے ہیں۔ بڑی تعداد میں مسلم کاس گنج سے باہر جا چکے ہیں۔ اس کی ابھی جانکاری نہیں ہے کہ کتنے لوگ قصبے سے باہر جا چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ایک ویڈیو کے مطابق بائک ریلی میں شامل ایک نوجوان دیسی بندوق لہراتے ہوئے گولی چلا رہا تھا، لیکن ابتک اس کا نام کسی بھی معاملے میں درج نہیں کیا گیا ہے۔اس تشدد کے بعد پولس نے محسن، ببلو شیخ، نسیم اور سلیم کو پولیس نے بندوق اور زندہ کارتوس کے ساتھ گرفتار کیا۔ رپورٹ کے مطابق ہندوؤں کو صرف امن کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور پولس محسن خان کے بیان کی بنیاد پر لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے۔
رپورٹ دعویٰ کرتی ہے کہ پولیس ثابت کرنا چاہتی ہے کہ مسلمانوں نے خود کی حفاظت کے لیے گولی چلائی ہے۔ محسن نے قبول کیا ہے کہ وہ اور 24 دیگر لوگ گولی اور پتھر چلا رہے تھے، جس کی وجہ سے چندن کی موت ہوئی اور نوشاد زخمی ہوا۔کمیٹی نے محسن کے بیان پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس حراست میں دئے گئے بیان کی بنیاد پر کیسے کسی کو ملزم بنایا جا سکتا ہے۔
پولیس نے تمام دکانوں میں لوٹ اور جلانے کے معاملے کو ایک ہی ایف آئی آر میں درج کیا ہے۔ پولیس نے الگ الگ معاملہ درج کرنے سے انکار کر دیا ہے۔یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے ندیم نے کاس گنج تشدد پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘ ملک میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آنے والے انتخابات کے لئے حکومت، پولس اور آر ایس ایس سماج کو ووٹ کے لئے بانٹ رہے ہیں۔ کاس گنج میں ہرطرف ڈر کا ماحول ہے اور یہ کاس گنج تشدد خوف ناک ہندوستان بنانے کی کوشش ہے۔ کاس گنج کے بھائی چارہ پر حملہ ہوا ہے اور پورے ملک کو اس کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ ‘
سینئر صحافی ارملیش نے بھی کاس گنج تشدد میں میڈیا کے رویے پر افسوس جتایا۔ انہوں نے کہا، ‘ اس پورے معاملے میں مین اسٹریم میڈیا نے اپنا کام صحیح سے نہیں کیا۔ جیسے سیاسی پارٹیاں ڈرتی ہیں کہ ان پر اقلیت کو خوش کرنے کا الزام لگ جائےگا، لیکن اب اینکر بھی اسی طرح ڈرتے ہیں۔ ایک آئی پی ایس نے قسم کھائی کہ رام مندر بناکے رہیںگے، لیکن حکومت نے آج تک نوٹس نہیں دیا۔ ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے کام میں کسی خاص مذہب کو لےکر جانبداری کا رویہ نہیں دکھائےگا۔ ‘
Categories: ویڈیو