ایک مسلم لڑکی کی حالت پر ایک قومی سطح پر جانےپہچانے چہرے کا یوں رونا اس بات کا ثبوت تھا کہ مودی اور ان کے بھگوا حامیوں کی پہنچ سے پرے بھی ایک ہندوستان ہے۔
27 فروری 2002 کی اس بدقسمت دوپہر کی یادیں مجھے اب بھی ڈرا جاتی ہیں۔ میں بڑودا یونیورسٹی کی اپنی فزکس لیب میں تھا، جب ایک چپراسی بھاگتے ہوئے آیا اور بتایا کہ ایودھیا سے رضاکاروں کو لا رہی ایک ٹرین پر وڑودرا سے قریب 100 کلومیٹر دور، گودھرا میں حملہ ہوا ہے۔ کئی رضاکاروں کو زندہ جلا دیا گیا۔ اگلے دن وشو ہندو پریشد کے ذریعے ایک شویاترا کے لئے ان کی لاشوں کو احمد آباد لے جایا جانا تھا۔
مجھے ایک انجانے ڈر نے جکڑ لیا۔ میں اس جلوس کی دیوانگی سے خوف زدہ تھا، جس کے بعد مسلمانوں کا قتل اور جائیداد کا نقصان ہوتا۔ یہ ایک ایسا جھٹکا ہوتا جس سے شاید یہ کمیونٹی کبھی ابر نہ پاتی ۔ آخر ملک کی تمام ریاستوں میں گجرات سب سے زیادہ بھگوا تھا۔ یہ المیہ ہی ہے کہ گجرات ہی عدم تشدد کے سب سے بڑے پیروکار کی جائے پیدائش ہے۔ لیکن یہ وہپ، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بی جے پی کا گڑھ بھی ہے۔
1972 میں امریکہ میں اپنی پڑھائی ختم کرنے کے بعد میں بڑودا یونیورسٹی سے جڑا تھا۔ میرے دل میں اس شہر کی پہلی چھاپ فرقہ وارانہ طور سے منقسم ایک شہر کی تھی۔ ہندومسلمانوں کے درمیان ہوئی کوئی چھوٹی سی لڑائی بھی شہر کا ماحول بگاڑنے میں معاون ہوتی تھی۔ پولیس بھی قانون اور نظام بنائے رکھنے میں جانبدار تھی۔ انہی وجہوں سے میں ایکٹوزم اور مخالفت کے راستے پر اترا۔ اس کا نتیجہ ہوا کہ میں چند ایک بار جیل گیا اور بھیڑ نے میرے گھر پر حملے کئے۔ یہ سب میری بیوی کے لئے بہت زیادہ تھا، جو کچھ دنوں بعد ڈپریشن میں چلی گئیں۔ 2001 میں ان کی موت ہو گئی۔
میرا اس شہر یا پورے گجرات ہی میں کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔ میرا اکلوتا بیٹا دور امریکہ میں تھا۔ میری 23 سال کی بیٹی میرے ساتھ تھی، جس کی شادی ایک گجراتی ہندو سے ہونے والی تھی۔میں اپنے اصولوں کی وجہ سے ایک اکثریتی علاقے میں رہنا پسند کرتا ہوں۔ میرا اب بھی ماننا ہے کہ اصلی قومی یکجہتی تبھی آ سکتی ہے، جب تمام ذاتوں اور عقیدوں کے لوگ ایک دوسرے کے آس پاس رہیںگے۔ لیکنبدقسمتی سے ہمارے ملک میں لوگ اپنی ذات اور مذہب سے جڑے علاقوں میں ہی رہتے ہیں۔
میں یہ قبول کرنا چاہوںگا کہ نیلسن منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ میرے ہیرو رہے ہیں۔ ان دونوں نے ہی اپنے اس یقین کہ گورے اور کالے ساتھ رہ سکتے ہیں، کھا سکتے ہیں اور کام کر سکتے ہیں، کی بھاری قیمت چکائی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھنے کی حالت میں بہت آسانی سے بھیڑ کا نشانہ بن سکتا تھا۔
اس دن بھی یہی ہوا، جب گودھرا میں ٹرین جلائی گئی۔ میرے پڑوسیوں نے مجھ سے منھ پھیر لیا۔ دیوانوں کی بھیڑ گیس کا سلینڈر لےکر آئی، اس کو جلایا اور 15 منٹ کے اندر خوبصورت یادوں سے بھرا میرا گھر ملبے میں تبدیل ہو گیا۔ بس راحت کی بات یہی تھی کہ ہمیں مارنے کی کوششوں کے باوجود میں اور میری بیٹی زندہ بچ گئے۔ میری دنیا ختم ہو چکی تھی۔
نریندر مودی،گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اور ان کے ستارے اس وقت بلند تھے۔ 2002 کا فرقہ وارانہ تشدد ان کے ہندوستان کے اقتدار کی مہم کا پہلا قدم تھا۔ میری سب سے بڑی فکر تھی کہ کیا گجرات میں مہاتما گاندھی کے زمانے کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ کیا گجرات کے ہندو اس ریاست سے نکلے سب سے عظیم شخص کو یوں ہی چھوڑ دیںگے؟
قسمت سے، میرے ڈر غلط تھے۔ اسی رات میرے ایک سینئر شریک کار، جو کچھ عرصہ میں وائس چانسلر بننے والے تھے، آگے بڑھکر میری بیٹی کو ہمارے جلے ہوئے گھر لےکر گئے، جس سے ملبہ میں پڑے پاسپورٹ وغیرہ جیسے کچھ ضروری سامان مل جائیں۔ وہ آدھی رات کو ایک بےحد کشیدگی والے علاقے میں گئے۔ یہ بہت جوکھم بھرا تھا۔ پھر بھی وہ میری زندگی کے اس مشکل دور میں میری مدد کرنا چاہتے تھے۔
اگلی صبح ٹی وی اینکر برکھادت کو اس جگہ کا پتا لگا، جہاں ہم نے پناہ لے رکھی تھی اور وہ میری بیٹی اور میرا انٹرویو لینے پہنچیں۔ اس انٹرویو کے دوران میری بیٹی کو آخرکار اتنے کم وقت میں اپنی ماں اور گھر کھونے کی خوفناکی کا احساس ہوا اور وہ رونے لگی۔ مجھے تعجب ہوا کہ اس دوران برکھا خود رونے لگیں اور انٹرویو کی رکارڈنگ بند کرنی پڑی۔
ایک مسلم لڑکی کی حالت پر ایک قومی سطح پر جانےپہچانے چہرے کا یوں رونا اس بات کا ثبوت تھا کہ مودی اور ان کے بھگوا حامیوں کی پہنچ سے پرے بھی ایک ہندوستان ہے۔ گجرات کی کشیدگی سے بچنے کے لئے ہم ممبئی چلے گئے۔ اس کی اگلی ہی شام مجھے سماجی کارکنان سے بھرے ایک ہال میں بولنے کے لئے بلایا گیا۔ میں ان میں سے زیادہ تر کو جانتا تک نہیں تھا۔ کہنے کی بات نہیں ہے کہ ان سبھی کا رویہ میرے لیے ہمدردانہ تھا۔
ہم اس کے بعد اپنے بیٹے کے پاس امریکہ چلے گئے۔ وہاں سب سے پہلے میرے ایک آئی اے ایس افسر دوست کی بیوہ بیوی اپنی بیٹی کے ساتھ ہم سے ملنے آئیں۔ وہ میرے بیٹے کے گھر سے تقریباً 500 کلومیٹر دور رہتی تھیں۔ ان کو ہماری فکر تھی۔ اتفاق سے وہ بہار کے بھومی ہار تھے۔ اس کے بعد کے دنوں تک کئی ہندوستانی امریکی ہمارا حال چال لینے کو کال کیا کرتے تھے۔ ان کال کرنے والوں میں راجموہن گاندھی، سیم پترودا، نوبل انعام یافتہ وینکٹ رمن ‘ وینکی ‘ رام کرشنن کے والد پروفیسر رام کرشنن شامل تھے۔ انہوں نے بعد میں مجھے ہوائی جہاز کے رٹرن ٹکٹ بھیجے، جس سے میں تقریباً 3000 کلومیٹر دور ان کے گھر جا کر ان کے ساتھ کچھ وقت گزرا سکوں۔
وڑودرا لوٹنے کے بعد، ایک سربراہ گاندھیائی جینابھائی درزی یونیورسٹی کے نئے فلیٹ پر مجھ سے ملنے آئے۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور بری طرح سبکنے لگے۔ میں ان باتوں کا ذکر صرف یہ دکھانے کے لئے کر رہا ہوں کہ ملک اور باہر کے کچھ متاثر کن ہندوستانیوں نے بھگوا طاقت کے میرا گھر جلا دینے کے کار نامہ کو کس طرح دیکھا۔
ان سب باتوں کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا۔ میرا گاندھی اور ہندو دوستوں میں بھروسا پھر سے بنا۔ مجھے میرے دکھ اور نقصان سے اوپر اٹھکر دیکھنا تھا۔ مجھے میرے اپنی کمیونٹی اور گجرات کے ہندوؤں سے جڑنے کے لئے ایک راستہ بنانا تھا۔ ہم گاندھی سے لےکر نہرو، ٹیگور سے لےکر سبھاش چندر بوس، گوپال کرشن گوکھلے سے لےکر سی راجگوپالاچاری جیسے ہمارے ہیرو کے خوابوں کو نفرت اور کٹرپن کے سامنے مٹی میں نہیں ملنے دے سکتے۔
کمیونٹی نے جس مصیبت کا سامنا کیا تھا، وہ بہت بڑی تھی۔ قریب 2000 مسلمان مارے گئے تھے۔ کئی عورتوں کے ساتھ ریپ ہوا ۔ ڈھیروں لڑکےلڑکیاں ان کی ہی آنکھوں کے سامنے یتیم ہو گئے۔ جائیداد کا نقصان ہزاروں کروڑ میں تھا۔ لیکن سب سے بڑی مشکل تھی کہ ہزاروں لوگوں کو اپنا بسابسایا گھر چھوڑ کر کہیں اور جانا پڑا تھا۔ اس کا نتیجہ ہوا نوکریوں، تجارت اور بچّوں کی پڑھائی کا نقصان۔ پولیس ان نوجوانوں کو پریشان کرتی، جو خود فسادات کے متاثرین تھے۔ حالت اور خراب تب ہوئی جب ہم میں سے کچھ سماجی کارکن اپنا فائدہ دیکھتے ہوئے بی جے پی کی طرف پہنچ گئے۔ یہ ایک چمتکار ہی ہے کہ ہم اس خراب دور سے نکل آئے۔
اس کا سہرا ان ہندوؤں کو جاتا ہے جو مسلموں کی مدد کے لئے آگے آئے۔ گاندھیائی، سماجوادی اور انسانی حقوق کےکارکن فعال ہوئے۔ ان تمام بھلے لوگوں کا نام لکھنا ممکن نہیں ہے، لیکن پھر بھی میں کہنا چاہوںگا کہ وڑودرا میں کریٹ بھٹ اور جگدیش شاہ، مکل سنہا، اندو جانی، پرکاش شاہ اور گگن سیٹھی نے بہت بامعنی کام کیا ہے۔ لڑکےلڑکیاں پڑھائی نہ چھوڑیں اس لئے وظیفہ دینا شروع کیا گیا۔ پناہ گزینوں کو بسانے کے لئے اسلامک ریلیفکمیٹی نے کئی رہائشی کالونیاں بنائیں۔
کلول کی ایک کمیٹی نے پاس کے علاقے ڈیرول کے متاثرین کی مدد کی۔ اس علاقے میں پورے گجرات میں سب سے زیادہ قتل ہوئے تھے اور جہاں تک میری جانکاری ہے، اس جرم کے لئے کبھی کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا۔ قسمت سے گگن سیٹھی نے وہاں ایک اسکول کھولا ہے۔ کلول کے طالب علموں میں تین یتیم لڑکیاں بھی تھیں، جنہوں نے اسکول اور بورڈ کے امتحانات میں بہت اچھامظاہرہ کیا۔ وڑودرا کی زدنی علما ٹرسٹ نے ان کی پڑھائی کی ذمہ داری اٹھائی۔ آج پاس کے ہی ایک فارم پلانٹ میں یہ کیمسٹ اور مائکروبیالاجسٹ کے بطور کام کر رہی ہیں۔
16 سال بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ 2002 کا اس کمیونٹی کو پوری طرح ختم کر دینے کا ڈر غلط ثابت ہوا۔ اگر تعلیم کا معیار، پیسہ کمانے اور عورتوں کی ترقی کی بات کریں تو مسلم پہلے سے کہیں بہتر حالت میں ہیں۔
ہرسال مئی-جون میں اخبار ان مسلمان لڑکےلڑکیوں کی تصویروں سے بھرے ہوتے ہیں، جنہوں نے بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانات میں بہتر کیا۔ اپنے بیچ میں اوّل آنے والی مسلم لڑکیوں کی تصویر دیکھنا بالکل عام ہو چکا ہے۔ اس سال ایک سیّد لڑکی نے بورڈ امتحانات میں پورے گجرات میں ٹاپ کیا ہے۔ ایک اور لڑکی نے 4 کوششوں کے بعد نیٹ میڈیکل امتحان پاس کیا۔ اس سے پہلے نہ اس نے ہار مانی، نہ اس کے ماں باپ نے۔ وڑودرا میں تائیواڈا نام کا ایک چھوٹاسا علاقہ ہے، جہاں سب سے زیادہ چارٹیڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔
پھر بھی ہم بورڈ امتحانات میں فیل ہونے کی بڑھی شرح کے بارے میں پریشان ہیں۔ جہاں متوسط اور اعلٰی طبقہ کے بچّے تو پڑھائی میں اچھا کر رہے ہیں، ادنیٰ طبقہ کے مسلموں پر بوجھ زیادہ ہے۔ گجرات میں تعلیمی شعبے میں پیسے کا بول بالا ہے اور غریب اس سے تال میل نہیں بٹھا سکتے۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کمیونٹی کو خود بھی اس سے نمٹنے میں مشکلیں آ رہی ہیں۔ انشاء اللہ، اس کا کوئی حل جلدی نکلےگا۔ ہم نے کچھ غریب علاقوں میں ‘ ریڈنگ رومس ‘ شروع کئے ہیں، جس سے لڑکے لڑکیوں کو یہاں پڑھنے کے لئے راغب کیا جا سکے کیونکہ چھوٹےچھوٹے گھروں کی کم روشنی اور باہر کے شور میں پڑھ پانا مشکل ہوتا ہے۔
2002 کا ایک مثبت اثر یہ بھی رہا کہ اب شرفاکمیونٹی کو آگے لانے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ وڑودرا میں اتوار کی صبح لگنے والے میڈیکل کیمپ عام بات ہو گئے ہیں۔ سب سے اچھے میڈیکل ماہر یہاں مفت علاج اور دوائیاں دیتے ہیں۔ ایسا دوسرےشہروں میں بھی ہونا چاہیے۔
آخر میں اگر سیاست کی بات کریں، تو مسلم شاید وجود میں ہی نہیں ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے گجرات نے کسی مسلم کو چنکر پارلیامنٹ میں نہیں بھیجا ہے۔ ہماری آبادی 10 فیصد کے اندر ہے، پھر بھی اسمبلی میں 180 میں صرف 3 مسلم ہیں۔ مودی مسلموں کو سیاست سے غائب کرنے میں کامیاب رہے۔
لیکن کیا اس سے واقعی فرق پڑتا ہے؟ میں اس کی توقع اپنی طاقت ، بہتر تعلیم، پیسے کمانے اور خواتین کی ترقی میں لگانے پر دھیان دوںگا۔ آخر یہی وہ طریقہ تھا جو امریکہ میں یہودیوں نے اپنایا تھا۔
Categories: فکر و نظر