خبریں

راجستھان میں سیلکوسس سے پچھلے چار سال میں 449 لوگوں کی موت 

کان کنی، کرشر، بالو ڈھلائی وغیرہ کے شعبوں  میں کام کرنے والے مزدور اس بیماری کی چپیٹ میں آتے ہیں۔  رپورٹ کے مطابق، 14-2013 میں سیلکوسس  کی وجہ سےراجستھان میں مرنے والوں کی تعداد جہاں ایک تھی، وہیں17-2016 میں بڑھ‌کر 235 ہو گئی۔

علامتی فوٹو:رائٹرس

علامتی فوٹو:رائٹرس

نئی دہلی: راجستھان میں سیلکوسس کی بیماری نے خوفناک شکل اختیار کر لیا ہے۔  بیتے چار سالوں میں ریاست میں سیلکوسس سے 449 لوگوں کی موت کے کی وجہ سےراجستھان کے کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل (کیگ) نے بھی اس پر خدشات  کا اظہار کیا ہے۔

پتریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق ، کیگ نے طبی محکمے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ریاست میں سیلکوسس کی خوفناک حالت بتائی ہے۔  رپورٹ کے مطابق سال14-2013 میں ریاست میں اس بیماری سے مبتلا 304 مریض تھے، جن کی تعداد چار سال میں بڑھ‌کر 4931 ہو گئی ہے۔  اتناہی نہیں بیماری کی وجہ سے چار سالوں میں 449 لوگوں کی موت بھی ہو چکی ہے۔

ریاست میں بڑے پیمانے پر پتھر توڑنت کے ساتھ ساتھ کرشر، سینڈ، بلاسٹنگ، ڈھلائی، سیریمِک صنعت، جوہر کاٹنے اور تراشنے، سلیٹ و پنسل تعمیر اور کانچ مصنوعات کا کام ہوتا ہے۔  ان کاموں میں لگے مزدوروں کے جسم کے اندر سلیکا سانس کے ساتھ داخل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے  ان میں سیلکوسس بیماری پنپنے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔

حالانکہ، صرف راجستھان ہی نہیں، ملک کی مختلف ریاستوں میں بھی سیلکوسس کا جان لیوا قہر جاری ہے۔  لیکن، حکومتوں کی طرف سے اس سے متعلق کوئی پختہ اسکیم شروع نہیں کی گئی ہے۔راجستھان بھی اس معاملے میں اچھوتا نہیں ہے۔14-2013 میں سیلکوسس کی وجہ سے ریاست میں مرنے والوں کی تعداد جہاں ایک تھی، وہ17-2016 میں بڑھ‌کر 235 ہو گئی۔  حالات کی اس خوفناکی پر کیگ نے فکر کا اظہار کیا ہے۔

پتریکانے لکھا ہے کہ راجستھان ریاستی انسانی حقوق کمیشن نے ستمبر 2014 میں مرکزی وزارتِ مزدور و روزگار کو سیلکوسس کی روک تھام پر مبنی سفارشوں کی ایک رپورٹ بھیجی تھی۔  وزارت نے قریب ایک سال بعد اس رپورٹ کو راجستھان آلودگی کنٹرول بورڈ اور معدنی و ارضیات محکمہ کو ضروری کارروائی کے لئے بھیج دیا۔

آلودگی کنٹرول بورڈ نے نومبر 2015 میں انسانی حقوق کمیشن کے رجسٹرار کو جواب بھیجا۔  جس میں انہوں نے کہا کہ معدنیات کے پاس فضائی معیار کی نگرانی کرنے کے لئے بورڈ پرعزم ہے۔  بورڈ نے معدنیات محکمے کے ڈائریکٹر سے مئی اور ستمبر 2016 میں ریاست میں واقع معدنی گروہوں کی جانکاری مانگی، لیکن بورڈ کو یہ دستیاب نہیں کروائی گئی۔  ایسے میں بورڈ نے جائزہ کے لئے نہ تو اسکیم تیار کی اور نہ فضائی نگرانی شروع کی۔

وہیں، انسانی حقوق کمیشن کی سفارش کے مطابق، معدنیات محکمہ اور آلودگی کنٹرول بورڈ کے افسروں کو شامل کرتے ہوئے اڑن دستے کی بھی تشکیل ہونی تھی، لیکن وہ بھی نہیں ہوئی۔نتیجتاً سیلکوسس نے سال در سال ریاست میں اپنے پیر پسارنے شروع کر دئے۔  سال 14-2013میں 304 مریضوں پر ایک موت درج کی گئی تھی۔  سال15-2014 میں تعداد بڑھ‌کر 905 مریضوں پر 60 موت تک پہنچ گئی۔ 16-2015 میں سیلکوسس کی خوفناکی اور زیادہ بڑھ گئی اور 2186 مریضوں پر 153 موت کے معاملے درج کئے گئے۔

حالانکہ17-2016 میں مریضوں کی تعداد میں تو کمی دیکھی گئی لیکن سیلکوسس سے مرنے والوں کی موت میں اضافہ درج کیا گیا۔  اس دوران 1536 مریض سامنے آئے اور 235 اموات درج کی گئیں۔سیلکوسس میں ذرات سانس کے ذریعے مریض کے جسم میں داخل کر جاتے ہیں جس سے اس کو سینے میں درد، کھانسی اور سانس میں تکلیف ہوتی ہے۔  آہستہ آہستہ مریض کا وزن کم ہونے لگتا ہے۔  آگے جا کر مریض کی موت تک ہو جاتی ہے۔