مدھیہ پردیش میں سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہیں اور ریاست کے مکھیا شیوراج سنگھ چوہان دھارمک یاتراؤں کے سہارے انتخابی کشتی پار لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔
مدھیہ پردیش میں بی جے پی گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے حکومت میںہے۔ ریاست کو ترقی اور ترقی کے راستے پر لے جانے کا سہرا بھی وہ اپنے سر باندھتی ہے۔ مختلف پلیٹ فارم سے وزیراعلیٰٰ شیوراج سنگھ چوہان ریاست کی کامیابیوں کا بیان بھی کرتے ہیں۔ترقی اور خوشحالی سے متعلق ان کے دعوے کتنےسچے ہیں، اس پر اختلاف ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ انہی دعووں کے درمیان بی جے پی اور شیوراج کے سامنے آئندہ اسمبلی انتخابات میں رائےدہندگان کو اپنے خیمے میں بنائے رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
یہ بات شیوراج بھی سمجھ رہے ہیں۔ اس لئے پچھلے کچھ عرصہ سے مختلف سفر کے ذریعے لگاتار ریاست کی عوام سے جڑے رہنے کی قواعد میں جٹے ہیں۔ پہلے تقریباً پانچ مہینے کی لمبی نرمدا سیوا یاترا، نمامی دیوی نرمدے ‘ پر وہ نکلے، پھر انہوں نے مدھیہ پردیش کے یوم تاسیس یعنی ایک نومبر کے دن دو مہینہ کی مدت والا مدھیہ پردیش وکاس یاترا بھی نکالی۔نرمدا سیوا یاترا میں جہاں ان کا مقصد نرمدا کاطواف کرتے ہوئے نرمدا ندی کو آلودگی سے آزاد بنانے اور نرمدا علاقے کی ترقی کا پیغام دینا تھا، تو وہیں مدھیہ پردیش وکاس یاتراکے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ مدھیہ پردیش کو ترقی کے راستے پر آگے کیسے بڑھایا جائے، اس سلسلے میں عوام سے بات کرنے کے لئے ریاست گھومنے نکلے ہیں۔
دونوں ہی سفر کے دوران انہوں نے کئی اعلان بھی کئے اور ترقی کے بےشمار دعوے بھی کئے، لیکن ترقی کی بات کرتے-کرتے انہوں نے گزشتہ دنوں اچانک مذہب کی پتوار تھام لی اورگرو شنکراچاریہ کی وحدانیت کے اصول کو عوام تک پہنچانے کے لئے ایک اور سفر ‘ اکاتم یاترا ‘ کا اعلان کر دیا۔ترقی سے مذہب کی طرف ہوئے ان کے اس رخ سے یہ سوال اٹھنا لازمی تھا کہ مدھیہ پردیش میں سال کے آخر میں انتخاب ہونے ہیں لیکن بی جے پی ترقی اور مفاد عامہ کے مدعوں پر پچھڑتی دکھ رہی ہے۔ اس لحاظ سے کیا شیوراج سنگھ چوہان کے پاس مدھیہ پردیش میں بھی مذہبی صف بندیہی واحد راستہ رہ گیاہے؟
ریاست میں تین بار اپنی مدت پوری کر چکی بی جے پی کی شیوراج سنگھ حکومت کے سامنے اس بار چیلنج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ پچھلے انتخاب میں جہاں شیوراج کو صرف ریاست کے مدعوں سے دو-چار ہونا پڑا تھا، وہیں اس بار مرکز میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔ جس سے مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے متعلق بھی اس کی جوابدہی بنتی ہے۔ویاپم گھوٹالے کے الزامات سے دہشت زدہ حکومت کو مندسور حادثہ کی گولی سے زخمی ریاست کے کسان کمیونٹی کے غصے سے بھی نمٹنا ہے۔ خاتون تحفظ، غذائی قلت، کسان خودکشی، غیر قانونی کھدائی تو ریاست کے مدعے ہیں ہی، ساتھ میں مرکز کے دئے دو سب سے اہم مدعے ایک نوٹ بندی اور دوسرا جی ایس ٹی بھی اس کی ناک میں دم کئے ہوئے ہیں۔
بےروزگاروں کی فوج تیار ہو رہی ہے اور اس ملک گیر مسئلہ کے لیےمرکز کی طرح ہی ریاست کے پاس بھی کوئی حل نہیں ہے۔اب تو شیوراج خود کو بے بس دکھاتے ہوئے رائےدہندگان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مرکز میں حزب مخالف کی حکومت ہے جس سے تعاون نہ ملنے کے چلتے مسئلہ برقرار ہے۔ شاید اس لئے ہی مدھیہ پردیش میں بھی اب بی جے پی مذہب کی کشتی پر سوار ہے۔
کھنڈوا ضلع کے اونکاریشور میں حکومت نے گرو شنکراچاریہ کی 108 فٹ اونچے آٹھ دھاتوں سے سے تیار مجسمہ تشکیل کرنے کی بنیاد رکھی ہے۔ جس کو دھیان میں رکھکر پوری ریاست میں ‘ ایکاتم یاترا ‘ نکالکر دھات جمع بھی کیا گیا۔19 دسمبر سے شروع ہوا یہ سفر ریاست کے تمامضلعوں میں گھومتے ہوئے 2175 کلومیٹر کا سفر طے کرکے کھنڈوا کے اونکاریشور میں 22 جنوری کو ختم ہوا۔ جہاں آٹھ دھاتوںسے مجسمہسازی کےلیے بھومی پوجن وزیراعلیٰٰ شیوراج سنگھ چوہان کے ذریعے کی گئی۔
حالانکہ شیوراج سنگھ کے الفاظ میں یاترا سنتوں کی قیادت میں حکومت کے تعاون سے ہوئی تھی، جس کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ یاترا کو ہری جھنڈی دکھاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ‘ سڑک، پل، اسکول، ہسپتال بنانا حکومت کا کام ہے۔ اس میں دو رائے نہیں۔ لیکن ہمیں صرف یہ نہیں بنانا ہے، لوگوں کی زندگی بھی بنانی ہے اور سنتوں کے رہنمائی میں سماج کو اٹھانے کا بھی کام کرنا ہے۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں، ‘ اگر شنکراچاریہ نہیں ہوتے تو سناتن مذہب بھی نہیں بچتا۔ ‘ پوری تقریر کے دوران وہ ہندو دیوی-دیوتاؤں، کی عبادت پر جانکاری، گئورکشا اور گئوسماناور سناتن مذہب کی تعریف و توصیف کرتے سنے جا سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیں، ‘ ہندو فلسفہ، سناتن مذہب اپنے فائدے کی بات نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے کہ ساری دنیا کا فائدہ ہو۔ دہشت گردی کے مسئلہ کا حلا دویت ویدانت، ادویت درشن میں ہے۔ جو بھگوان شنکراچاریہ نے ہمیں دیا۔ ‘
آگےانہوں نےیاتراکے مقصد پر بات کرتے ہوئے کہا ہے، ‘ یہ مجسمہ سرکاری نہیں ہوگا۔ عوام کے تعاون سے بنےگا۔ ہر گاؤں سے اکٹّھا کی گئی مٹی سے بنےگا۔ کلش کی دھات گلاکر فاؤنڈیشن بنایا جائےگا۔ اس فاؤنڈیشن پر مجسمہ کھڑا ہوگا۔ اس بنیاد کی بنیاد ہم نے ہر گاؤں کو بنایا ہے۔ ہر گاؤں کی مٹی آئے۔ ہر انسان اس سے جڑ جائے۔ ‘پھر وہ سنتوں سے روبرو ہوتے ہوئے کہتے ہیں، ‘ یاترا آپ کی قیادت میں چلنا ہے۔ ہم توایک وجہ محض ہیں۔ آپ آگے بڑھکر اس سفر کو لے جائیے۔ ہم آہنگی کا پیغام دیجئے۔ لاثانی ویدانت کے پیغام کو عوام تک پہنچائیے۔ ‘
ان کے الفاظ سے واضح ہے کہ وہ خود کو قائد نہیں بتا رہے تھے۔ لیکن تضاد کی حالت تب پیدا ہوتی ہے جب اس دوران ہونے والے 140عوامی اجلاس کی بات آتی ہے۔ یہ عوامی گفتگو وزیراعلیٰ ہی کر رہے تھے۔جہاں وہ سرکاری اسکیموں کا بیان ایکاتم یاترا سے جوڑکر کچھ اس طرح کرتے ہیں، ‘ ایکاتم یعنی کہ جب سب میں ایک ہی روح ہے، تو لڑکےلڑکی میں فرق کیوں؟ اس لئے ہم نے ابھی ایک ایسا بل منظور کیا ہے جوریپکرنے والے کو پھانسی کی سزا دےگا۔ ‘
ان کی عوامی گفتگو میں لاڈلی لکشمی اسکیم سے لےکر دھنونتری اسکیم تک کو مشتہر کیا جاتا ہے، ساتھ ہی وہ دہشت گردی کے خاتمے کے طریقے پر بھی فیصلہ سناتے ہیں۔ اس لئے یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ یاتراجب سنتوں کی قیادت میں شنکراچاریہ کے لاثانی ویدانت کے پیغام کوعوام تک پہنچانے کے لئے ہے تو منچ پر قائدکے کردار میں سنت ہونا چاہیے یا وزیراعلیٰ؟سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ لاثانی ویدانت کا اصول صوفیوں کے ذریعے لوگوں کو سمجھایا جانا چاہیے یا پھر وزیراعلیٰ کے ذریعے ہر عوامی گفتگو میں بار بار لوگوں کو یہ بتانا چاہیے کہ اس یاتراکو نکالنے کی ترغیب ان کو کہاں سے ملی؟ کیوں وہ اس سفر کو نکال رہے ہیں؟ وہ سناتن مذہب یا قدیم شنکراچاریہ کے بارے میں، ہندوؤں کے مذہبی روایت کے بارے میں کیارائے رکھتے ہیں؟
سیاسی تجزیہ کار گرجا شنکر کہتے ہیں، ‘ کوئی بھی سیاستداں جب اس طرح کا سفر نکالتا ہے تو وہ مذہبی یا ذاتی تو ہوتا نہیں۔ اعلانیہ طور سے چاہے وہ مذہبی ہو یا ذاتی، لیکن ایک سیاستداں عوامی زندگی میں آکے کچھ کرتا ہے تو اس کے سیاسی معنی تو ہوںگے ہی۔ ظاہر سی بات ہے کہ ‘ ایکاتم یاترا ‘ کے بھی اپنے سیاسی معنی ہیں۔ ‘سفر کے سیاسی معنوں پر بات کرتے ہوئے گرجا شنکر آگے کہتے ہیں، ‘ سفر شیوراج تک ہی محدود نہیں ہے۔ دراصل، سنگھ اور بی جے پی کے ہندو توا کے ایجنڈے کے تحت فی الحال جو واقعات ہو رہے ہیں، یہ اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جیسے کہ وہ پنڈت دین دیال اپادھیائے کو قائم کرنے کی پرزور کوشش کر رہے ہیں۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں، ‘ ان کے سامنے سب سے بڑا بحران ہے کہ ان کے پاس کوئی رول ماڈل نہیں ہے۔ جورول ماڈل ہندوستانی سیاست میں ہیں، چاہے نہرو ہوں یا گاندھی ہوں، ان کو مستردکرنے کے لئے ضروری ہے کہ سنگھ اور بی جے پی کو اپنا کوئی رول ماڈل بناکر کھڑا کرنا پڑےگا۔ اس لئے پہلے انہوں نے سردار پٹیل کا سہارا لیا۔ اب وہ دین دیال اپادھیائے کو رول ماڈل کے طور پرقائم کرنا چاہ رہے ہیں۔ ملک بھر میں ان کو لےکر انعقاد ہو رہے ہیں۔ ‘وہ کہتے ہیں، ‘ اسی طرح شنکراچاریہ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس بڑے ایجنڈے کے اس حصے کی رہنمائی شیوراج نے کی ہے۔ اس طرح سے مذہب کے ساتھ ایک طرح سے جو جذبے جڑے ہوتے ہیں، یہ ان کو بھنانے کی کوشش ہے۔ ان یاتراؤںکا سیاسی مقصد صاف طور پر نہیں ہوتا لیکن آخرکار مقصد تو سیاست ہی ہوتا ہے۔ ‘
سنگھ کے نظریہ سے اتفاق رکھنے والے سیاسی مبصر لوکیندر سنگھ بھی اس یاترا کی سیاسی اہمیت کو قبول کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے، ‘ اس طرح کی یاتراکے کئی معنی ہوتے ہیں۔ چونکہ سیاسی آدمی اس کے ساتھ جڑا ہے تو سیاسی اثرات بھی ہوںگے۔ جیسا کہ دگ وجئے کہہ رہے ہیں کہ ان کی نرمدا پریکرما یاترا مکمل طورپر ایک مذہبی سفر ہے۔ پر بار بار ان سے بھی یہی سوال پوچھا جاتا ہے۔ اور ان کا جواب ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے میں سیاست میں ہوں، لیکن مذہبی تو ہو سکتا ہوں، مذہبی کام کر سکتا ہوں۔ لیکن باوجود اس کے جس طرح سے اس کے سیاسی معنی نکل رہے ہیں، سیاسی تناظر میں دیکھے جا رہے ہیں، ویسے ہی ‘ ایکاتم یاترا کے بھی سیاسی معنی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ‘
لوکیندر آگے جوڑتے ہیں، ‘ اب صاحب اختیار آدمی کہہ رہا ہے کہ یہ سیاسی نہیں، ثقافتی اور مذہبی سفر ہے، ایسا مان بھی لیں توبھی باہر سے تجزیہ کرنے پر پاتے ہیں کہ اس میں وزیراعلیٰٰ شامل رہے اور منتظم کے کردار میں حکومت تھی تو سیاسی فریق تو منسلک ہو ہی جاتے ہیں۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں، ‘ اس سے سیاسی فائدہ یہ ہوگا کہ سماج میں پیغام جائےگا کہ وزیراعلیٰ ہندو مذہب کی تشہیر و توسیع کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ لوگوں سے عوامی رابطہ کر رہے ہیں۔ شنکراچاریہ کی وحدانیت کے ذریعے سماجی یکجہتی کی بات کر رہے ہیں۔ لہذا ان کے متعلق جو ایک سافٹ کارنر پہلے سے ہے، وہ اور بڑھ جائےگا۔ ‘
مذہب کے ذریعے لوگوں تک پہنچنے کے لئے شیوراج کی یہ کوشش آج کی نہیں ہے۔ ‘ وزیراعلیٰ تیرتھ درشن اسکیم ‘ کے ذریعے وہ سالوں سے ایسا کر رہے ہیں۔اس اسکیم کے تحت 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے بزرگ کو ریاستی حکومت کے خرچ پر ملک بھرکے مختلف تیرتھ مقام کی زیارت کرائی جاتی ہے۔ وہ بات الگ ہے کہ حزب مخالف کا ایسا ماننا ہے کہ اس اسکیم کا فائدہ بھی عوام سے زیادہ پارٹی کے قریبی اٹھا رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ بھلےہی اس حقیقت کو مسترد کردیںکہ سفر کے سیاسی معنی بھی تھے۔ لیکن گاؤں گاؤں پہنچنے والے اس سفر کے استقبال کی تیاریوں پر جب بات ہوتی ہے تو بات دودھ کی طرح صاف ہو جاتی ہے۔جس بھی گاؤں یا ضلع میں یاترا داخل ہوتی تھی، اس کے استقبال کی تیاریوں کی ذمہ داری بی جے پی کارکنان کی فوج سنبھالتی تھی۔ جن کو وزیراعلیٰ کے دفتر سے بی جے پی کے اہلکاروں کے ذریعے عوامی جلسہ گاہ پر زیادہ سے زیادہ بھیڑ جٹانے کے پیغام بھیجے جاتے تھے۔
سفر کی آمد کے ایک دن پہلے بی جے پی کے پرچم لہراتے ہوئے ریلیاں نکالی جاتی تھیں۔ ان ریلیوں میں شنکراچاریہ کی جئے کےنعرہ نہیں لگتے تھے، سناتن مذہب کی جئے کانعرہ نہیں ہوتا تھا، سنتوں کی عزّت کی بات نہیں ہوتی تھی، وہاں صرف بی جے پی کی جئے کانعرہ اور شیوراج سنگھ زندہ باد ہی سنائی دیتا تھا۔ سناتن مذہب کی علامت کا بھگوا پرچم نہیں، بی جے پی کا پرچم لہراتا تھا۔اور جب کارکنوںکے ذریعے یاترایا عوامی جلسہ میں شامل عوامی جلسہ ہونے کے لئے جٹائی گئی بھیڑ ہاتھ میں بھگوا پرچم نہ تھامکر بی جے پی کا پرچم تھامے دکھتی ہے تو وہیں یہ سفر مذہبی سے سیاسی بن جاتا ہے۔سفر کے افتتاح کے بعد مدھیہ پردیش اسمبلی میں حزب مخالف رہنما اجئے سنگھ نے کہا تھا، ‘ عوام کی گاڑھی کمائی سے ٹیکس کی شکل میں وصول کیے گئے پیسوں سے سیاسی سفر نکالا جا رہا ہے۔ قدیم گرو شنکراچاریہ کے بہانے وزیراعلیٰ انتخابی سال میں ووٹ کے لئے سفر کر رہے ہیں۔ مجسمہ بنانے کے لئے سفر کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ وہ تو بغیر سفر کے بھی بنایا جا سکتا تھا۔ ‘
انہوں نے آگے کہا، ‘ لیکن وہ مذہب کے بہانے اپنے سیاسی مفاد کے لئے سرکاری خرچ پر سفر کرکے بی جے پی کی انتخابی تشہیر کر رہے ہیں۔ ‘حزب مخالف یہ بھی مانتا ہے کہ حکومت ایک طرف مالی نقصان کی دہائی دےکر پیٹرول-ڈیزل پر سیس لگاتی ہے تو دوسری طرف ان یاتراؤںپر سرکاری خزانے سے عوام کی گاڑھی کمائی کا پیسہ اڑاتی ہے۔وہیں، شیوراج اور بی جے پی ان الزامات سے لاکھ انکار کریں اور اس سفر کو عوامی بیداری والا مذہبی سفر بتائیں، لیکن اخباروں میں چھپے عوامی جلسہ کے سرکاری اشتہارات اور ریاست بھر میں لگے ہورڈنگس کچھ اور ہی کہانی بیاں کرتے تھے۔ ایک مذہبی سفر کے اشتہار اور ہورڈنگس میں بات مذہب کی ہونی چاہیے، سنتوں کی عزّت کی ہونی چاہیے، گرو کے لاثانی ویدانت کا علم ہونا چاہیے، ان کی تصویر ہونی چاہئیے۔ لیکن دکھتا تھا تو بس وزیراعلیٰ کا قدِآدم چہرہ جس کے قد کے آگے بغل میں ہی لگی گرو شنکراچاریہ کی تصویر بھی بونی نظر آتی ہے۔
وہیں، سنتوں کی تصویریں وہاں چھپی ہوں یا نہ ہوں، وزیراعلیٰ کے ساتھ مرکزی وزیر، کیبنیٹ وزیر، بی جے پی کے مقامی رکن پارلیامان، ایم ایل اے، میئر اور اہلکاروں کی فوٹو چھپی ضرور نظر آتی ہیں۔اس لئے سوال اٹھنا لازمی ہے کہ جب سفر سنتوں کی قربت میں اور قیادت میں ہو رہی تھی، سماج میں ہم آہنگی کا پیغام اور گرو شنکراچاریہ کا فلسفہ سنتوں کے ذریعے پہنچایا جانا تھا اور حکومت بس مددگار کے کردار میں تھا تو اشتہار اور ہورڈنگس میں قیادت کرنے والوں یعنی کہ سنتوں کو دکھنا چاہیے تھا یا مددگار (حکومت) کو؟
اس پر لوکیندر سنگھ کہتے ہیں، ‘ سچ ہے کہ مجسمہ کی تیاری یاترا نکالے بنا بھی ہو سکتی تھی۔ لیکن اصل میں ایسی یاترا سے نظریاتی فریق کو قوت ملتی ہے۔ شنکراچاریہ جی کا اصول کیا تھا؟ ان کا ایکاتم کے ساتھ کیا رابطہ ہے؟ ایکاتم کا معنی کیا ہے؟ لوگوں کو یہ پتا چلتا ہے۔ ایک سماجی پیغام جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سفر نکالنا بامعنی ہے۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں، ‘ دوسرا کہ سیاست میں جو کام کیا جاتا ہے، اس کا ڈھول تو پیٹا ہی جاتا ہے۔ سب کو بتانا ہی پڑتا ہے کہ ہم ایسا کام کر رہے ہیں۔ وہیں یہ سرکاری انعقاد تھا تو فطری ہے کہ قیادت حکومت ہی کرتی۔ بس خود کو ہمدرد دکھانے کے لئے کہہ دیا جاتا ہے کہ سنتوں کی قیادت ہے۔ جہاں تک رہنماؤں کی تصویریں چھپی ہونے کی بات ہے تو انعقاد سے بڑے سیاسی آدمی کے رابطے کے چلتے مقامی سطح کے ناطے ان کی نظر میں آنے کے لئے ان کے بڑی بڑی فوٹو لگوا دیتے ہیں اور ساتھ میں اپنے بھی لگا دیتے ہیں۔ ‘
سینئر صحافی راشد قدوائی کہتے ہیں، ‘ حزب مخالف میں ہونے پر تو سیاسی جماعت یا رہنما کو ایسے سفر کا بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ جس طرح اڈوانی کی رتھ یاترا سے ہوا کہ انہوں نے ایک مذہب خاص کے لوگوں کے اس عدم تحفظ کے جذبہ کو اجاگر کیا جہاں وہ سوچتے تھے کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ تو اس کا سیاسی فائدہ ان کو ملا۔ لیکن جب آپ اقتدار میں ہوتے ہیں تو ایسے سفر کا اس طرح کا فائدہ نہیں مل پاتا کیونکہ عوام کے دل میں سوال اٹھتا ہے کہ آپ تو حکومت میں ہیں، وسائل ہیں، پھر کیا رکاوٹ ہے؟ ‘
راشد آگے کہتے ہیں، ‘ دوسری حالت میں ایسی یاترا تب نکالی جاتی ہے جب لوگوں کو حکومت کا خوش کن احساس ہو۔ اس کامیابی میں سفر نکالا جاتا ہے۔ پر مدھیہ پردیش میں ایسا بھی نہیں ہے۔ کسانوں کی ہی مثال لیں تو ان میں بےچینی ہے۔ عام کسان زراعت میں نقصان اٹھا رہے ہیں اور سلفاس کھا رہے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ جو زراعت اساس ریاست کا ڈھنڈھورا پیٹ رہے ہیں، اس میں کہیں کوئی کمی ہے۔ سفر کے جو خاص دو مقاصد ہو سکتے تھے، جب ان میں سے کوئی نہیں ہے تو واضح ہے کہ سفر کا مقصد انہی کمیوں سے دھیان بھٹکانا ہے۔ ‘آگے راشد اس بات سے بھی اتفاق رکھتے ہیں کہ جب وزیراعلیٰ کو اپنی امیج گرتی نظر آئی تو انہوں نے خود کو مذہبی دکھانا شروع کر دیا۔ جیسا کہ بی جے پی لمبے عرصے سے کرتی آئی ہے۔
اس لحاظ سے دیکھیں تو مذہب کے ذریعے حکومت کی امیج بدلنے اور وزیراعلیٰ کے ذریعے اپنی مقبولیت بڑھانے کی غلط فہمی تھی اکاتمیاترا۔ جب منچ پر نمودار ہونے والوں سے لےکر سنت تک شنکراچاریہ سے زیادہ شیوراج سنگھ چوہان کی حمد وثنا کرتے سنے جاتے ہیں تب یہ بات اور بھی پختہ ہو جاتی ہے کہ یہ پوری قواعد خود کی ستائش کی تھی۔
حالانکہ گرجا شنکر کچھ الگ سوچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ ترقی اور ہندوتوا پر بی جے پی یہ مانتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ضمیمہ ہیں۔ جہاں تک شیوراج کے سفر نکالنے کا سوال ہے تو اس کا ان کی مقبولیت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ شیوراج سنگھ کی یاترا نہیں تھی ، وہ بس اس کے علمبردار تھے۔ اس سفر کا مرکزی کردار تو سنگھ تھا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ جو علم حاصل ہوا شنکراچاریہ کو وہ مقام مدھیہ پردیش میں ہے۔ گرو شنکراچاریہ نےکافی وقت گزرا یہاں۔ تو اس کے لئے یہ جگہ فائدےمند رہی۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں، ‘ اس کے پہلے جو سنگھ ستھ ہوا تھا، اس میں بھی جو بہت سارے انعقاد ہوئے جیسے کہ ‘ ہم آہنگی ‘ یا ‘ نظریات ‘، وہ تمام چیزیں عموماً سنگھ ستھکا حصہ نہیں ہوتیں۔ لیکن ان سب کا انعقاد ہوا۔ اس کا مرکزی کردار بھی سنگھ تھا۔ سنگھ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہی اس سفر کا مقصد رہا۔ ‘
بہر حال، دلچسپ یہ بھی ہے کہ گرو شنکراچاریہ کا مجسمہ اور ان کے لاثانی علم فلسفہ کو لوگوں تک پہنچانے کی اس پوری قواعد میں چاروں پیٹھ میں سے کسی بھی پیٹھ کے شنکراچاریہ شامل نہیں ہوئے۔ جو خودبخود : ہی اس سفر پر سوال کھڑے کرتا تھا۔شاردا اور جیوتیش پیٹھ کے شنکراچاریہ سوامی سوروپ آنند سرسوتی نے تو میڈیا سے یہ تک کہا تھا، ‘ گرو شنکراچاریہ کے نام پر ہو رہے سفر کے بارے میں حکومت نے چاروں شنکراچاریہ سے مشورہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا جبکہ اس سفر کے لئے شنکراچاریہ سے بات ضرور کرنی چاہیے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سفر میں کئی ایسی باتیںشنکراچاریہ سے جوڑ کر پیش کی گئی، جو سچ نہیں ہیں۔ ان کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا، وہ گمراہ کن تھا۔ اس لئے شنکراچاریہ کے اصولوں یا عوام سے یاترا کا کوئی سروکارنہیں تھا۔ اس میں بس شیوراج حکومت کا فائدہ تھا۔ انہوں نے نرمدا سفر کا کباڑ کیا، سرکاری نظام کا غلط استعمال کیا، اب بھی وہی کر رہے ہیں۔ ‘
سرکاری نظام کے غلط استعمال کی بات ہے تو ریاست کی ساری انتظامی مشینری تحفظ اوریاترا انتظام وانصرام کے کام میں مہینے بھر پہلے سے جھونک دیا گیا تھا۔ عوامی اجلاس میں بھیڑ جٹانے کا ہدف ان کے پاس تھا۔ جس کو وہ اسکولی بچّوں کو کھلی دھوپ یا سرد ہوا میں عوامی اجلاس میں گھنٹوں بیٹھا رکھکر پورا کر رہے تھے۔
راشد کہتے ہیں، ‘ سرکاری افسر نہ صرف اس میں حصہ دار رہے بلکہ گرو شنکراچاریہ کی چرن پادوکا سر پر رکھکر ان کی تصویریں سامنے آئیں۔ بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ عقیدہ ایک ذاتی معاملہ ہے۔ اس میں ہمارے ملک میں پوری طرح سے کسی پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ لیکن جو سروس کنڈکٹ رول کی گھیر میں آتے ہیں ان کو اصولوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ ‘انہوں نے آگے کہا، ‘ اس میں جو ریاست کے چیف سکریٹری یا مکھیا ہیں، ان کو جانکاری لینی چاہیے تھی۔ پر ایسا نہیں ہوا۔ ایک اخبار میں صاف صفائی مہم کی مخالفت میں ایک سرکاری افسر نے مضمون لکھا تھا تو ان کو وجہ بتاؤ نوٹس دی گئی۔ جواہر لال نہرو کی تعریف کرنے کے چلتے افسروں کو وجہ بتاؤ نوٹس دی جا رہی ہیں۔ اب کلکٹر چرن پادوکا اٹھانے میں آگے بڑھکر حصہ لے رہا ہے تو اس پر بھی ایک جوابدہی ہونی چاہیے۔ اس کو نوکرشاہی کا بھگواکرن تو نہیں کہیںگے پر یہ سیاسی طورغلط استعمال کا معاملہ ہے۔ ‘
وہیں، مختلف پیٹھ کے شنکراچاریہ نہ سہی، پر شیوراج سنتوں کی قربت میں یہ سفر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور منچ پر سنت بھی جٹائے جاتے ہیں۔ لیکن سیاست کے جانکاروں کا ماننا ہے کہ یہ بات کسی سے نہیں چھپی کہ سنتوں کو منچ پر اکٹّھا کرنا بی جے پی کی سیاست کا ہی حصہ رہا ہے۔ساکشی مہاراج، یوگی آدتیہ ناتھ، سادھوی پراچی، سادھوی رتنبھرا وغیرہ ایسے نام ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ سنتوں سے بی جے پی کی نزدیکیاں بہت رہی ہیں اس لئے سنت سماج کی آڑ لےکر اپنا مفاد سادھنا اس کے لئے مشکل نہیں۔ سنتوں کو منچ پر جٹانا مشکل نہیں۔اور اگر تھوڑا پیچھے جائیں تو اسی سنت سماج کے چھٹکنے کے ڈر نے بھی شیوراج کو پھر سے خود کو سناتنی ثابت کرنے کے لئے مجبور کیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق، سابق وزیراعلیٰ دگ وجئے سنگھ کی نرمدا یاتراکو مل رہے سنت سماج کی حمایت کے چلتے وزیراعلیٰ خود کو بڑا سناتنی ثابت کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا۔
غور طلب ہے کہ دگ وجئے سنگھ کانگریس سے چھٹی لےکر ستمبر سے نرمدا یاتراپر ہیں۔ اس کو وہ مذہبی سفر بتاتے ہیں اور اس دوران وہ سیاست کی کوئی بات نہیں کریںگے، ایسا ان کا کہنا ہے۔دگوجئےکی یاترا میں ایسے سنت بھی شامل ہوئے جو بی جے پی خیمے کے مانے جاتے تھے۔ وہیں، شیوراج نے جہاں نرمدا یاترا پر خوب سرکاری خزانہ خالی کیا اور 59000 روپے میں ایک نرمدا آرتی کا انعقاد کیا، بڑھ-چڑھکر اشتہار دئے، اس کے الگ دگ وجئے کی یاترا میں ایسا نہیں دیکھا گیا۔ نرمدا کنارے چلتے ہوئے وہ لوگوں سے رابطہ کر رہے ہیں۔ مختلف منچوں پر ان کو عظیم سناتنی پکارنے والے بھی فعال ہیں۔
اس لئے جانکار مانتے ہیں کہ شیوراج گجرات میں کانگریس کے سافٹ ہندو تواکی کامیابی دیکھ ہی چکے تھے، اس لئے ایسا کوئی خطرہ نہیں اٹھانا چاہتے تھے کہ دگ وجئے کی سناتن امیج انتخابات میں ان کی سناتن امیج پر حاوی ہو جائے۔ اس لئے بھی اکاتم یاترا کا خاکہ انہوں نے تیار کیا۔
Categories: فکر و نظر