وہ بغیر تنخواہ کے برسوں پوری پابندی سے مشاورت کے دفتر میں صبح سے شام تک روزانہ بیٹھتے تھے اور ہمہ وقت مضامین، بیانات اور خطوط لکھنے میں مصروف رہتے۔
4 مارچ کو سید شہاب الدین مرحوم کے انتقال کی پہلی برسی تھی۔ افسوس ہے کہ ہماری ملت نے صرف ایک سال کے اندر اپنے ایک عظیم محسن اور قائد کو بھلا دیا۔ پورے ملک میں دو تین چھوٹی چھوٹی تقریبات ضرور ہوئیں لیکن ان کے شایان شان کوئی کانفرنس منعقد نہیں ہوئی۔ دہلی میں ،جو تین دہائیوں سے زیادہ تک ان کی جولانیوں کا مرکز تھا، ایک چھوٹی سی تقریب جمناپار کے علاقہ شاستری پارک میں ہوئی جس میں اگرچہ مرحوم قائد کی تین صاحبزادیاں بشمول پروین امان اللہ موجود تھیں لیکن ملت کے عمائدین اور سید صاحب سے فائدہ اٹھانے والے غائب تھے۔ ایک اہم استثنا مفتی مکرم احمد صاحب امام شاہی مسجد فتحپوری تھے جنہوں نے اپنی متانت، سنجیدگی اور حکمت سے کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ راقم الحروف اور دہلی حج کمیٹی کے سابق صدر ڈاکٹر پرویز میاں بھی موجود تھے۔
سید شہاب الدین (2017-1935) تقریبا تین دہائیوں تک ملت اسلامیہ ہندکی قیادت کرتے رہے۔ ان کی معاملہ فہمی، وسیع معلومات اور خطابت کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ لکھنے پر بھی وہ پوری طرح قادر تھے، بلکہ ان تین دہائیوں میں ملت کے بہت سے میمورنڈم اور بیانات انھیں کے لکھے ہوئے تھے، یہاں تک کہ بعض لوگ انھیں ’’منشی ملت‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ یہ بالکل مبالغہ نہیں ہے کہ آزادی کے بعد سے ملت میں ان سے بڑا سیاسی قائد نہیں پیدا ہوا۔ مدراس کے اسماعیل صاحب، مسلم لیگ کے سلیمان سیٹھ اور بنات والا سے بھی ان کے قد بلند تھا۔
پٹنہ یونیورسٹی سے سن 1956میں فزکس میں ایم ایس سی کرنے کے بعد وہ اسی یونیورسٹی میں لکچرر متعین ہو گئے لیکن ان کی طبیعت کی جولانیاں زیادہ بڑے میدان کی متقاضی تھیں، اس لئے انہوں نے پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں شرکت کی اور کامیاب ہوئے لیکن ان کو اپائنٹ منٹ کا خط نہیں ملا کیونکہ کالج کے زمانے میں پنڈت نہرو کے خلاف ایک مظاہرے کی انہوں نے قیادت کی تھی جس کی وجہ سے ان کو انٹلی جنس کی فائلوں میں ’’کمیونسٹ‘‘ لکھ لیا گیا تھا۔ بعد میں پنڈت نہرو کی سفارش سے اس اعتراض کوہٹالیا گیا اور سید صاحب کی تقرری انڈین فارن سروس (IFS) میں ہوگئی جو پبلک سروس کی اعلی ترین کیٹگری ہے۔ وزرات خارجہ کا افسر بننے کے بعد سید شہاب الدین مختلف ملکوں میں سفارتی خدمات انجام دیتے ہوئے الجزائر اور
موریتانیا میں سفیر کے عہدے پر پہنچے اور دلی واپس آنے پر جوائنٹ سکریٹری وزرات خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے ۔
اس کے بعد اگلا قدم سکریٹری خارجہ کا عہدہ تھا جو وزرات خارجہ میں سب سے بڑا نوکر شاہی منصب ہے۔ جلد ہی ان کی طبیعت ایک اور بڑے کینوس کی طالب ہوئی اور انہوں نے اپنی سروس سے 1978میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لیا اور جلد ہی سیاست میں آگئے۔1994-1991کے درمیان راجیہ سبھا اور پھر لوک سبھا میں کشن گنج سے دو بار ممبر پارلیامنٹ منتخب ہوئے۔ انہوں نے پارلیامنٹ کے اندر اور باہر بڑی بے باکی سے ملکی اور ملی مسائل اٹھائے، جن میں فرقہ پرستی کے خلاف ان کی مسلسل جنگ، بابری مسئلہ، شاہ بانو اور ریزرویشن وغیرہ کے مسائل شامل ہیں۔ وہ ہر موضوع پر پوری تیاری سے بولتے اور لکھتے تھے۔ سابق وزیر داخلہ و سابق اسپیکر پارلیامنٹ شیوراج پاٹل نے سید صاحب کے انتقال کے بعد کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد ایک تعزیتی اجلاس میں کہا تھا :جب سید شہاب الدین ایوان میں بولتے تھے تودوسرے ممبران جو لابی وغیرہ میں ہوتے تھے، ان کی پر اثر تقریر سننے کے لئے بھاگ کر ایوان میں آجاتے تھے۔
مجھے تقریبا 15سال ان کی قربت ادر رفاقت حاصل رہی۔ اس عرصے میں،میں نے دیکھا کے وہ اوقات کے بہت پابند اور ہمہ وقت ملک و ملت کے بارے سوچتے یا کرتے یا لکھتے رہتے تھے۔ وہ بغیر تنخواہ کے برسوں پوری پابندی سے مشاورت کے دفتر میں صبح سے شام تک روزانہ بیٹھتے تھے اور ہمہ وقت مضامین، بیانات اور خطوط لکھنے میں مصروف رہتے۔ عموما وہ روزانہ 15-10خطوط مختلف قائدین اور وزراء وغیرہ کو لکھا کرتے جن میں ملک و ملت کے مسائل اٹھاتے۔ انہوں نے مسلم انڈیا نامی دستاویزی مجلہ بغیر کسی مدد گار کے تقریبا 23سال تک نکالا۔ اس دوران ان کی خواہش پر دو سال میں نے بھی یہ مجلہ شائع کیا۔میں متعدد بار سفر میں ان کے ساتھ رہا۔ میں نےدیکھا کہ وہ صبح سویرے اٹھ جاتے اور نماز پڑھ کر ایک پاکٹ سائز قرآن پاک سے تلاوت کرتے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ نسخہ ان کو شادی کے وقت سسرال سے ملا تھا۔
ایک خاص بات میں نے ان میں یہ دیکھی کہ وہ ملک اور ملت دونوں کے پورے وفادار تھے۔ وہ ہمیشہ لاء اینڈ آرڈر کی پاسداری کرتے اور ہم لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ انھوں نے مجھ سے خود کئی بار بتایا کہ بابری مسجد جن شدت پسندانہ خطوط پر چلی اس سے وہ راضی نہیں تھے۔ انھوں نے اعظم خان اورمرحوم جاوید حبیب جیسے لوگوں کا نام لے کر بتایا کہ ان لوگوں کی وجہ سے تحریک میں شدت پیدا ہوئی اور ملک بھر میں غلط پیغام گیا ۔ انھیں لوگوں کی وجہ سے 26 جنوری کو کالی پٹیاں باندھنے کا فیصلہ ہوا جس سے تحریک بدنام ہوئی۔ ظفریاب جیلانی ایڈوکیٹ کے بارے میں انھوں نے کئی بار مجھ سے افسوس کے ساتھ کہا کہ انھوں نے عدالت میں لکھ کر دےدیا ہے کہ ہم کو حکومت کی حاصل کردہ (66) ایکڑ وقف زمین سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ان کو تکلیف تھی کہ اب بابری مسجد سے متصل اس زمین سے ہمارا حق ختم ہو گیاہے تو اگر بابری مسجد کی زمین ہمیں مل بھی گئی تو ہم مسجد تک کیسے پہنچیں گے کیونکہ اس زمین سے ہوکر ہی ہم بابری مسجد تک پہنچ سکتے ہیں۔
سید شہاب الدین مرحوم کو کافی عرصے سے دمہ (استھما) کی شکایت تھی ۔ا ن کو سماعت میں بھی تکلیف تھی جس کی وجہ سے وہ مستقل آلہ سماعت لگائے رہتے تھے جو بہت عمدہ قسم کا نہیں تھا حالانکہ بحیثیت سابق ایم پی وہ اعلی ترین سہولتوں کے حقدار تھے لیکن انھوں نے جان کر ایک سستا آلہ ہی پسند کیا کیونکہ وہ ذاتی زندگی میں بہت کفایت شعار تھے اور سرکاری مال کی فضول خرچی کے بھی سخت خلاف۔ آخر ی وقت تک ان کا حافظہ چاق و چوبند تھا اور وہ برسوں قبل کی باتوں اور واقعات کویاد رکھتے تھے۔ اللہ پاک ان کی روح پراپنی رحمتیں نازل کریں اور ان کو جنت میں اعلی ترین مقامات میں جگہ دیں۔
Categories: فکر و نظر