کیا وجہ ہے کہ ایک خاص حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے کے لئے روی شنکر بابا سے سیاست داں بن جاتے ہیں اور جب ان کی پسندیدہ سرکار اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے ، تو وہ پھر سے “سنیاسی” بن جاتے ہیں اور سیاست سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں ؟
بدھ کی صبح جب میں اخبارات کے صفحات اُلٹ رہا تھا، تو میری نظراچانک”آرٹ آف لیونگ”کےبانی شری شری روی شنکر اور اتر پردیش کے وزیر علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ایک تصویرپر پڑی۔ روزنامہ دینک جاگرن میں یہ تصویر ایک رپورٹ کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔روی شنکراور یوگی آدتیہ ناتھ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور دونوں کے چہرے پر مسکان تھی۔ مگر اس مُسکراتی تصویر کے اوپرجو موٹی سرخی لگائی گئی تھی، وہ مسلمانوں کو رلانے کے لئے کافی تھی:”کچھ دُریودھن تو ایک انچ بھی زمین نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں: شری شری”۔
یہ سرخی روی شنکر کے بنارس والےبیان سے لی گئی ، جوانہوں نے منگل کودیاتھا۔بنارس میں سادھواورسنتوں کی ایک مجلس سےخطاب کر تے ہوئے، انہوں نے عدالت سے باہر بابری مسجد اوررام مندر تنازعہ حل کرنے کی بات پھر دوہرائی۔ ان کی دلیل تھی کہ عدالت میں کسی نہ کسی فریق کی ہار ہونی طےہے ، جو وہ یہ نہیں چاہتے۔ انہوں نے بغیر کسی دلیل اورثبوت کے یہ بھی دعویٰ کیا کہ زیادہ تر لوگ ان کےثالثی کو ماننے لگے ہیں، بس کچھ دُریودھن اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
جاگرن اخبار نے روی شنکر نےکی تقریر کا اختصار ان الفاظ میں کیا ہےکہ:رام مندر سے سو کڑورلوگوں کا عقیدہ جڑا ہوا ہے۔ اس کا احترام ہونا ہی چاہئے۔ اس سے زیادہ قیمتی زمین کا ٹکڑا نہیں ہو سکتا۔ اس بات سے فریقین کے زیادہ تر لوگ راضی ہیں، لیکن، کچھ دُریودھن تو ہمیشہ ہوتے ہی رہتے ہیں جو ایک انچ زمین بھی نہیں دوں جیسی باتیں کر رہے ہیں۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو ایسے لوگ مہابھارت کے دُریودھن کی ہی باتیں دوہرا رہے ہیں۔ اس سے تو نہ دھرم مانےگا ، نہ جنتا اور نہ ہی اِیشور۔( دینک جاگرن، راشٹریہ سنسکرن،28 فروری ، ص 4)
دیگر میڈیا نے بھی روی شنکر کےذریعہ دُریودھن جیسے قابل اعتراض لفظ استعمال کرنے کی رپورٹ یاویڈیو کوشائع کیا۔ “اے بی پی نیوز “کی رپورٹ کے مطابق، روی شکر نے کہا کہ “کچھ دُریودھن نہیں چاہتے کہ سوہارد (ہم آہنگی) بنے”۔” ہندوستان” ہندی ویب سائٹ کی خبر اورویڈیو سے بھی صاف ظاہر ہےکہ انہوں نے اپنے حریف کو دُریودھن کہہ کرلتاڑا۔
دُریودھن کون تھا؟ اور دُریودھن لفظ کااستعمال کیوں قابل اعتراض ہے؟ دُریودھن مہابھارت (قدیم بھارت)کے ایک منظوم داستان کا ایک متنازعہ کردار ہے۔ مہابھارت کی کہانی کے مطابق، قدیم زمانہ میں دُریودھن ہستناپور ریاست کا راجہ دھرت راشٹر کا بڑا بیٹا تھا ، جس کی اپنے چچیرے بھائیوں (پانڈوں) سے راج پاٹ کو لے کر اختلاف تھا اور ان کے مابین بعد میں چل کر ایک انتہائی خونی جنگ ہوئی۔ برہمنی تشریحات نےدُریودھن کےکردار کو کافی منفی دکھایا ہے ، جو اپنے بھائیوں کی حق تلفی کرتا ہے، ان کے ساتھ طرح طرح کی سازش کرتا ہے اور پانڈوں کی بیوی دروپدی کی عزت کو بھی تار تار کرنے کی جرات کرتا ہے ۔ جنگ روکنے کے مقصد سے ایک بار کرشن دُریودھن کے پاس پانڈو کا سفیر بن کر جاتے ہیں اور اس سے گزارش کرتے ہیں کہ امن اور صلح کی خاطر وہ سارا راج پاٹ اپنے پاس رکھ لے اور پانڈو کو صرف پانچ گاؤں دے دے تاکہ وہ بھی اپنی زندگی گزر بسر کر لے، مگر دُریودھن کرشن کی اس تجویز کو ٹھکرا دیتا ہے اور پانڈو کو سوئی کی نوک برابر زمین دینے سے انکار کر دیتا ہے۔
دُریودھن کی مثال دے کر روی شنکر اپنے آپ کو کرشن اور مسلمانوں کو امن اور صلح کی راہ میں رکاوٹ ہونے کا الزام لگا رہے تھے۔ اس میں ان کی دھمکی بھی مضمر ہے کہ اگر مہابھارت یعنی جنگ (کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ) ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار مسلمان ہوں گے۔اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جب وہ اپنے حریفوں کو دُریودھن کہہ رہے تھے ، تو انہوں نےمسلمانوں کا نام نہیں لیا۔ مگر کون اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ ان کا اشارہ عام مسلمان اور ان سے وابستہ ملی تنظیموں سے تھا ۔
یہ بھی پڑھیں: پرسنل لاء بورڈ کی معتبریت کو’سلمان ندوی کا چیلنج‘
اس کے علاوہ مسلمانوں میں اس بات کی ناراضگی ہے کہ روی شنکر نے ابھی تک مسلم ملت کی بڑی تنظیم کو اس نام نہاد مکالمہ سے دور رکھا ہے اور اس سلسلہ میں انہوں نے تو ایسے لوگوں سے ملاقات کی جو کسی بھی طرح سے مسلم ملت کے نمائندہ نہیں مانے جاتے ہیں۔ آر ایس ایس ، بھاجپا اور دیگر ہندوتوا تنظیمیں بار بار بین المذاہب مکالمہ کی بات تو کرتی ہے، مگر وہ ہمیشہ سے ایسے عناصر کو گفتگو کے لئے مدعو کرتی ہیں، جن کی پکڑ مسلم معاشرہ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ کچھ اسی طرح کا منظر گزشتہ سالوں میں دیکھنے کو ملا ہے جب بر سر اقتدار مودی حکومت نے پوری طرح سے بڑی مسلم تنظیم کو نظر انداز کیا ہے اور اس کی جگہ ایسے عناصر کو مسلم سماج کا نمائندہ تسلیم کیا ہے جن کو مسلم معاشرہ میں لوگ جانتے تک نہیں ہیں۔
غور طلب ہے کہ روی شنکر مشرقی اتر پردیش میں سہ روزہ “روحانی” سفر پر ہیں، جس کا آغاز 26 فروری کو سارناتھ اور بنارس سے ہوا۔ اس ٹرین میں روی شنکر کے علاوہ ان کے سینکڑوں بھکت بھی شامل ہیں۔ یہ ٹرین مشرقی اتر پردیش کے کئی علاقوں سے ہوتے ہوئے لکھنؤ میں اختتام پذیر ہوئی۔ اسی دوران منگل کی شام روی شنکر گورکھپور پہنچے اور وزیر اعلیٰ یوگی سے ملاقات کی ان کی بھاجپا حکومت کی تعریف کرنے سے گریز نہیں کی۔
یہی وجہ ہے کہ سلمان ندوی اور ان کے بعض حمایتوں کو چھوڑ کر ، ایک بڑی تعداد میں مسلمان اور دیگر سیکولر جماعت سے وابستہ لوگ روی شنکر کی نیت پر سوال اُٹھا رہے ہیں۔ ان کو لوگ ہندو سماج کا نہیں بلکہ بھاجپا سرکار کا نمائندہ مان رہے ہیں۔ ان لوگوں نے واجب سوال اٹھایا ہے کہ یہ کون سی ہندومسلم ہم آہنگی پر مبنی ثالثی ہے، جس میں امن کا سفیر ایک فریق کو لعن طعن کر رہا ہے اور بھاجپا کے لئے بیٹنگ کر رہا ہے۔ گورکھپورضمنی پارلیمانی انتخابات کے لئےمہم جاری ہے ، اس بیچ روی شنکر کا اپنے حامیوں کے ساتھ اس علاقہ کا دورہ کرنا اور پھر بر سر اقتدار بھاجپا حکومت کی تعریف کرنا، کس طرح سے غیر جانبدارانہ ثالثی ہے؟
روی شنکر کا بھاجپا پریم کوئی نیا نہیں ہے۔ آپ سب کو یاد ہوگا کہ منموہن سنگھ کی قیادت والی گزشتہ حکومت کے خلاف بدعنوانی کا جو ماحول بنا تھا ، اس میں روی شنکر نے بھی اپنا اہم رو ل اد ا کیا اور کالا دھن کے خلاف آواز بلند کی ۔ مگر جب موجودہ سرکار کے کالادھن معاملے میں روی شنکر نے کوئی مذمتی بیان نہیں جاری کیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایک خاص حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے کے لئے روی شنکر بابا سے سیاست داں بن جاتے ہیں اور جب ان کی پسندیدہ سرکار اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے ، تو وہ پھر سے “سنیاسی” بن جاتے ہیں اور سیاست سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں ؟
اگر روی شنکر بابری مسجد کا تنازعہ حل کرنے کے لئے واقعی سنجیدہ ہیں، تو کیا وہ اس بات کی ضمانت دیں گے کہ حکومت اس کے بعد کسی بھی مذہبی مقام کی مکمل تحفظ کی ذمہ داری لےگی؟ بابری مسجد اور رام مندر تنازعہ کی زد میں آنے والے سارے لوگوں کو انصاف ملےگا؟ کیا نفرت پھیلانے والے سارے لوگوں کو سزا ملےگی؟ کیا سرکار شدت پسند تنظیم اور اس سےوابستہ عناصر کو قانون شکنی کے جرم میں گرفتار کرےگی؟ کیا مسلمانوں کے فلاح اور بہبود کے مسائل جیسے ریزرویشن کو بھی سرکار کورٹ میں چیلنج نہیں کرے گی اور مل بیٹھ کر اس کی راہ ہموار کرےگی؟
Categories: فکر و نظر