جاوید عابدی دونوں پاؤں سے معذور ہونے کے باوجود تمام عمر معذوروں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔انھوں نے پارلیامنٹ سےمعذوروں کی فلاح وبہبود سے متعلق ایکٹ پاس کرانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
نئی دہلی: معذوروں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والے مشہور سماجی کارکن جاوید عابدی کاکل مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیا،وہ 53 برس کے تھے ۔عابدی کا شمار ان چند لوگوں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے معذوروں کے حقوق کی لڑائی کے لیے ساری زندگی وقف کر دی۔دہلی اردو اکیڈمی کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر اشتیاق عابدی مرحوم کے بیٹے جاوید عابدی دونوں پاؤں سے معذور ہونے کے باوجود تمام عمر معذوروں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔انھوں نے پارلیامنٹ سےمعذوروں کی فلاح وبہبود سے متعلق ایکٹ پاس کرانے میں اہم کردار ادا کیا ۔وہ سونیا گاندھی کی قیادت والے راجیوگاندھی فاونڈیشن سے بھی وابستہ رہے۔ عابدی نے یو ایس کی Wright State Universityسے تعلیم حاصل کی تھی۔جبکہ ابتدائی تعلیم علی گڑھ یونیورسٹی سےمکمل کی۔عابدی The National Center for Promotion of Employment for Disabledکے ڈائرکٹر بھی تھے۔ Disabled People’s International کے چیئر پرسن بھی رہے۔ وہ Disabled Rights Group کے کنوینر بھی تھے۔ ہندوستان میں عابدی نے سب کو ایک آزاد ماحول مہیا کرانے کی کوشش کی،خاص طور پر پی ڈبلیو ڈی کے کارکن کو۔انھوں نے پی ڈبلیو ڈی کے مسائل کو کئی قومی اور بین الاقوامی کانفرنس میں بھی اٹھایا۔
عابدی مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کے ساتھ ایسے ایشوز پر بھی مشورہ کرتے رہے کہ کس طرح پی ڈبلیو ڈی کارکن کے لیے بہتر اور سازگار ماحول مہیا کرایا جائے۔پی ڈبلیو ڈی سے جڑے ایشوزاور ہر طرح کے سماجی سروکار میں عابدی نے حصہ لیا۔ ہندوستان میں معذور لوگوں کے لیے بہتر روزگار اور انھیں ان کے حقوق دلانے بلکہ آئین میں درج حقوق جو صرف کاغذوں پر ہی رہ جاتے ہیں انھیں حقیقت بنانے میں بھی عابدی کا اہم رول رہا ہے۔
عابدی کے انتقال کی خبر کے بعد انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اہم لوگوں کے بیان سامنے آئے ہیں۔ National Association of the Deaf, India نے اس دن کو “Sorrow Day”سے موسوم کیا۔سبھاش چندر ویششٹھ جو کہ ڈس ابلٹی رائٹ اکٹوسٹ ،وکیل اور نیشنل بلڈنگ کوڈ کے ممبر بھی ہیں ، ان کے انتقال کی خبر کو ” شاکنگ” بتاتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
ایئر پورٹ پر پی ڈبلیو ڈی مسافروں کے حقوق کی خلاف ورزی کے متعلق دی وائر سے ہوئی بات چیت میں عابدی نے کہا تھاکہ”میں اس لیے تنقید نہیں کرتا کہ مجھے تنقید کرنا ہے آخر ہمیں سسٹم کے اندر رہ کر ہی کام کرنا ہےاور چیزوں کو بہتر بنانا ہے۔ “بات جب اسمارٹ سٹی مشن کی ہو تب بھی عابدی ہی وہ شخص تھے جنھوں نے حکومت کی پالیسیوں کے گلوبل پریکٹس کے تحت کام نہ کرنے کے ایشو کو اٹھایااورسرکاری ایجنسیز کی توجہ اس طرف مرکوز کرائی کہ وہ وزیر اعظم کی رسائی کےوعدوں کو اپنی ویب سائٹ پربحال نہ کر کے کس قدر ان کا مذاق بنا رہی ہیں۔ان کی خدمات اور سماجی سروکار کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا جانا ایک ایسی آواز کا گم جانا ہے جو معذور وں اور کمزور وں کی نمائندہ آواز تھی۔
Categories: حقوق انسانی