ذات کو لے کرتشدد ایک مدت سے مہاراشٹر کی تہذیب کا حصہ رہا ہے۔ یہاں ہندتووادی سیاست کا فروغ کوئی ایک دن میں نہیں ہوا ہے۔ اس کو کئی دہائیوں تک فعال طریقے سے کھاد اور پانی دینے کا کام کانگریس اور این سی پی نے کیا۔
مہاراشٹر کے پونے ضلع کے بھیما کورےگاؤں میں گزشتہ دنوں ہوئے تشدد نے ایک بار پھر مہاراشٹر کے دلتوں اور مراٹھوں کے درمیان کے تعلقات کو بیچ بحث میں لا دیا۔ اس تشدد کے پیچھے ان کے درمیان دوستی اور دشمنی کی ایک لمبی اور پیچیدہ تاریخ ہے، جس نے اکثر اپنے وقت کی سماجی اور سیاسی ہلچلوں کو اجاگر کرنے کا کام کیا ہے۔ ان دونوں کمیونٹی کے درمیان کے رشتے کی شرط صرف ذات پر مبنی نہیں رہی ہے، بلکہ یہ زمین پر دونوں کے ذریعے نبھائے جانے والے کرداروں سے بھی طے ہوتی ہے۔تعداد کے حساب سے ریاست میں مراٹھوں کا دبدبہ ہے۔ وہ زمین سے جڑے ہوئے ہیں اور سیاسی عہدوں پر ان کی حالت کافی حد تک اجارہ داری والی رہی ہے۔
ان کے مقابلے میں دلتوں کی تعداد کم ہے۔ لیکن بکھری ہوئی شکل میں پورےمہاراشٹرمیں ان کی آبادی ٹھیک ٹھاک ہے۔ امبیڈکروادی سوچ کےعروج کے بعد دلتوں، خاص کر مہاروں نے روایتی احساسِ کمتری سے ظاہری طور پر انکار کرکے مراٹھوں کے دبدبے کو لگاتار چیلنج دیا ہے۔اس کے بعد سے مہاروں (جنہوں نے بدھ مذہب قبولکر لیا ہے) اور مراٹھوں کے درمیان کشیدگی لگاتار بڑھتی گئی ہے، جس سے ریاست میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔ پچھلی ایک دو دہائیوں سے دونوں کمیونٹی کے درمیان نسلی جدو جہد کی وجہوں میں بنیادی تبدیلی آئی ہے۔ ہندتووادی گروہ اس رنجش کی آڑ لےکر دلتوں کو جواب دینے کے لئے مراٹھوں میں شدت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔
1990 کی دہائی کے آخری سالوں سے مراٹھوں کے سماجی اور سیاسی رتبے میں کافی گراوٹ آئی ہے۔ اس کی خاص وجہ حال کے سالوں میں ان کی سیاسی اجارہ داری کا ختم ہونا ہے۔1990 کی دہائی سے پہلے تک مراٹھوں کے ذریعے کیا جانے والا دلت مخالف تشدد ذات کی برتری ثابت کرنے کا بد صورت طریقہ تھا۔ لیکن، ادھر کے سالوں میں دلت مخالف تشدد ہندتووادی نظریہ سے لیس ہے، جس کا مقصد سماج کو ماضی کے اندھیرے میں دھکیلنا ہے۔ ماضی کے مراٹھا افتخار کی باتوں کا استعمال دونوں کمیونٹی کے درمیان کشیدگی کو بڑھانے کے لئے ایک ہتھیارکے طور پر کیا جاتا ہے۔ بےروزگاری اور تعلیم کے مواقع کی کمی سے جوجھ رہے مراٹھا جوانوں کو اس جدو جہد میں آسانی سے کھینچ لیا جاتا ہے۔
غیر برہمن سیاست اور شیواجی کا استعمال
عام سمجھکے برعکس دلت مراٹھا رشتوں کی تاریخ صرف رنجش اور مخالفت تک ہی محدود نہیں ہے۔ مراٹھوں کی طرح ہی مہار، متنگ اور چمبھار دیہی کمیونٹی کا اہم حصہ تھے۔ مراٹھوں کی ہی طرح دلت بھی روایتی طور پر مراٹھا سلطنت کی بنیاد رکھنے والے شیواجی کی عزّت کرتے ہیں۔ حالانکہ، اس کی خاص وجہ ریاست کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر ان کا ترقی پسند کردار اور رویہ ہے۔ دلت ان کو ایک ایسے شخص کے طور پر بھی یاد کرتے ہیں جنہوں نے سماج کے نچلے طبقوں کے متعلق غیرمتعصب رویہ اپنایا۔مشہور قلمکاروں اور رہنماؤں نے پچھلے 100 سالوں میں شیواجی کی تاریخ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا کام کیا ہے۔لیکن، دلت ان کو اپنے آدرش اور نسلی اونچ نیچ کے نظام کوختم کرنے والے رہنما کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ اس بات کو بھلایا نہیں جانا چاہیے کہ کئی مواقع پر دلتوں، نچلی ذاتوں اور مراٹھوں کو ایک ساتھ صفبند کرنے کے لئے شیواجی کی عظیم شخصیت کا استعمال کیا گیا۔
مراٹھوں، دلتوں اور دوسری نچلی ذاتوں جیسے مختلف نسلی گروہوں کی صف بندی کے مقصد سے چلائی جانے والی غیربرہمن تحریک جیسے عوامی تحریکوں نے کئی بار شیواجی کی عظیم شخصیت کا استعمال یکجہتی بنائے رکھنے کے لئے کیا ہے۔ جدید دور میں شیواجی کو پہلی بار سماجی و سیاسی طور پر بامعنی بنانے کا کام جیوتیبا پھولے نے کیا۔ پھولے نے ان کو ایک ایسے اہم رہنما کے طور پر دیکھا، جو شودروں سے ہمدردی اور دوستی رکھتے تھے۔ انہوں نے شیواجی پر ایک پوواڑا گیت لکھا جس میں ان کو فعال طریقے سے سماجی یکجہتی کو بڑھاوا دینے والا رہنما بتایا گیا۔ پھولے نے شیواجی کو ایک مساوات پسند رہنما کے طور پر پیش کیا، جنہوں نے ذات اور مذہب کے نام پر کبھی کسی کے ساتھ تفریق نہیں کی۔
ان کو کسانوں اور محنت کش عوام کے افتخار کے طور پر یاد گیا۔ پھولے نے ان کو محبت کے ساتھ کل وادی بھوشن کہہکر پکارا ہے۔ اپنے مضمون میں پھولے نے مراٹھوں سے شیواجی کی یکسانیت اور انصاف کی گہری جذباتیت کی تقلید کرنے کی اپیل کی۔ پھولے کے شیواجی، نئے نئے ابھرے غیر برہمنڈسکورس کے دائرے میں متاثر کن مراٹھوں کو لانے کی پہلی سنجیدہ کوشش تھی۔ یہ سماج کو حاصل ایک اہم علامت کے ذریعے تاریخ کو تخلیقی طور سے تعمیر کرنے کی بھی ایک کوشش تھی۔
پھولے کی موت کے بعد نارائن میگھاجی لوکھنڈے، ویٹٹھل رام جی شندے، چھترپتی شاہو، بی آر آمبیڈکر، نانا سنگھ پاٹل جیسے غیربرہمن رہنماؤں نے شیواجی کی علامت کا استعمال عوام کی صف بندی کے لئے کیا۔حقیقت یہ ہے کہ 1920 کی دہائی میں امبیڈکر کے لیٹرہیڈ پر شیواجی کی تلوار (بھوانی تلوار) موجود ہوا کرتی تھی، جو سب کو متاثر کرنے والی شیواجی کی امیج کا مظہر ہے۔ دوسری طرف ہندتواوادیوں کے ذریعے شیواجی اور مراٹھا تاریخ کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کی کوشش پورے جتن سے کی گئی۔
ہندوتواوای تاریخی ڈسکورس کو اکثر مسلم مخالف اور اشرافیہ مرکوز بحث کے درمیان رکھاگیا ہے، جس سے مہاراشٹر کا سماجی و سیاسی تانابانا اور الجھ گیا ہے۔ریاست کی تشکیل کے وقت سے ہی ان تاریخوں کا مہاراشٹر کی تاریخی بحث پر دبدبہ رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ شیواجی اور مہاراشٹر کی تاریخ کو ہندوتوا کے اندر لانا آسان ہو گیا ہے۔ شیواجی کو ہتھیانے کا یہ کام کافی پہلے شروع ہوا اور اس کی تاریخ ریاست میں سیاسی طور پر ہندتوا کے عروج سے بھی پہلے سے شروع ہوتی ہے۔
امبیڈکر اور دلت تحریک
19ویں صدی کے آخری سالوں میں مہاراشٹر میں زبردست ہلچل دکھائی دیتی ہے (اس وقت اس علاقے کا ایک بڑا حصہ سابقہ ممبئی پریذیڈنسی کا حصہ ہوا کرتا تھا)۔ پھولے کی قیادت میں دبے کچلے لوگوں کی صف بندی کی کوشش خاص طور پر دلتوں اور مراٹھوں کی حصہ داری پر منحصر تھی۔ پھولے کے ذریعے قائم ستیہ شودھک سماج کی غیرمعمولی کامیابی کی ایک وجہ بڑی تعداد میں مراٹھوں، مالیوں اور دلتوں کی اس کی حمایت اور پیروکار بننا تھا۔پھولے کچھ حد تک ‘ غیر برہمنوں ‘ کا ایک طاقتور طبقہ تیار کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کی تعریف کرتے ہوئے ان کو معروف طریقے سے یہ دلیل دی کہ غیر برہمن سماج کی پہچان کی بنیاد اس کی خاص تہذیب اور مخصوص تاریخ ہے۔ لیکن، سماجی ثقافتی یکجہتی کو لےکر دی گئی دلیل سیاست میں غیر برہمن واد کے خاتمے کو زیادہ وقت تک ٹال نہیں سکا، کیونکہ یہ خود اندرونی اورداخلی انتشار میں مبتلا تھا۔
دبنگ ذاتیں، سماجی اور سیاسی فرق کو پاٹ پانے میں نااہل ثابت ہوئیں اور یہ غیربرہمن واد کے زوال کی ایک وجہ بنی۔1920 کی دہائی سے دلتوں نے خود کو الگ سے ایک طاقتور اور منظم گروہ کے طور پر پیش کرنا شروع کیا۔ اپنی عوامی زندگی کی شروعات سے ہی امبیڈکر کی دلچسپی خود کو غیر برہمن وادی سیاست کے ساتھ جوڑنے میں نہیں تھی۔
ان کا ماننا تھا کہ غیر برہمن شناخت، سماجی تبدیلی کا ایک اوزار ہونے کے باوجود، نسلی امتیاز کے سوال کو سلجھانے میں کارگر نہیں ہو سکتی۔اس کے ساتھ ہی، دلتوں کے خلاف تشدد کو انجام دینے میں مراٹھاؤں اور دیگر غیر برہمن ذاتوں کے کردار نے آپسی رنجش کو اور بھڑکانے کا کام کیا۔ دلتوں نے جب فعال طریقے سے متحد ہوکر گاؤں میں بااثر مراٹھوں کے تسلط کو چیلنج دینا شروع کیا، تب دلتوں کے خلاف تشدد کے معاملوں میں بھاری اضافہ ہوا۔
پھولے کی موت کے بعد، ستیہ شودھک سماج کی قیادت میں غیر برہمن وادی عروج نے چھترپتی ساہو کی قیادت میں ایک مضبوط سیاسی تحریک کی شکل لے لی۔ اس دوران کئی مراٹھا رہنماؤں کا عروج ہوا اور انہوں نے چھوت چھات کے خلاف لڑائی کو آگے بڑھانے کے لئے دلتوں کے ساتھ فعال طریقے سے اتحاد کیا۔
ایک مراٹھا سماج کے مصلح وٹھل رام جی شندے کا نام ایک مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔امبیڈکر کے عروج سے پہلے وہ دلتوں کے اہم رہنماؤں میںسے ایک تھے اور دلتوں کی طرف سے شدت سے آواز اٹھاتے تھے۔
امبیڈکر کے ساتھ ان کے گہرےاختلافات کے باوجود ان کے ذریعے شروع کئے گئے اسکول اور ہاسٹل امبیڈکروادی تحریک کے خاص مرکز بنکر ابھرے۔ ان اداروں سے کئی مشہور دلت رہنما نکلکر آئے۔دوسری طرف، ایک کرشمائی مراٹھا رہنما کے طور پر شمار کئے جانے والے کولہاپور ریاست کے حکمراں ساہو نے 20ویں صدی کی شروعات میں دلت سیاست کی سمت کو طے کرنے کا کام کیا۔
وہ الگ الگ ذات کےگروہوں کے کئی رہنماؤں کو ایک ساتھ لانے اور ایک طاقتور غیربرہمن وادی سیاست کو مضبوطی سے آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کافی جوش کے ساتھ امبیڈکر کی بھی مدد کی اور ان کی غیر ملکی تعلیم کے لئے پیسے کا بندوبست کرنے میں بھی ان کا بڑا کردار رہا۔
امبیڈکر کےپہلے جلسہ میں ساہو نے بھی مدد کی تھی۔ ان کی قبل از موت سے مراٹھا اور غیربرہمن قیادت میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا جو آخرکار مہاراشٹر میں غیر برہمن سیاست کے کمہلانے کی وجہ بنی۔ان کی جگہمغربی ہندوستان کے دو اہم رہنماؤں کیشوراؤ جیدھے اور دنکر راؤ جاولکر نے لیا۔ انہوں نے کافی فعال طریقے سے 1920 اور 1930 کی دہائی میں امبیڈکر کی مدد کی، حالانکہ بعد میں دونوں کانگریس میں چلے گئے۔
کانگریس کے اندر اشراف قیادت کو کمزور کرنے اور صوبائی سطح پر مراٹھا مرکوز قیادت کے لئے راستہ تیار کرنے میں ان کا اہم کردار رہا۔ اس کے بعد سے ہی مغربی ہندوستان کے مراٹھی علاقوں میں سیاسی طور پر مراٹھا کے دبدبے کے دور کی شروعات ہوتی ہے۔
دلتوں نے کافی جوش کے ساتھ ترقی پسند مراٹھوں کی مدد کرنے کی کوشش کی اور کافی فعال طریقے سے ان کو ذات مخالف تحریک کے اندر شامل کر لیا۔اس کے ساتھ ہی امبیڈکر مختلف ذات کے گروہوں سے کارکنان اور رہنماؤں کو اپنی تنظیم کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے۔ کونکن علاقے میں امبیڈکر کی قیادت والی کسان تنظیم کی قیادت، بالخصوص 1930 کی دہائی میں، ان کے مشہور دلت معاونین نے کیا۔
ان میں سے ایک نارائن راؤ پاٹل تھے، جو ایک مراٹھا تھے۔ 1937 کے انتخابات میں Independent Labour Party کو بھاری جیت دلانے میں پاٹل کیخدمات کافی اہم تھی۔یہ امبیڈکر کی پہلی سیاسی پارٹی تھی، خاص کر کونکن حلقے میں۔ دوسری طرف ودربھ کے حلقے سے بھی کئی اہم مراٹھا رہنما نکلکر آئے، جنہوں نے کافی بڑھ چڑھ کر دلتوں کے ساتھ کام کیا۔
ان میں سے ایک تھے، پنجاب راؤ دیش مکھ، جو آگے چلکر ہندوستان کے پہلے وزیرِ زراعت بنے، جنہوں نے اپنی عوامی زندگی کی شروعات ایک انقلابی سماجی کارکن اور ذات مخالف تحریک کے ایک فعال منتظم کے طور پر کی تھی۔
کانگریس میں شامل ہونے سے پہلے انہوں نے وسط ریاست اور بیرار کی ریاستی اسمبلی کے ممبر کے طور پر Independent Labour Party کی نمائندگی کی۔ وہ لمبے وقت تک امبیڈکر کے قابل اعتماد معاون بنے رہے۔
مراٹھوں اور دلتوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کی فعال کوششوں کے باوجود اعلیٰ غیربرہمن قیادت مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والے دلت مخالف تشدد کو روک پانے میں ناکام رہا۔ 1920 سے 1947 کے درمیان کی رپورٹوں سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ دلت مخالف تشدد تب شروع ہوا جب دلتوں نے فعال طریقے سے اشراف کے تسلط کو چیلنج دیا۔
امبیڈکر کی قیادت میں چلی مضبوط دلت تحریک کی موجودگینے اس دور میں دلت مزاحمت کو پھر سے مضبوطی دی۔ اصل میں دلتوں کے خلاف تشدد نے منظم دلت سیاست کو شکل دینے میں اہم کردار اداکیا۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ گاؤں کی سطح پر مراٹھادلت تعلقات میں بنیادی طورسے کئی دہائیوں تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
آزادی کے بعد دلت مراٹھا راشتے
آزادی کے بعدکے دور میں دونوں کمیونٹی کے درمیان کے رشتوں میں اہم تبدیلی آئی۔ نئے بنائے گئے مہاراشٹر ریاست میں آبادی کے حساب سے مراٹھوں کی اکثریت ہو گئی اور ریاست کے معاملوں میں ان کی مسلسل سیاسی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ اس نے اقتدار کے پلڑے کو ان کی طرف جھکا دیا۔ زمین سے جڑی کمیونٹی ہونے کے ناطے مراٹھا کی اکثریت زمین اور زراعت سے جڑی رہی اور انہوں نے کافی جارحانہ طریقے سے مہاراشٹر کے دیہی حصوں پر اپنا تسلط بناکر رکھا۔
اس نے مراٹھا اور دلتوں کے درمیان ایک مسلسل جدو جہد کی حالت پیدا کی۔ غیر یقینی کا یہ لمبا دور آخرکار 1970 کی دہائی میں دلت پینتھرس کی شکل میں انتہا پسند آوازوں کے دھماکے کی وجہ بنی۔باوڈا گاؤں میں مراٹھا کے ذریعے کیا گیا نسلی تشدد 1972 میں دلت پینتھرس کی تشکیل کے لئے محرک ثابت ہوئی۔ اس تنظیم کا خاص مقصد دلتوں کے خلاف ذاتی تشدد کو ختم کرنا تھا۔ حالانکہ، اس کی عمر زیادہ نہیں رہی، مگر دلت پینتھرس جارحانہ دلت جوانوں کی مضبوط آواز کے طور پر ابھرکر سامنے آیا۔
مہاراشٹر کے سماجی اور سیاسی منظرنامے پر مراٹھا کا دبدبہ 1990 کی دہائی تک بنا رہا۔ 1990 کی دہائی میں کئی اہم تبدیلی دیکھنے کو ملی، جس نے مراٹھاعظمت کو گہرائی تک متاثر کیا۔منڈل کمیشن کی سفارشوں کے نافذ کئے جانے، نئی اقتصادی اصلاحات کی عمل آوری اور ایس سی / ایس ٹی پروینشن آف ایٹروسٹیز ایکٹ کے اثر میں آنے کے واقعات نے ملکر مراٹھا تسلط کو کمزور کرنے کا کام کیا۔ ا س کے نتیجہ کے طور پر ان کے سماجی اور سیاسی قد میں قابل ذکر گراوٹ درج کی گئی۔ یہ گراوٹ سال 2000 کی دہائی میں دکھائی دینے لگی۔ اس کے ساتھ ہی، 1990 اور 2000 کی دہائی میں ہی ہندتووادی تنظیموں نے اپنے تنظیمی نیٹ ورک کو پھیلانا شروع کیا۔
پچھلے کچھ سالوں میں ہندتووادی طاقتوں کی توسیع کی خاص وجہ دیہی علاقوں کے غیر مطمئن مراٹھوں کی اس میں بڑھ چڑھکر حصے داری رہی ہے۔یہ تنظیم سیاسی منظرنامے کو مذہبی اور ذات کی بنیاد پر پولرائز کر رہے ہیں، خاص کر امبیڈکر وادی دلتوں کے خلاف، جن کو وہ عام طور پر اپنے سیاسی پروجیکٹ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مراٹھا اور دیگر متاثر کن متوسط ذاتیں، خاص طور پر دیہی علاقوں سے آنے والی ذاتیں، ان تنظیموں کی طرف کافی متوجہ ہو رہی ہے، جس سے ایک مسلسل چلنے والی سماجی کشیدگی کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔
بھیماکورےگاؤں کا واقعہ کوئی استثنا نہیں ہے۔ نسلی تشدد اور دلتوں کے خلاف ظلم کے واقعات کوئی آج کی چیز نہیں ہے۔ یہ ذات اور تشدد کے درمیان کے قریبی رشتے کو دکھاتی ہے۔جب دلتوں کے ذریعے اشرافیہ سماج کو چیلنج دیا جاتا ہے، تو اکثر ان کے ساتھ تشدد کیا جاتاہے اور سیاسی نظام کے ذریعے ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جدید دور میں یہ پیٹرن بار بار دوہرایا گیا ہے، خاص کر امبیڈکر کی قیادت میں طاقتور دلت تحریک کے عروجکے بعد۔
امبیڈکر کی زندگی میں کانگریس قیادت کے ذریعے ان کو ملک مخالف اور نسل پرست کہہکر، ان پر باقاعدہ طور پر تلخ حملے کئے گئے۔ امبیڈکر کے بعدکے مہاراشٹر میں سماج کی مروجہ سمجھ کو جن دلتوں نے چیلنج دیا ، ان کوآسان طریقے سے سیاسی حکمرانوں نے درکنار کر دیا۔ ذاتی تشدد لمبے وقت سے مہاراشٹر کی تہذیب کا حصہ رہا ہے۔ ہندتووادی سیاست کی ترقی کوئی ایک دن میں نہیں ہوئی ہے۔ اس کو کئی دہائیوں تک فعال طریقے سے کھاد اورپانی دینے کا کام کانگریس اور این سی پی نے کیا۔ دوسری طرف مہاراشٹر کے اسکولوں کی تاریخ کی نصابی کتابوں سے ان دونوں کے درمیان کے پوشیدہ گٹھ جوڑ کا پتا چلتا ہے۔ اس گٹھ جوڑ نے ملکر دانشورانہ بحث کو فرقہ وارانہ شکل دینے کا کام کیا ہے۔
بھیما کورےگاؤں تشدد کی اہمیت خاص طور سے دلتوں کے خلاف تسلط والی ذاتوں کی نئی حکمت عملی کو سامنے لانے کی وجہ سے ہے۔ 1980 کی دہائی میں دلتوں کے خلاف ہونے والے تشدد اور 2018 کے تشدد میں بڑا فرق ہے۔
1980 کی دہائی میں اشرافیہ کے ذریعے کئے جانے والے تشدد کاخاص مقام سے لینا دینا ہوتا تھا، دوسری طرف بھیماکورےگاؤں کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے۔کئے جا رہے دعویٰ کے برعکس یہ کوئی خودبخود غیر معمولی ردعمل نہیں تھا۔ اس کی حکمت عملی دور بیٹھکر بنائی گئی اور دور سے ہی اس کو انجام دیا گیا۔ ودھو بدرک میں مراٹھوں اور دلتوں کے درمیان شروع ہوئے جدو جہد کا استعمال کافی سوچ سمجھ کر بھیما کورےگاؤں میں تشدد بھڑکانے کے لئے کیا گیا۔
مختلف بحرانوں سے محصور مراٹھوں کے غصے کو جان سمجھکر اس طرح سے موڑا گیا، تاکہ سماجی ہم آہنگی کو تباہ کیا جا سکے۔غیرمطمئن مراٹھوں کو متوجہ کرنے کے لئے مراٹھا تاریخ کو بار بار اچھالاجا رہا ہے۔ اگر یہ جاری رہا تو یہ مختلف کمیونٹی کے درمیان اور بھی بڑی سماجی جدو جہد کی بنیاد بن سکتی ہے، جو سماجی بحث کو ختم کر دےگا۔ کسی بھی کمیونٹی کے مقابلے میں اس کا سب سے زیادہ اثر دلتوں پر پڑےگا۔
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی کے رام جس کالج میں تاریخ پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر