وہ راہل گاندھی کی طرف امید سے نہیں دیکھ رہے ہیں، مگر وہ بی جے پی کی طرف اپنی پیٹھ موڑ سکتے ہیں۔
بی جے پی اور سنگھ پریوار کے اندر پنپی نئی بےچینی کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ گجرات اسمبلی اور راجستھان میں ہوئے ضمنی انتخاب کے نتیجے عوام میں پارٹی کے تئیں بڑھ رہے عدم اطمینان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔آنے والے مہینوں میں راجستھان اور کرناٹک سمیت آٹھ ریاستوں میں انتخاب ہونے والے ہیں۔ اگلےسال مئی تک یا اس سے پہلے ہی، عام انتخاب بھی ہو جائیںگے۔
موجودہ سمجھ یہ کہتی ہے کہ بی جے پی اس بار 2014 کے 282 سیٹوں کے اعداد و شمار کو نہیں چھو پائےگی اور وزیر اعظم نریندر مودی یا تو ایک نازک اتحاد کی قیادت کریںگے یا ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم کے طور پر ان کی واپسی بھی نہ ہو، کیونکہ ایسی حالت میں معاونین کو ساتھ لےکر چلنے اور سب کی فکرپر دھیان دینے والا رہنما چاہ سکتے ہیں۔
بی جے پی کے کئی قریبی معاونین کی بےقراری بڑھ رہی ہے اور وہ بی جے پی کے ذریعے ان کے ساتھ کئے جا رہے برتاؤ کو لےکر بھی اپنی ناخوشی کا اظہار کرنے لگے ہیں۔اتحاد پر منحصر حکومت میں یہ معاونین زیادہ جارحانہ ہو سکتے ہیں اور رکاوٹ ڈالنے کا راستہ اپنا سکتے ہیں۔ اگر بی جے پی انتخاب میں خراب مظاہرہ کرے اور ایک حزب مخالف اتحاد حکومت بنائے، تو اس حالت میں کیا ہوگا؟ یہ کوئی ناممکن تصور نہیں ہے-2004 کا جھٹکا ابھی تک لوگوں کے دماغ میں تازہ ہے۔
اسی خیال نے سنگھ پریوار اور اس سے بھی زیادہ مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ کی راتوں کی نیند اڑا دی ہے۔ اور اس گھبراہٹ میں پارٹی ہندوتوا کے دم پر پولرائزیشن کے اپنے سب سے آزمائے ہوئے نسخے پر لوٹ آئی ہے۔عام طور پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ انتخابی نتائج کی بہت زیادہ فکر نہیں کرتا۔ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو یہ اپنے طویل مدتی مقاصدکے لئے کام کرتا رہتا ہے۔
قدرتی طور پر بی جے پی انتخابات میں جیت حاصل کرنا چاہتی ہے، لیکن آر ایس ایس اور اس کے نظریہ کو ماننے والی تنظیم ایسے جمہوری عمل کو لےکر ایک مصلحت پسند نظر رکھتے ہیں۔حکومت میں رہنے سے ان کا راستہ تھوڑا آسان ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ پالیسیوں کو متاثر کرنے کی حالت میں آ جاتے ہیں اور اپنے مقاصد کو زیادہ تیزی سے حاصل کر سکتے ہیں۔
دہائیوں سے وہ اپنے لوگوں کو حکومت کے اندر صحیح جگہوں پر بٹھانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس کا اندازہ لگانے کے لئے آپ صرف ان سابق سرکاری افسروں کی تعداد کی گنتی کیجئے، جو 2014 میں اپنی خول سے باہر نکل آئے۔جب آر ایس ایس پر پابندی لگائی تھی، تب بھی اس نے کام کرنا بند نہیں کیا۔ نہ ہی تب کیا، جب بی جے پی صرف دو سیٹ پر سمٹکررہ گئی تھی۔
2014 کی جیت نے سنگھ کی طاقت کو بڑھانے کا کام کیا۔ اس نے اقتدار کا لگام ا س کے ہاتھوں میں دے دی جس سے یہ اپنے منصوبوں کو تیز رفتار سے آگے بڑھانے کی حالت میں آ گیا۔پچھلے قریب چار سالوں میں ہر اہم اداروں پر قبضہ کرنے، تاریخ کے نصابوں کو بدلنے، من پسند پالیسیوں کو آگے بڑھانے اور سیکولرپسند کو ہر جگہ سے باہر کھدیڑنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔
جواہر لال نہرو کو اصلی گناہ گار اور ہندوستان کےتمام مسائل کی جڑ کے طور پر متصور کیا گیا ہے-ایسا کرنا نسلوں سے آر ایس ایس کے لئے کسی مذہبی ایمان کی طرح رہا ہے۔مار پیٹ کر مسلموں کو گھٹنے پر لا دیا گیا ہے۔ ہندوتوااور اس کے کئی برے عناصر سب کے سامنے ہیں۔ یہ اب صرف حاشیے کی آواز نہیں ہے، بلکہ اصل میں ادبی سمیناروں ، ٹیلی ویژن اسٹوڈیو سے لےکر ٹیچر ٹریننگ پروگراموں تک میں دکھائی دے رہا ہے۔
ہندوتوا ہمارے چاروں طرف ہے اور قومی بحث و مباحثے کو متاثر کر رہا ہے۔
یہ ایک ایسا ملک ہے، جہاں ایک خاتون رکن پارلیامنٹ کے ذرا زیادہ زور سے ہنسنے کی ‘ گستاخی ‘ کی وجہ سے وزیر اعظم کے ذریعے ان کا مذاق اڑایا جانا قومی ٹیلی ویژن پر بحث کا موضوع ہے۔
خواتین کا بیئر پینا گووا کے وزیراعلیٰ کو کتنا برا لگتا ہے، یہ ہمارے دانشور لوگوں کے لئے کھدائی لائسنس کے خلاف سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔یہ ایک ایسا ملک ہے، جہاں کے وزیر اعظم ایک عدد پریس کانفرنس کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں اور نہ ایک کھلا انٹرویو دینے کے لئے راضی ہوتے ہیں۔
اس سے بھی تکلیف دہ یہ ہے کہ میڈیا کے پاس اس حالت کو قبولکر لینے کے علاوہ کوئی چارا نہیں بچا ہے۔
ملک میں کچھ ایسی فضا بنائی گئی ہے کہ ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ بس اس سبب مار دئے جاتے ہیں، کیونکہ کچھ لوگوں کو ان کے کھانےپینے پر شک ہوتا ہے۔پیٹ پیٹ کر مار دینے کے واقعات کا ویڈیو بنایا جاتا ہے تاکہ ان کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اور سچے بھکتوں تک پہنچایا جا سکے اور ‘ لو-جہادیوں ‘ کو سبق سکھایا جا سکے۔
وہ دن دور نہیں ہے جب ہم جنس پرستوں یا آزادخیالوں جیسے ‘ گمراہوں ‘ کو بھی نشانہ بنایا جائےگا۔
اقلیتوں کو ڈرائے جانے اور تاریخ کو پھر سے لکھے جانے کے زہریلے اور دم گھٹنے والےماحول کی تشکیل بس سطح کے اوپر کی کھرونچ ہے۔ سنگھ پریوار کے دیرینہ منصوبے زیادہ حوصلہ مندانہ ہیں۔کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنا، شہری کوڈ میں تبدیلی، رام مندر کی تعمیر اور ان کا سب سے من پسند منصوبہ-آئین کی پوری طرح سے ترمیم کرنا، یہ سب سنگھ کے دیرینہ پروجیکٹ کے لئے اہم ہیں۔لیکن، ان کے یہ خواب پورا ہونے سے ابھی کافی دور ہیں۔ ان کے لئے ان مقاصد کو سنجوئے رکھنا کافی ضروری ہے۔زیادہ وقت نہیں گزرا ، جب یہ سب پہنچ کر اندر لگ رہے تھے۔ 2014 میں پارلیامنٹ میں مکمل اکثریت ملنا بی جے پی کے لئے منہ مانگی مراد پوری ہو جانے کی طرح تھا۔
اپنی حکومت کے اقتدار میں ہونے سے ہندتووادی طاقتوں کا حوصلہ اور بڑھ گیا۔ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے تجسس میں وہ ہرجگہ دکھائی دینے لگے اور اسی تناسب میں ان کی بےحیائی بھی بڑھ گئی۔وہ یہ سب اس یقین سے کرنے لگے کہ وہ چاہے جو کر لیں، حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرےگی۔
کسی بھی دوسرے قانون کو ماننے والے سماج میں اخلاق اور اس کے بعد کئی دوسروں کے قاتل کو جلد سے جلد سزا دی گئی ہوتی، لیکن یہاں، ان کو ہیرو بتایاگیا۔ اور ایک قاتل کی لاش کو تو ترنگے سے لپیٹکراس کی تعظیم کی گئی۔کوئی اور سماج ہوتا تو، ونے کٹیار جیسے رہنما کو ان کی پارٹی قیادت ان کے بگڑے بول کی صفائی دینے کے لئے کہتا۔ لیکن، یہاں ان کی پارٹی میں کسی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا-وزیر اعظم کی بات تو جانے ہی دیجئے۔
ہو سکتا ہے ان کو اس کے لئے انعام بھی مل جائے۔ آخر، اپنے خلاف اتنے الزامات کے باوجود یوگی آدتیہ ناتھ وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچے ہی۔لیکن، 2014 کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ ان کا بڑا مقصد آج بھی پہلے کی ہی طرح پہنچ سے دور ہے۔ راجیہ سبھا میں تعدادکی طاقت آج بھی بی جے پی کے خلاف ہے اور اس سے بھی خراب یہ ہے کہ 2019 کے آثار صحیح نظر نہیں آ رہے ہیں۔
اگر ایک مضبوط اور مقبول عام رہنما والی اکثریت کے سرکاری ڈھانچے میں تبدیلی لانے والا پہلا قدم نہیں اٹھا سکے تو پھر ایک اتحادی حکومت میں، جس میں بی جے پی کے پاس اکثریت نہیں ہوگی، ایسا کرنا اور بھی مشکل ہوگا۔
اس لئے سنگھ پریوار میں جلد سے جلد گنوائی ہوئی زمین پھر سے حاصل کرنے کی بےچینی بڑھ گئی ہے۔ ہندو توا کو پولرائز کرنے کے لئے ماحول میں گرمی لانے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔اس کھیل میں سنگھ پریوار ماہر ہے اور اس نے ماضی میں اس کو کافی فائدہ بھی پہنچایا ہے۔
ایک جانا-پہچانا پیٹرن پھر سے دوہرایا جا رہا ہے-پولرائزیشن کرنے کا ہر نسخہ اس امید میں آزمایا جا رہا ہے کہ اس سے نہ صرف کیڈر خوش ہوگا اور اس میں نئی توانائی کی ترسیل ہوگی، بلکہ یہ کنارے بیٹھے ہوئے اور ابھی تک اپنا من نہ بنا پائے ان لوگوں کو بھی اپنی طرف کھینچ سکتا ہے، جن پر ہندتووادی پروپیگنڈہ اثر کر سکتا ہے۔
زمینی سطح پر، آر ایس ایس اور بی جے پی کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والی تنظیموں نے کمان پوری کھینچ لی ہے۔ دوسرے سطح پر ذمہ دار عہدوں پر بیٹھے ہوئے مگر نفرت پھیلانے والے لوگوں نے اور بھی زیادہ بےتکی بیان بازی شروع کر دی ہے۔بلندی پر، جہاں اب بھی دکھاوے کی اہمیت بنی ہوئی ہے (شہری متوسط طبقہ کو بہت زیادہ ناراض کرنے کا جوکھم نہیں اٹھایا جا سکتا)، تاریخی غلطیوں کو سدھارنے کے بہانے اب بھی تعصبات کو بیان کیا جا رہا ہے۔
اس طرح، ہم جہاں ایک طرف یہاں-وہاں فساد اور تشدد (کاس گنج) دیکھتے ہیں، تو دوسری طرف ہم ونے کٹیار کو ایک بار پھر فعال ہوتا ہوا اور مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑ کر چلے جانے کی بات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
شہری متوسط طبقہ کو یہ سب بےمزہ لگ سکتا ہے۔ ان کے لئے وزیر اعظم پارلیامنٹ میں تقریباً ایک انتخابی تقریر کرتے ہیں اور وہاں رافیل سودے پر تو ایک لفظ بھی نہیں بولتے، مگر جواہر لال نہرو، ان کی نسلوں اور ان کی پارٹی کی تنقید کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔
مودی کہتے ہیں کہ اگر ولّبھ بھائی پٹیل ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم ہوئے ہوتے، تو آج پورا کشمیر ہندوستان کا حصہ ہوتا۔ مودی یا سنگھ پریوار کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی تاریخی ثبوت موجود ہیں۔ نسلوں سے یہی باتیں ان کو گھٹّی میں گھولکے پلائی گئی ہے اور تاریخ یا دستاویزی ثبوت ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ویسے لوگوں کے لئے، جو سڑک چھاپ ہندوتوامارکہ ٹھگی سے گھبرا سکتے ہیں اور ونے کٹیار کے بگڑے بولوں کو خارج کر سکتے ہیں، ان کو وزیر اعظم کا نہرو مخالف طنز اپیل کرتا ہے۔
اور اگر اس کو نسل پرستی کے خیال کے ساتھ ملا کر پروسا جائے، تو اعتدال پسند ‘ غیر جانبدار ‘ دانشور بھی اس کی حمایت میں سر ہلانے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں۔اس سہ طرفہ کوشش کے ذریعے، جس کو بازار کے استاد سبھی طبقوں کو خوش رکھنے کی پالیسی کہہ سکتے ہیں، (سنگھ) فیملی اپنے تمام اجزا، کٹّر حامیوں سے لےکر نئےنویلے رنگ روٹوں کو جوڑ کر رکھنے میں کامیاب ہو رہا ہے اور اپنی پہنچ بڑھانے کی امید کرتا ہے۔
2014 میں بی جے پی صرف سنگھ کے پرانے حامیوں کی مدد سے ہی جیت تک نہیں پہنچی تھی۔ اصل میں نریندر مودی نے تعلیم یافتہ متوسط طبقہ، شہری اشرافیہ طبقے اور نئے نوجوان رائےدہندگان کو بھی متاثر کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ان سبھی نے ایک پرانی بدعنوان حکومت سے نجات کا استقبال کیا تھا۔ وہ اقتصادی ترقی، نوکریوں اور بد عنوانی سےآزاد ہندوستان کی باتوں سے مسحور تھے۔
وہ سب اب مایوس ہیں۔ یہ مایوسی صرف اس حکومت کے اقتصادی مظاہرے کی وجہ سے ہی نہیں ہے، بلکہ بڑھتی کشیدگی کی وجہ سے بھی ہے۔وہ راہل گاندھی کی طرف امید سے نہیں دیکھ رہے ہیں، مگر وہ بی جے پی کی طرف اپنی پیٹھ موڑ سکتے ہیں۔ اگر وہ چھٹک جاتے ہیں اور اختیارات کی تلاش کرتے ہیں، تو یہ بی جے پی کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔یہ پارٹی کے لئے کسی آفت کے مانند ہوگا۔ اگلے کچھ مہینوں میں ان کو پھر سے جوڑنا ہے۔ ‘ اچھے دن ‘ کا وعدہ اس بار کام نہیں کرےگا۔ان کو لگتا ہے، اس کی جگہ ہندوتوا اور نہرو کی تنقید کا سہارا کیوں نہ لیا جائے؟ کس کو پتا ہے، شاید یہ لوگوں کو پسند آ جائے!
Categories: فکر و نظر