ایسا لگتا ہے کہ یہ دعویٰ بار بار اس لئے کیا جاتا ہے کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اپنے آخری دنوں میں گاندھی جی کانگریس اور اس کے رہنماؤں سے دور ہو گئے تھے۔
بی جے پی اپنی ‘ کانگریس مکت بھارت ‘ مہم کو صحیح ٹھہرانے کے لئے بار بار گاندھی جی کا سہارا لیتی ہے۔ ابھی کتنے دن گزرے ہیں جب بی جے پی صدر امت شاہ نے عوامی اجلاس میں گاندھی جی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے ذریعے کانگریس کو تحلیل کرنے کی خواہش دراصل ایک دوراندیش اپیل تھی۔ان کی اسی تقریر میں گاندھی جی کے نام کے ساتھ ‘ چتر بنیا ‘ جوڑنے پر ان کی کافی مخالفت ہوئی تھی۔ لیکن گاندھی جی نے کانگریس کو تحلیل کرنے کےباب میں کیا کچھ کہا تھا، اس کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی۔ عام طور پر لوگوں کے دل میں یہ نظریہ بٹھا دیا گیا ہے کہ گاندھی جی اصل میں ایسا ہی چاہتے تھے۔
دو دن پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیامنٹ میں اسی موضوع کو پھرگرما دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو صرف گاندھی جی کے خوابوں کا ہندوستان بنانے کی سمت میں کام کر رہے ہیں۔ کیونکہ کانگریس مکت بھارت کا خیال نریندر مودی کا نہیں بلکہ خود گاندھی جی کا خیال تھا۔
اس بار اس بات کی باریکی سے تفتیش کرنی ضروری ہے کہ تاریخی طور پر سچ کیا ہے؟
یہ سچ ہے کہ اپنے آخری دنوں میں گاندھی جی آزاد ہندوستان میں کانگریس کے بدلے ہوئے کردار کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے تھے۔ گاندھی جی نے اپنے قتل کے تین دن پہلے یعنی 27 جنوری 1948 کو ایک نوٹ میں لکھا تھا کہ اپنی موجودہ شکل میں کانگریس ‘ اپنا کردار پوری کر چکی ہے ‘۔ جس کو تحلیل کرکے ایک لوک سیوک سنگھ میں تبدیل کر دینی چاہیے۔
یہ نوٹ ایک مضمون کی شکل میں 2 فروری 1948 کو ‘ ان کی آخری خواہش اور وصیت نامہ ‘ کے عنوان سے ہریجن میں شائع ہوا۔ یعنی گاندھی جی کے قتل کے دو دن بعد یہ مضمون ان کے معاونین کے ذریعے شائع کیا تھا۔ یہ عنوان گاندھی جی کے قتل سے غم زدہ ان کے معاونین نے دے دیا تھا۔اس عنوان کے سیاق و سباق کو سمجھے اور دیکھے بغیرکچھ دانشورمن وعن اپنا لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر ماہر سیاسیات لائڈ اور سوزن رُڈولف کہتی ہیں، ‘ ناتھو رام گوڈسے کے ہاتھوں اپنے قتل کے 24 گھنٹے پہلے گاندھی جی اپنی آخری خواہش اور وصیت نامہ میں تجویز کرتے ہیں کہ کانگریس کو تحلیل کر دیا جانا چاہیے اور اس کی جگہ لوک سیوک سنگھ کی تشکیل کرنی چاہیے جو عوام کی خدمت کے لئے بنائی گئی تنظیم ہوگی۔ ‘یعنی مضمون کو دیا گیا عنوان اور گاندھی جی کی وفات کے بعد اس کی اشاعت نے اس نوٹ کو اس سے زیادہ بامعنی بنا دیا جتنا گاندھی جی خود چاہتے تھے۔
جبکہ ‘ ان کی آخری خواہش اور وصیت نامہ ‘ کو اسی دن ہریجن میں شائع ایک اور بیان کے ساتھ جوڑکر پڑھا جانا چاہیے، ‘ بھارتیہ راشٹریہ کانگریس جو کہ سب سے پرانی قومی سیاسی تنظیم ہے، جس نے عدم تشدد کے ذریعے آزادی حاصل کی ہے، کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ صرف ملک کے ساتھ ہی ختم ہوگی۔ ‘
ان کا یہ بیان ثابت کرتا ہے کہ گاندھی جی اس وقت بھی کانگریس کے کردار کو دیکھتے تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ مستقبل میں یہ کیسی ہو؟
گاندھی جی نے دراصل جو لکھا تھا وہ ایک آئین کا مسودہ تھا نہ کہ ان کی آخری خواہش اور وصیت نامہ۔ اگر گاندھی جی زندہ رہتے تو اس بات کا پورا امکان تھا کہ اس مسودہ پر کانگریس کے اندر مکمل طور پر سے بحث ہوتی۔ان کا یہ تبصرہ کانگریس اور اس کی تنظیم کی مابعد آزاد ہندوستان کی ضرورت کے حساب سے کیسے تنظیم نو ہو، اس پر چل رہی بحث کے تناظر میں کیا گیا تھا۔
آزادی ملنے کے ساتھ آزادی دلانے میں پارٹی کا تاریخی کردار ختم ہو گیا تھا اور اب اس کو سماجی اور اقتصادی انقلاب کے لئے تیار کرنا تھا۔ یہ بحث پارٹی قیادت کے ذریعے 1946 میں تب شروع کی گئی تھی جب کانگریس کمیٹیوں کو اس بارے میں ایک سرکلر بھیجکر اپنی رائے کا اظہار کرنے کو کہا گیا تھا۔اگلے کچھ مہینوں میں جئے پرکاش نارائن، رگھوکل تلک، جے بی کرپلانی سمیت تمام کانگریسی رہنماؤں کا رد عمل سامنے آیا تھا۔ تلک کانگریس کو تحلیل کرنے کی حالت میں پیدا ہونے والے خلا سے متعلق فکرمند تھے جس کو ان کے مطابق فرقہ وارانہ جماعت تیزی سے بھرنے کی کوشش کرتے۔
کانگریس صدر کرپلانی نے انگریزوں کے خلاف چل رہے جدو جہد کے ختم ہونے کی حالت میں کانگریس کو ایک نئی شکل دینے کی صلاح دی۔انہوں نے کانگریس کے کردار کو سرکاری پالیسیوں کو نافذ کرنے والی اور عوام اور حکومت کے درمیان پل بننے والی تنظیم کی شکل میں دیکھا۔لوہیا چاہتے تھے کہ کانگریس سماجوادی راستے کو اپنا لے اور اس مقصدسے مزدور اور کسان کی تنظیموں سے جڑے۔
گاندھی نے کانگریس کو تحلیل کرنے کی بات کانگریس پر حاوی اقتدار کی سیاست سے ناامیدی کے محدود تناظر میں نہیں کی تھی۔ بلکہ پارٹی کو نئے حالات کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے حساب سے ڈھالنے کے تناظر میں کی تھی۔گاندھی نواکھالی کے دنوں سے ہی مستقبل میں پارٹی کے کردار کو لےکر چل رہے صلاح مشورہ میں شامل تھے جو کہ 1947 کا خاتمہ اور 1948 کی شروعات تک جاری تھا۔اس طرح اگر ہم کانگریس کے کردار پر بحث کے نقطہ آغاز کو دیکھیں تو یہ صاف ہو جاتا ہے کہ یہ گاندھی جی کی کوئی ایسی رائے نہیں تھی جو کانگریس کے سرکاری حق کے خلاف تھی۔ایسا لگتا ہے کہ یہ دعویٰ بار بار اس لئے کیا جاتا ہے کہ اس مقبول عام تصور کو صحیح ثابت کیا جا سکے کہ اپنے آخری دنوں میں گاندھی جی کانگریس اور اس کے رہنماؤں سے دور ہو گئے تھے۔
یہ ایک ایسا تصور ہے جو گاندھی جی اور دیگر قومی رہنماؤں کی امیج کو اپنے مطابق گڑھنے اور باقی رہنماؤں کی شہرت کو دھول میں ملانے کی چھوٹ دیتا ہے۔ یہ اور کچھ نہیں بلکہ ہمارے قومی رہنماؤں کی امیج خراب کرنے کی بھاجپائی مہم کا حصہ ہے۔
(پروفیسرسچیتا مہاجن تاریخ داں ہیں اور جے این یو کے شعبہ تاریخ سے وابستہ ہیں/ سوربھ باجپئی راشٹریہ آندولن فرنٹ کے قومی کنوینر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر