’ پہاڑ کی راجدھانی پہاڑ میں ‘کے نعرے کے ساتھ گیرسین کو راجدھانی بنائے جانے کی تحریک ایک بار پھر طول پکڑتی نظر آ رہی ہے۔
اترااکھنڈ کی سیاست ان دنوں کروٹ لیتی دکھ رہی ہے۔ اس میں کچھ ایسی تبدیلیوں کے اشارے مل رہے ہیں جو نہ صرف ریاست کے سیاسی بلکہ یہاں کے سماجی، اقتصادی اور آبادیاتی منظرنامے کو بھی پوری طرح سے پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کو سمجھنے سے پہلے ایک قصے کے بارے میں جانتے ہیں۔ملک کی آزادی سے تقریباً 17 سال پہلے کی بات ہے۔ بہادر چندر سنگھ ‘ گڑھوالی ‘ نام کا ایک شخص اس وقت انگریزوں کی فوج میں ہوا کرتا تھا۔ وہ ان دنوں ‘ رائل گڑھوال رائفل ‘ کے ایک دستہ کی قیادت کر رہے تھے۔اس دستہ کو پشاور میں پٹھان مجاہدین آزادی کو کچلنے کا حکم دیا گیا۔ 23 اپریل 1930 کے دن جب انگریزوں نے پٹھانوں پر گولیاں چلانے کا حکم دیا تو بہادر چندر سنگھ گڑھوالی نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے کھلی بغاوت کرتے ہوئے ‘ گڑھوالی سیزفائر ‘ کا اعلان کیا اور گڑھوالی فوج نے نہتے پٹھانوں پر گولیاں چلانے سے انکار کر دیا۔ اس بغاوت کو تاریخ میں ‘ پشاور واقعہ ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اتراکھنڈ میں موجودہ ہلچل پر گفتگو سے پہلے بہادر چندر سنگھ گڑھوالی سے جڑے قصے کا ذکر اس لئے کیا گیا کیونکہ اس ہلچل کا مرکز بھی وہی گیرسین شہر ہے جس کو چندر سنگھ گڑھوالی کے نام پر ‘ چندرنگر ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ملک کی آزادی سے ٹھیک 17 سال پہلے چندر سنگھ گڑھوالی کے ایک اعلان یا منادی نے انگریزوں کی نیند حرام کر دی تھی۔ آج اتّراکھنڈ ریاست بننے کے ٹھیک 17 سال بعد بھی انہی کے دیکھے ایک خواب نے ریاست کے رہنماؤں کی نیند حرام کی ہوئی ہے۔ یہ خواب تھا-‘ پہاڑ کی راجدھانی، پہاڑ میں ہو ‘۔
بتاتے ہیں کہ بہادر چندر سنگھ گڑھوالی ہی ان لوگوں میں تھے جنہوں نے سب سے پہلے گیرسین میں ریاست کی راجدھانی کی بات کہی تھی۔ گیرسین چمولی ضلعے کا ایک پہاڑی شہر ہے جو گڑھوال اور کماؤں کی سرحد پر بسا ہے۔90 کی دہائی میں جب مختلف ریاست کی مانگ باضابطہ طور پرآگے بڑھی، تب سے ہی اس مجوزہ ریاست کی راجدھانی کی شکل میں گیرسین کو دیکھا جانے لگا تھا۔
25 جولائی 1992 کے دن تو ‘ اتّراکھنڈ کرانتی دل ‘ نے گیرسین کو باقاعدہ پہاڑ کی راجدھانی اعلان کیا اور بہادر چندر سنگھ گڑھوالی کے نام پر اس شہر کا نام ‘ چندر شہر ‘ رکھتے ہوئے راجدھانی علاقے کا افتتاح بھی کیا۔
اس کے بعد کئی چھوٹی-بڑی تحریک ہوئیاور الگ ریاست کی تشکیل ہو گئی۔ لیکن راجدھانی کا مدعا سلجھنے کی جگہ اور بھی زیادہ الجھتا چلا گیا۔ اس کے کئی اسباب تھے۔ اتّراکھنڈ ریاست تشکیل کے لئے 90 کی دہائی میں کوشک کمیٹی کی تشکیل کی گئی تھی۔ اس کمیٹی نے مئی 1994 میں اپنی رپورٹ حکومت کو سونپی۔ تمام دیگر مدعوں کے ساتھ ہی اس رپورٹ میں گیرسین کو راجدھانی بنائے جانے کا بھی ذکر تھا۔
لیکن سال 2000 میں جس ‘ اتّر پردیش ریاست کی تشکیل نو ایکٹ ‘ کے ذریعے اتّراکھنڈ ریاست کی تشکیل ہوئی، اس بل میں راجدھانی کے سوال پر گفتگو ہی نہیں کی گئی۔ لہذا ریاست کی پہلی حکومت نے راجدھانی کے تعین کے لئے ‘ راجدھانی سلیکشن کمیشن ‘ کی بھی تشکیل کر دی۔ اس کمیشن کو دکشت آیوگ بھی کہا جاتا ہے۔
دکشت کمیشن کو الگ الگ حکومتوں نے کئی بار وقت کو طول دیا جس کے چلتے مستقل راجدھانی کا مدعا زیر التوا ہی رہا۔ آخرکار جب اس کمیشن نے کئی سالوں بعد اپنی رپورٹ حکومت کو سونپی بھی، تب بھی مستقل راجدھانی کے سوال پر کوئی فیصلہ حکومت نے نہیں لیا۔دلچسپ یہ بھی ہے کہ بیتے 17 سالوں میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کی ہی حکومتیں اتّراکھنڈ میں رہی ہیں۔ ساتھ ہی ریاست کی واحد علاقائی پارٹی اتّراکھنڈ کرانتی دل ان دونوں ہی پارٹیوں کی حکومت میں شامل رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کسی بھی حکمراں جماعت نے مستقل راجدھانی کے سوال کو حل نہیں کیا۔
آج حالت یہ ہے کہ کانگریس کے بھی کئی رہنما گیرسین کو مستقل راجدھانی بنانے کی مانگکر رہے ہیں۔ لیکن دس سال ریاست کی اقتدار میں رہنے کے دوران انہوں نے اس مدعا کو صرف ٹالنے کا ہی کام کیا۔ٹھیک یہی حالت ‘ اتّراکھنڈ کرانتی دل ‘ یعنی یو کے ڈی کی بھی ہے۔ جبکہ بی جے پی ان دنوں اس حالت میں ہے جس میں کبھی کانگریس ہوا کرتی تھی۔ پارٹی کے ریاستی صدر اجئے بھٹّ نے حال ہی میں کہا ہے کہ گیرسین کو گرمی کے موسم کی راجدھانی بنائی جائی گی۔ بالکل یہی باتیں اقتدار میں رہتے ہوئے کئی کانگریسی رہنما بھی کرتے رہے ہیں اور مستقل راجدھانی کے سوال کو لگاتار ٹالتے رہے ہیں۔
بہر حال راجدھانی کا یہی مدعا اب گرماتا دکھ رہا ہے۔ ان دنوں ریاست بھر میں جگہ جگہ نوجوان اس مدعا کو لےکر ہوتے نظر آ رہے ہیں اور گیرسین کو مستقل راجدھانی اعلان کئے جانے کی مانگ لگاتار تیز ہو رہی ہے۔دہرادون میں ان مظاہروں کی رہنمائی کر رہے نوجوان صحافی پردیپ ستی بتاتے ہیں، ‘ بیتے 17 سالوں میں ریاست کی ناکامیوں کا جو غصہ نوجوانوں میں ہے، گیرسین تحریک اسی کا نتیجہ ہے۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں، ‘ ریاست بننے کے بعد منتقلی کی رفتار بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ اس ریاست کا کل رقبہ 53483 مربع کلومیٹر ہے۔ اس میں سے 46035 مربع کلومیٹر پہاڑی علاقہ ہے جبکہ صرف 7448 مربع کلومیٹر میدانی علاقہ ہے۔ یعنی ریاست کا 86 فیصد حصہ پہاڑی ہے اور محض 14 فیصد میدانی۔ لیکن اس 14 فیصد میدانی علاقے میں آج پہاڑوں سے زیادہ آبادی ہو چکی ہے۔ ‘
اتّراکھنڈ کے شرینگر میں اس تحریک کی رہنمائی کر رہے اسٹوڈنٹ لیڈر شوانی پانڈےکہتی ہیں، ‘ پہاڑوں کی اس بربادی کےسدھرنے کا راستہ گیرسین ہو کر ہی گزرتا ہے۔ آج ہمارے سارے ایم ایل اے دہرادون میں رہتے ہیں۔ کوئی وزیر پہاڑ چڑھنے کو تیار نہیں ہے، سب نے اپنی فیملی کو وہیں بسا لیا ہے۔ جب پالیسی ساز ہی پہاڑ نہیں چڑھیںگے تو ان سے کیسی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اتنی اخلاقی جرات جٹا سکیں کہ ڈاکٹروں اور اساتذہ کو پہاڑ چڑھنے کا حکم دیں۔ گیرسین صرف راجدھانی کا سوال نہیں ہے، یہ پہاڑی ریاست کے نظریہ کی بنیاد ہے۔ ‘
ایسا نہیں ہے کہ گیرسین کی یہ مانگ کوئی پہلی بار اٹھ رہی ہو۔ بابا موہن اتّراکھنڈی نے تو تقریباً 13 بار اس مانگ کو لےکر بھوک ہڑتال کی تھیں۔ سال 2004 میں اسی مانگ کو لےکر لگاتار 38 دنوں تک بھوک ہڑتال پر رہنے کے بعد ان کو اپنی جان گنوانی پڑی۔
2009 میں بھی اس مانگ نے کافی زور پکڑا تھا۔ لیکن اس بار اس مانگکے کسی نتیجہ تک پہنچنے کی امید جتاتے ہوئے سینئر صحافی راجیو لوچن ساہ کہتے ہیں، ‘ اس بار یہ تحریک پوری طرح سے نوجوان قیادت کے ہاتھوں میں ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی طاقت ہو سکتی ہے۔ سیاسی چہرے اس تحریک میں آگے نہیں ہے جو عموماً اپنے انتخابی مفاد کے لئے گیرسین کی بات کرتے ہیں۔ ‘
کئی لوگ یہ بھی مان رہے ہیں کہ موجودہ حکومت بھی گیرسین کی حالیہ مانگکے چلتے دباؤ میں آتی دکھ رہی ہے۔ بیتے 26 جنوری کو اسمبلی صدر کے ذریعے گیرسین جا کر جھنڈا پھہرانا اور اب اسمبلی کے بجٹ سیشن کو بھی گیرسین میں ہی منعقد کرنے کا اعلان کئے جانے کو اس نظریے سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔
لیکن حکومت کے ایسے قدموں پر سوال اٹھاتے ہوئے سینئر صحافی چارو تیواری کہتے ہیں، ‘ گیرسین کے مدعا کو ٹالنے کے لئے ایسی حکمت عملی حکومت پہلے سے اپناتی رہی ہے۔ کبھی گیرسین میں کابینہ کا اجلاس کرنا تو کبھی وہاں اسمبلی سیشن کی نوٹنکی کرنا حکومتوں کی پرانی چالیں ہیں۔ ان سے مستقل راجدھانی کا سوال پیچھے دھکیلنے میں ان کو ہمیشہ مدد ہی ملی ہے۔ ‘
گیرسین کو لےکر چل رہی حالیہ تحریک کی شروعات بھی ایسے ہی ایک اسمبلی سیشن کے بعد ہوئی جس کا ذکر چارو تیواری کر رہے ہیں۔ بیتے دسمبر میں اسمبلی کے سرمائی اجلاس کا انعقاد گیرسین میں کیا گیا تھا۔ لیکن سات دنوں تک چلنے والے اس سیشن کو محض ڈیڑھ دن میں ہی نمٹا دیا گیا اور تمام ایم ایل اے کے ساتھ ہی پورا سرکاری محکمہ بس گیرسین میں حاضری لگا کر دہرادون لوٹ آئے۔
بھاکپا (مالے) ریاستی کمیٹی کے ممبر اندرش میکھوری کہتے ہیں، ‘ ہم کئی سالوں سے گیرسین کی مانگ کو لےکر پیش پیس رہے ہیں۔ اسمبلی سیشن کے نام پر گیرسین میں پکنک منائے جانے کیہم نے شروعات سے ہی مخالفت کی ہے۔ اس بار یہ بات سبھی کو سمجھ بھی آئی جب لوگوں نے دیکھا کہ صرف ڈیڑھ دن میں حکومت سیشن نمٹا کر واپس لوٹ رہی ہے۔ ‘
بیتے سالوں کی مقابلے میں اس بار گیرسین کی مانگکی تیزی سے اٹھنے کے پیچھے سوشل میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے۔ ردرپریاگ میں اس تحریک کی قیادت کر رہے نوجوان صحافی اور سماجی کارکن موہت ڈمری کہتے ہیں، ‘ سوشل میڈیا سے ہمیں اس تحریک کو تیزی دینے میں زبردست مدد مل رہی ہے۔ جگہ جگہ سے ہمیں حمایت مل رہی ہے اور مہاجر اتّراکھنڈی بھی ہم سے لگاتار رابطہ کر رہے ہیں۔ دہلی، ممبئی اور چنڈیگڑھ میں رہنے والے کئی اتّراکھنڈ نژاد کے لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا ہے۔ ‘
بیتے 11 فروری کو شرینگر میں ایک کانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا۔ گیرسیناستھائی راجدھانی سنگھرش مورچہ کے بینر تلے ہوئے اس کانفرنس کا خاص مقصد یہی تھا کہ ریاست بھر میں جہاں جہاں بھی اس مانگ کو لےکر تحریک ہو رہی ہیں، ان کو منظم کیا جائے۔اس کانفرنس میں یہ بھی طے ہوا ہے کہ آنے والے 20 مارچ سے گیرسین میں منعقد بجٹ سیشن کی بھاری مخالفت کی جائےگی۔ حال ہی میں اگستیہ منی بلاک میں علاقائی پنچائت نے گیرسین کو مستقل راجدھانی بنانے کی تجویز منظور کی ہے۔
تحریک میں شامل کارکنوں کو امید ہے کہ جلدہی تمام پنچایت میں ایسی تجویز منظور کی جائیںگی اور اس مانگ کو بڑی عوامی تحریک میں بدلاجا سکےگا۔مستقل راجدھانی کی مانگ کی یہ تحریک آہستہ آہستہ زور پکڑتی ضرور دکھ رہی ہے لیکن کئی لوگ اس کو صحیح سمت ملنے کے لئے فکرمند بھی نظر آ رہے ہیں۔
اتّراکھنڈ ریاستی تحریک میں سرگرم کردار نبھانے والے سینئر صحافی راجیو لوچن ساہ کہتے ہیں، ‘ تحریک کی ایک بڑی کمی یہ رہی کہ اس میں نظریاتی وضاحت نہیں تھی۔ آج دو ابھی دو، اتّراکھنڈ ریاست دو کا نعرہ ہی اس میں سب سے خاص بن گیا تھا۔ اس نعرے میں ایک ہڑبڑی تھی۔ لوگوں نے مان لیا تھا کہ بس ریاست بن جانا ہی سب کچھ ہے۔ اسی لئے جب ریاست بن گئی تو لوگوں کو لگا کہ اب لڑائی ختم ہو گئی۔ جبکہ خالص کام اس کے بعد ہی شروع ہونا تھا۔ ‘
اندریش مکھوری بھی تقریباً ایسی ہی فکر جتاتے ہوئے کہتے ہیں، ‘ ریاستی تحریک کے دوران ایک بڑا طبقہ تھا جو کہتا تھا کہ ہمارےہر مسئلہ کا حل اور ہر سوال کا جواب صرف الگ ریاست ہے۔ آج الگ ہوئے 17 سال ہو گئے لیکن سوال ویسے کے ویسے ہی بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف راجدھانی کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دینے بھر سے ہر مسئلہ حل نہیں ہونے والا۔ گیرسین کی مانگ کے ساتھ ہمیں ان تمام سوالوں کو شامل کرنا ضروری ہے۔ ‘
گیرسین میں راجدھانی بنائے جانے کی مانگ کو لےکر وہاں پچھلے دو مہینوں سے بھی زیادہ وقت سے لگاتار بھوک ہڑتال اور بھوک ہڑتال جاری ہے۔گیرسین میں رہنے والے سینئر صحافی پرشوتّم اسنوڑا کہتے ہیں، ‘ گیرسین اس ریاست کی روح ہے۔ یہ صرف جذباتی مدعا نہیں ہے بلکہ سائنٹفک اور جغرافیائی نقطہنظر سے بھی سب سے اہم مدعا ہے۔ اس ٹالنے کے لئے حکومت دلیل دیتی ہے کہ گیرسین میں زمین دوز خطروں کا امکان کافی زیادہ ہیں لہذا وہاں راجدھانی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن یہاں آج تک کوئی بڑی قدرتی آفت نہیں آئی ہے۔ بلکہ 2013 میں جب ریاست میں اتنی بڑی آفت آئی تھی تب بھی گیرسین ہی وہ جگہ تھی جہاں سب سے پہلے سڑکیں ٹھیک ہو گئی تھیں۔ اس دوران بھی یہاں کوئی ایسا نقصان نہیں ہوا تھا۔ ‘
قدرتی آفات کے امکانات کی دلیل کی تردید کرتےہوئے چارو تیوااری بھی کہتے ہیں، ‘ پنچیشور اور ٹہری جیسے عظیم باندھ بناتے ہوئے حکومت کبھی یہ نہیں سوچتی کہ یہاں قدرتی آفات کے امکان زیادہ ہیں۔ سارے پہاڑوں کو کھود ڈالا گیا ہے۔ صرف راجدھانی کے سوال پر آفات کی بات ہونے لگتی ہے۔ یہ حکومت کی بہت بڑی بکواس ہے۔ گیرسین عدمِ مرکزیت کا نام ہے۔ جس ریاست کا تصور ہمارے احتجاج کرنے والوں اور شہیدوں نے کیا تھا، اس پہاڑی ریاست کی تعمیر کا راستہ گیرسین ہے۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں، ‘ کیا آج کے اتّراکھنڈ کو ہم پہاڑی ریاست کہہ سکتے ہیں۔ ریاست کے تین میدانی ضلعوں میں 50 فیصد سے زیادہ آبادی ہو گئی ہے اور پہاڑ لگاتار خالی ہو رہے ہیں۔ کیا ایسے پہاڑی ریاست کی لڑائی ہم نے لڑی تھی جہاں پہاڑوں میں صرف بندر اور خنزیر رہ جائیں؟ ہماری مانگ صرف اتنی ہے کہ حکومت گیرسین کو مستقل راجدھانی اعلان کر دے۔ پھر چاہے اس کو بسانے میں حکومت جتنی مرضی وقت لے، لیکن وہ اعلان کرے کہ مستقل راجدھانی گیرسین ہی ہوگی۔ ‘
اتّراکھنڈ میں عوامی جذبات ہمیشہ سے گیرسین کے حق میں رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست میں کوئی بھی سیاسی جماعت کبھی اس حالت میں نہیں رہی کہ گیرسین راجدھانی بنائے جانے کی بات کو سرے سے خارج کر سکے۔لہذا اس مانگ کو ٹالتے رہنا اور مستقل راجدھانی کے مدعا کو زیر التوا رکھنا ہی ہر سیاسی جماعت کو سب سے فائدےلگتا رہا ہے لیکن اس بار جس طرح سے یہ مانگ آہستہ آہستہ پھیل رہی ہے، کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ اب اس کو اور ٹال پانا شاید حکومت کے لئے بےحد مشکل ہونے والا ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہے۔)
Categories: فکر و نظر