سہراب الدین،کوثر بی اور تلسی رام پرجاپتی انکاؤنٹر معاملے کی جانچ سے اپریل 2014 میں ہٹا دئے گئے ناگالینڈ کیڈر کے آئی پی ایس افسر سندیپ تامگاڈے کے خلاف جانچ بٹھا دی گئی ہے۔
سہراب الدین،کوثر بی، تلسی رام پرجاپتی قتل معاملے کے جانچ آفیسر کو پچھلے تین سالوں سے اپنی ہی ایجنسی سی بی آئی کے ہاتھوں کئی مجرمانہ معاملوں میں تفتیش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایسے ثبوت سامنے آئے ہیں، جن سے لگتا ہے کہ سی بی آئی اپنے جانچ افسروں کے خلاف جھوٹے ثبوت گڑھکر ان کو پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہاں جس افسر کی بات کی جا رہی ہے، ان کا نام سندیپ تامگاڈے ہے۔
ناگالینڈ کیڈر کے 2001 بیچ کے آئی پی ایس افسر تامگاڈے کا تعلق ایس سی سے ہے اور وہ بنیادی طور پر مہاراشٹر کے ناگ پور کے رہنے والے ہیں۔ وہ اکتوبر 2011 سے اکتوبر 2015 تک سی بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر تھے۔دو آزاد گواہوں نے ناگ پور کی ایک عدالت اور مہاراشٹر پولیس کے سامنے بیان دیا ہے کہ تامگاڈے کو ایک بد عنوانی سے متعلق معاملے میں پھنسانے کے لئے سی بی آئی ان پر جھوٹی گواہی دینے کا دباؤ بنا رہی ہے۔
2011 سے 2015 تک تامگاڈے نے سی بی آئی میں مختلف عہدوں پر کام کیا، جس میں سب سے اہم ذمہ داری سی بی آئی کی ممبئی برانچ کی اسپیشل کرائم برانچ کے ایس پی کی تھی۔نومبر، 2011 سے اپریل 2014 کے درمیان انہوں نے سہراب الدین، ان کی بیوی کوثر بی اور خصوصی گواہ تلسی رام پرجاپتی کے قتل سے جڑے معاملے کی تفتیش کی۔ یہ کسی اور کا نہیں، سی بی آئی کا کہنا ہے کہ قتل سے پہلے کوثر بی کے ساتھ ریپ کیا گیا اور ان کے جسم کو جلاکر نپٹا دیا گیا۔
عشرت جہاں کے قتل کی تفتیش بھی تامگاڈے کی نگرانی میں ہوئی اور ان کی ہی نگرانی میں ایجنسی کے ذریعے اس معاملے میں دو چارج شیٹ داخل کی گئی، جس میں گجرات کے اس وقت کے وزیراعلیٰ اور تب کے وزیر مملکت برائے امور داخلہ امت شاہ کے قریبی مانے جانے والے گجرات کے کئی سینئر وزرااور پولیس افسروں کو ملزم بنایا گیا تھا۔
آج مودی وزیر اعظم ہیں اور شاہ بی جے پی کے صدر اور بلاشبہ مودی کے بعد وہ ملک کے دوسرے سب سے طاقت ور شخص ہیں۔ تامگاڈے نے شاہ سے ان قتل معاملوں میں مبینہ کردار کو لےکر دو بار پوچھ تاچھ کی تھی۔ایک بار، جنوری، 2012 میں تلسی پرجاپتی قتل معاملے کو لےکر اور دوسری بار اکتوبر، 2013 میں عشرت جہاں کے قتل میں امت شاہ کے مبینہ کردار کی تفتیش کرنے کے لئے۔
پرجاپتی مقدمہ میں چارج شیٹ تامگاڈے کے ذریعے ہی داخل کی گئی تھی، جس میں شاہ کو خصوصی ملزم اور تلسی پرجاپتی کا کام تمام کرنے کی سازش کرنے والے ماسٹرمائنڈ کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔انہوں نے سہراب الدین / کوثر بی معاملے میں ایڈیشنل چارج شیٹ بھی داخل کی تھی، جس میں ان دو قتل معاملوں میں شاہ کے کردار کے بارے میں اور تفصیل سے بتایا گیا تھا۔
حالانکہ، عشرت جہاں معاملے میں پختہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے شاہ کے نام کو ملزم کے طور پر نہیں لیا گیا تھا، لیکن ان کے قریبی افسروں پر اغواء اور قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔شاہ سمیت دوسرے خاص ملزمین کی پوچھ تاچھ کرنے اور ان کے اور دوسروں کے خلاف چارج شیٹ دائر کرنے کے علاوہ، تامگاڈے نے چل رہی تفتیش کو لےکر سپریم کورٹ میں کئی اسٹیٹس رپورٹ جمع کی تھی۔
جانچوں کی نگرانی کر رہی بنچکے کسی بھی جج نے کبھی بھی تامگاڈے کے کام کاج کو لےکر کوئی عدم اطمینان ظاہر نہیں کیا تھا۔پھر بھی اپریل، 2014 میں یعنی مرکز میں نریندر مودی حکومت کےحلف لینے سے کچھ ہی ہفتہ پہلے سی بی آئی نے تامگاڈے کو گجرات قتل معاملوں کی تفتیش سے الگ کر دیا۔ اس وقت تک سارے انتخابی سروے بی جے پی کی بھاری جیت کی پیشین گوئی کر چکے تھے۔
تامگاڈے کو جب ان معاملوں سے ہٹایا گیا، اس وقت رنجیت سنہا سی بی آئی کے ڈائریکٹر تھے۔ غور طلب ہے کہ سی بی آئی کی کئی اہم جانچوں کو کمزور کرنے کے الزام میں سنہا پر فی الحال خود جانچچل رہی ہے۔ان معاملوں سے تامگاڈے کو ہٹائے جانے کے چھے مہینے کے بعد 30 دسمبر، 2014 کو سی بی آئی کے خصوصی جج ایم بی گوسوامی نے امت شاہ کو بری کر دیا۔جولائی، 2015 میں تامگاڈے کو دی گئی حفاظت ہٹا لی گئی۔ اکتوبر، 2015 میں ان کو پھر سے اپنے ہوم کیڈر ناگالینڈ بھیج دیا گیا۔
تامگاڈے کو ان کے ہوم کیڈر میں بھیجنے کے بعد سی بی آئی نے ان کے خلاف دو معاملوں میں جانچ بٹھا دی۔ یہ معاملے تب کے ہیں، جب تامگاڈے سی بی آئی، ناگ پور کے اینٹی کرپشن ونگ کے ایس پی کے طور پر کام کر رہے تھے۔ان دونوں معاملوں میں سے کسی کا بھی تعلق گجرات پولیس انکاؤنٹرسے نہیں ہے۔ اسی ایک جانچکے معاملے میں اس بات کا قابل اعتماد ثبوت سامنے آیا ہے کہ سی بی آئی جھوٹے ثبوت گڑھکر تامگاڈے کو پھنسانے کی کوشش رہی ہے۔
یہ معاملہ سی بی آئی کے ناگ پور اکائی کے ذریعے سینٹرل بورڈ آف ورکرس ایجوکیشن (سی بی ڈبلیو ای) کے ایک افسر کو مبینہ طور پر 4 لاکھ روپے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا ہے۔سی بی ڈبلیو ای، مرکزی وزارت مزدورکے تحت کام کرنے والی ایک خود مختار باڈی ہے، جس کا صدر دفتر ناگ پور میں ہے۔
سی بی آئی، ناگ پور کے اینٹی کرپشن بیورو نے 2013 کے پہلے ہفتے میں اس معاملے میں ایک معاملہ درج کیا۔ اس وقت تامگاڈے اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) کے ایس پی کی ایڈیشنل ذمہ داری سنبھال رہے تھے۔ اس مقدمہ کی تفتیش تامگاڈے کی نگرانی میں کی گئی۔تفتیش پوری کرنے کے بعد انویسٹی گیشن آفیسر (آئی او) سے لےکر سپروائزری آفیسر اور لیگل آفیسر تک، سب نے ملزم پر مقدمہ چلانے کی سفارش کی۔ لیکن، بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سی بی آئی نے دلچسپ طریقے سے اپنا پہلو بدل دیا۔
ایجنسی نے ناگ پور کی ایک عدالت میں ایک کلوزر رپورٹ داخل کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اس کے پاس سی بی ڈبلیو ای افسر پر مقدمہ چلانے کے لئے کافی ثبوت نہیں ہیں۔اس نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے ایک شروعاتی جانچ بھی بٹھا دی کہ سی بی آئی کے نامعلوم افسروں نے سازش کرکے ایک جھوٹی شکایت کی بنیاد پر ملزم کو گرفتار کرنے کی منشا سے اس کو ایک جھوٹے معاملے میں پھنسایا۔
شروعاتی جانچ میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آخر یہ الزام کس نے لگایا تھا۔ یہ شروعاتی رپورٹ درج کرنے کے بعد ایجنسی نے تامگاڈے کے خلاف تفتیش شروع کر دی۔اصل مقدمہ میں شانتارام پاٹل اور سنجےسنہا نام کے دو شکایت گزار تھے۔ ان کی ہی شکایت پر سی بی آئی نے جال بچھاکر سی بی ڈبلیو ای افسر کو شکایت گزار سے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔
اکتوبر، 2015 میں سنہا نے ناگ پور کے ایک پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ سی بی آئی کے کچھ آفیسر ان پر تامگاڈے کو پھنسانے کے لئے جھوٹی گواہی دینے کا دباؤ بنا رہے ہیں۔پولیس کو اپنی شکایت میں انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔ ان کو پریشان اور ذلیل کیا گیا اور سادہ کاغذ پر دستخط کرنے کے لئے لئے ان کے ساتھ بار بار زور زبردستی کی گئی۔
آئی پی سی کی دفعات 323، 504 اور 506 کے تحت ایک ایف آئی آر درج کی گئی۔ ناگ پور پولیس نے ابھی تک اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔لیکن شکایت گزار کے مطابق ناگ پور میں اس ایف آئی آر کو دائر کرنے کے بعد بھی سی بی آئی افسر ان پر تامگاڈے کے خلاف اس بات کی جھوٹی گواہی دینے کا دباؤ بناتے رہے کہ رنگے ہاتھوں پکڑوانے کا معاملہ اصل میں سی بی ڈبلیو ای افسر کو غلط طریقے سے پھنسانے کے لئے تامگاڈے کے ذریعے رچی گئی سازش تھی۔
21 مارچ، 2016 کو دوسرے شکایت گزار شانتارام پاٹل نے ناگ پور کی ایک عدالت میں ایک حلف نامہ دائر کرکے یہ کہا کہ ان کو تامگاڈے کے خلاف جھوٹی گواہی دینے کے لئے سی بی آئی کی طرف سے دھمکی دی جا رہی ہے۔پاٹل نے یہ الزام بھی لگایا کہ سی بی آئی نے زبردستی کرکے ان سے سادہ کاغذ پر دستخط کروا لیا ہے۔ اس مضمون نگار کے پاس دونوں ایف آئی آر اور حلف نامہ کی کاپی ہے۔
سنہا اور پاٹل کے بیانات کے بعد بھی سی بی آئی اس معاملے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ 23 جون، 2017 کو سی بی آئی نے شروعاتی تفتیش کو باقاعدہ معاملے میں بدل دیا۔تامگاڈے کے خلاف ایسی دوسری تفتیش میں، سی بی آئی نے ان پر سپروائزری آفیسر کے طور پر اپنا کام نبھا پانے میں ناکام رہنے کا الزام لگایا ہے اور ان پر بڑا جرمانہ لگانے کی سفارش کی ہے۔
تامگاڈے پر الزام ہے کہ ایک چھاپے میں سی بی آئی کے ذریعے ضبط کئے گئے کچھ قیمتی سامان اس کے مال خانے سے غائب ہو گئے۔سی بی آئی تامگاڈے کے خلاف لگائے گئے الزامات کی حق میں کوئی ثبوت نہیں جٹا پائی ہے اور اس کی جگہ ایک ماتحت افسر پر اس نے مجرمانہ غبن کا الزام لگا دیا ہے۔پھر بھی سی بی آئی نے گجرات انکاؤنٹرمعاملے کے انویسٹی گیشن آفسر کے خلاف بڑے جرمانے کی سفارش کر دی ہے۔سی بی آئی کا کہنا ہے کہ سپروائزری آفیسر کے طور پر وہ اپنے کام کو لے کر کافی لاپروا تھے۔ بڑے جرمانے میں سروسسے ممکنہ برخاستگی بھی شامل ہے۔ یہ سفارش ناگالینڈ حکومت کے سامنے زیر سماعت ہے۔
تامگاڈے کے خلاف تفتیش بٹھانے کے علاوہ، سی بی آئی نے ان کی اے سی آر بھی بگاڑ دی ہے اور ان کو اوسط سے خراب ریٹنگ دی ہے۔ اس نے ایک آئی پی ایس افسر کے طور پر ان کے کیریئر پر تلوار لٹکا دی ہے۔ اس مضمون نگار نے اے سی آر اور متعلق رکارڈوں کو پڑھا ہے۔یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ تامگاڈے نے گجرات پولیس قتل معاملوں میں تفتیش سپریم کورٹ کے حکم سے کی تھی۔ انہوں نے تین سال تک بطور انویسٹی گیشن آفسر کام کیا۔
عام طور پر ایجنسی انویسٹی گیشن آفیسر کو سماعت سے جوڑکر رکھتی ہیں، کیونکہ وہ مقدمہ کی حقیقتوں سے اچھی طرح سے آگاہ رہتے ہیں اور ثبوتوں کو جٹانے اور ملزم پر کامیابی سے مقدمہ چلانے میں استغاثہ فریق کی مدد کر سکتے ہیں لیکن مئی، 2014 کے بعد سے سی بی آئی نے اصل مقدمہ میں تامگاڈے کی کوئی مدد نہیں لی ہے۔کورٹ نے ابھی تک امت شاہ سمیت 15 ملزمین کو یا تو بری کر دیا ہے یا ان کے خلاف معاملے کو واپس لے لیا ہے۔
استغاثہ فریق کے کم سے کم 28 گواہ اپنے بیان سے مکر گئے ہیں۔ کسی وقت ایک سے زیادہ قتل معاملوں، تاوان اور اغواکے الزامات سے گھرے لوگوں کو راحت دے دی گئی اور اس معاملے کے انویسٹی گیشن آفیسر کو ہی تفتیش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
(مضمون نگاردہلی حکومت کے ڈائیلاگ اینڈ ڈیولپمنٹ کمیشن کے صدر اور عام آدمی پارٹی کے لیڈر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر