مرکزی وزارت داخلہ نے تمام ریاستی حکومتوں اور یونین ٹیریٹری ریاستوں کو 2009، 2012 اور 2016 میں خط لکھکر خاتون اہلکاروں کی تعداد بڑھا کر 33 فیصد کرنے کی صلاح دی تھی۔
نئی دہلی : ملک میں خواتین کے خلاف جرم کے بڑھتے گراف کے درمیان ہندوستان میں پولیس فورس میں ان کی موجودگی محض 7.28 فیصد اور نکسل متاثر تلنگانہ میں سب سے کم 2.47 فیصد ہے۔مرکزی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق، دہشت گردی سے متاثر جموں و کشمیر میں پولیس فورس میں بس 3.05 فیصد خواتین ہیں۔ جموں و کشمیر میں ان کی منظور شدہ تعداد 80000 سے زیادہ ہے۔حکومت کے یہ اعداد و شمار ملک میں خواتین کے خلاف جرم کے تیزی سے بڑھتے گراف کے درمیان آیا ہے۔ سال 2015 میں خواتین کے خلاف 329243 جرم ہوئے تھے جو سال 2016 میں بڑھکر 338954 ہو گئے۔
وزارت کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ مرکزی وزارت داخلہ نے تمام ریاستی حکومتوں اور یونین ٹیریٹری ریاستوں کو 2009، 2012 اور 2016 میں خط لکھکر خاتون پولیس اہلکاروں کی تعداد بڑھا کر 33 فیصد کرنے کی صلاح دی تھی، لیکن اس کے بعد بھی حالت قابل رحم ہے۔افسر نے بتایا کہ تمام ریاستوں اور یونین ٹیریٹری ریاستوں سے خاتون کانسٹبلوں اور سب انسپکٹرز کا ایڈیشنل عہدہ لانے اور خواتین کی بھرتی کر کے ان اسامیوں کو بھرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
گزشتہ سال ایک جنوری کو تلنگانہ پولیس میں خاتون اہلکاروں کی تعداد 2.47 فیصد تھی۔ تلنگانہ میں ان کی منظور شدہ تعداد 60700 ہے۔ سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش پولیس فورس میں خواتین بس 3.81 فیصد ہیں۔ اس میں ان کی منظور شدہ تعداد قریب 365000 ہے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آندھر پردیش، مدھیہ پردیش اور میگھالیہ میں بھی پولس فورس میں خواتین کے فیصد میں کمی دیکھی گئی۔ حالانکہ تمل ناڈو میں خاتون پولیس اہلکاروں کی تعداد سب سے زیادہ دیکھی گئی۔ ہماچل پردیش، مہاراشٹر اور گووا میں بھی حالات نسبتاً بہتر دیکھے گئے۔
یونین ٹیریٹری ریاستوں میں چنڈی گڑھ میں خاتون پولیس اہلکاروں کی تعداد سب سے زیادہ پائی گئی۔ وہیں دہلی پولیس، جہاں خاتون پولیس اہلکاروں کی منظور شدہ تعداد تقریباً 85000 ہےپچھلی 1 جنوری تک وہاں صرف 8.64 فیصد خواتین ہی پولیس فورس میں تعینات تھیں۔ایک دوسرے افسر نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے نیم فوجی دستوں میں خواتین کی تعداد بڑھانے کے لئے کئی قدم اٹھائے ہیں ۔انہوں نے آگے کہا، ‘امید ہے کہ جلدہی خواتین کی تعداد سینٹرل ریزروپولیس فورس (سی آر پی ایف) میں سیکورٹی سطح کے عہدوں پر ایک تہائی اور بی ایس ایف، ایس ایس بی اور آئی ٹی بی پی میں 15 فیصد کے قریب ہوگی۔ان دستوں میں مشترکہ طور پر تقریباً نو لاکھ ملازم ہیں، جن میں خواتین کی تعداد صرف 20000 کے قریب ہے۔سی آر پی ایف کو دنیا کا سب سے بڑا نیم فوجی دستہ مانا جاتا ہے جس کی تعیناتی زیادہ تر قانونی نظام بنائے رکھنے اور نکسلی مخالف مہم میں ہوتاہے۔
غور طلب ہے کہ ملک میں 2015 میں 34651 ریپ کے معاملے درج ہوئے، جن کی تعداد 2016 میں بڑھکے 38947 پر پہنچ گئی۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق، خواتین کے خلاف کل جرائم میں بھی اس دوران اضافہ دیکھا گیا۔ خواتین کے خلاف ہوئے جرائم میں زیادہ تر جرم شوہر یا رشتہ داروں کے ذریعے ہوئے تھے۔ جس کے بعد عورتوں کے وقار کو ختم کرنے یا نقصان پہنچانےکےارادے سے ان پر حملہ، اغوا اور ریپ کا نمبر آتا ہے۔سب سے زیادہ ریپ کے معاملے 2016 میں مدھیہ پردیش میں، اس کے بعد اتر پردیش اور مہاراشٹر میں درج ہوئے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں