کانگریس نے اس اسمبلی انتخاب میں اپنا 96 فیصد ووٹ بیس گنوا دیا۔5 سال میں 36فیصد ووٹ شیئر سے گرکر 1.4 فیصد پر پہنچ جانے پر کانگریس کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
تریپورہ اسمبلی انتخاب میں سب سے غیر متوقع بات یہ رہی کہ 2013 کے 36فیصد کے مقابلے کانگریس کا ووٹ شیئر اس بار گرکر 1.4فیصد پر پہنچ گیا ہے۔کانگریس کو چھوڑ دیں، تب بھی حالیہ دہائیوں میں کسی بھی سیاسی جماعت کے ووٹ بیس میں اس طرح کی گراوٹ نہیں دیکھی گئی ہے۔ووٹ بیس کبھی بھی اتنے ڈرامائی طریقے سے کم نہیں ہوتا بھلےہی پارٹی کتنی ہی بری طرح سے انتخاب کیوں نہ ہار جائے۔
بڑے ہار میں بھی ایک طےشدہ کم از کم ووٹرکی تعداد ساتھ دکھائی دیتی ہے۔یہاں کانگریس نے اس کا 96 فیصد ووٹ بیس گنوا دیا ہے-اور یہی ووٹ بیس پوری طرح بی جے پی کے اکھاڑے میں پہنچ گیا ہے، جو صرف ایک انتخاب میں بنا کسی ووٹ بیس سے 43 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔بی جے پی کے اس نئے ووٹ بیس کا 80 فیصدی سیدھے کانگریس سے آیا ہے۔
کانگریس بھی اتنی بڑی سطح پر ہوئی اس ووٹ بیس کی تبدیلی سے حیرت زدہ ہے۔اس کی وجہ کیا ہے؟2013 میں دہلی میں آئی عام آدمی پارٹی کی انتخابی سنامی کے باوجود کانگریس اپنے 24فیصد ووٹ شیئر میں سے 10فیصد بچانے میں کامیاب رہی تھی۔ترپیورہ میں کانگریس کے صدر پردیوت دیب برمن نے دی وائر کے نامہ نگار کو ایسا بتایا تھا کہ پارٹی ہر انتخابی حلقہ میں یہ متعین کرنے کے لئے اپنا امیدوار اتار رہی تھی کہ بھلےہی وہ اقتدار کو چیلنج دینے کی حالت میں نہیں ہے، لیکن پارٹی فعال رہے اور ان کا ووٹ بیس برقرار رہے۔
1993 میں، جب سے تریپورہ میں مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی (ماکپا) اقتدار میں آئی، کانگریس کا ووٹ شیئر اوسط 34 فیصد بنا رہا ہے۔ان 25 سالوں میں جب تک ماکپا حکومت رہی، کانگریس کا ووٹ شیئر 32 فیصد سے نیچے نہیں گیا۔یعنی 25 سالوں سے یہ کانگریس کا کم از کم ووٹ بیس تھا۔تو اس بار کے انتخاب میں یہ محض 1.4فیصد پر کیسے پہنچ گیا؟
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کانگریس کے پارٹی اسٹرکچر کو پوری طرح بی جے پی نے خرید لیا اور اس کے ساتھ ہی کانگریس کا 96فیصد ووٹ شیئر بھی چلا گیا۔لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے، کیونکہ صرف پیسے کی طاقت پر ووٹ بیس میں اس طرح کی تبدیلی نہیں آ سکتی۔یہ سچ ہے کہ 2016-17 کے دوران ریاست میں گہری مداخلت رکھنے والے کانگریس کے طاقت ور رہنما آہستہ آہستہ بی جے پی کی طرف مڑ گئے۔اس بات کا ثبوت یہی ہے کہ بی جے پی کے ذریعے اتارے گئے 60 میں سے 44 امیدوار پرانے کانگریسی تھے، جن کو اپنےاپنے انتخابی حلقہ میں اچھی حمایت حاصل تھی۔
اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ بی جے پی نے بڑی سطح پر کانگریس کی تنظیم اور امیدواروں میں سیندھ لگائی ہے، تب بھی کانگریس کے ووٹ بیس میں اتنے بڑے پیمانے پر آئی اس گراوٹ کو نہیں سمجھا جا سکتا۔
یہ تو واضح ہے کہ کانگریس کو لگاتار ووٹ دینے والے رائےدہندگان نے پارٹی اور تریپورہ کا مستقبل طے کرنے میں اس کے ممکنہ کردار کو لےکر تمام امیدیں چھوڑ دی ہیں۔اس بات سے کانگریس کو فکرمند ہونا چاہیے۔کوئی بھی پارٹی رائےدہندگان کے دماغ سے پوری طرح سے نہیں نکل سکتی۔تریپورہ کے تناظر میں رائےدہندگان کے دل میں کانگریس کے سسٹم کی جگہ پوری طرح بی جے پی نے لے لی ہے۔کانگریس کو اس بارے میں فکرمند ہونا چاہیے اور ووٹ شیئر کی اس گراوٹ کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنا چاہیے۔
اگر کانگریس نے تریپورہ میں انتخابی لڑائی کا دکھاوا ہی کیا ہوتا، تو اس سے ماکپا کے امکانات بڑھ سکتے تھے۔اگر کانگریس نے اس کے تاریخی 34 فیصد اوسط ووٹ شیئر کا تیسرا حصہ بھی برقرار رکھا ہوتا، تو بی جے پی کا امکان گھٹ جاتا۔اگر الگ الگ رکھکر دیکھا جائے تو ماکپا اور بی جے پی دونوں کو ہی قریب 43فیصد ووٹ شیئر ملا ہے۔بی جے پی کو اس کے معاون آئی پی ایف ٹی کی مدد بھی ملی، جس کو قریب 8 فیصد ووٹ ملے ہیں۔
اگر کانگریس اس کے تاریخی ووٹ شیئر کا10-15فیصد بھی بچا لیتی، تو بی جے پی کا ووٹ شیئر 35 فیصد سے کم پر آ جاتا۔ایسے میں ماکپا آسانی سے جیت سکتی تھی۔شاید ماکپا نے بھی یہی سوچا ہوگا، جو پھر جیتنے کو لےکر پوری طرح مطمئن دکھ رہی تھی۔انہوں نے یہی حساب لگایا ہوگا کہ کانگریس اپنے ووٹ بیس کا ایک تہائی یا آدھا بچا لےگی، جس سے اقتدارمخالف ووٹ تقسیم ہو جائیںگے۔
ایسا ہونے کے لئے کانگریس کے رہنماؤں کو تھوڑی اور زیادہ محنت کرنی چاہیے، جو انہوں نے نہیں کی۔ راہل گاندھی نے ریاست میں تشہیر کے آخری دن صرف ایک ریلی کو خطاب کیا۔کانگریس نے غالباً یہ لڑائی ماکپا کے جیتنے کے لئے چھوڑ دی تھی اور اپنے ووٹ بیس کو بچائے رکھنے کے لئے کم از کم کوشش بھی نہیں کی۔
یہ ان کی سب سے بڑی غلطی تھی، جو اب پتا چل رہی ہے۔5سال میں 36 فیصد ووٹ شیئر سے گرکر 1.4فیصد پر پہنچ جانے پر کانگریس کو ایک مکمل اندرونی تفتیش کرنی چاہیے، جس سے ایسے تاش کے پتوں کی طرح ان کا ووٹ شیئر دوبارہ نہ گرے۔
Categories: فکر و نظر