امرتسر کے گوبندگڑھ قلعے میں تاریخ کی نشانیاں محفوظ رہنی چاہیے، لیکن محکمہ آثار قدیمہ کو عمارت کا ذمہ دینے کے بجائے پنجاب حکومت نے بالی ووڈ اداکارہ دیپا ساہی کو اس کو ورچوول ریئلیٹی تھیم پارک میں بدلنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
میں گئی تو تھی سکھوں کی آن بان اور شان رہے راجا رنجیت سنگھ کا گوبندگڑھ کا قلعہ دیکھنے پر اندر جاتے ہی لگا کسی چوپاٹی پر آ گئے ہیں۔ فُل والیوم میوزک پر لڑکے او رلڑکیوں کا بھانگڑا، کھانےپینے کی دکانیں اور جگہ جگہ تعمیری کام۔
طے کرنا مشکل تھا کہ یہ تاریخی یادگار ہے یا پھر کوئی ایسا مقام جس کی رنگارنگ تقریبات کے لئے توسیع کی جا رہی ہے۔ نو تعمیر قلعے کے اندر ہی نہیں، چاروں طرف تحفظ کے لئے بنی اس کی بےحد چوڑی کھائیوں تک میں کیا جا رہا تھا۔پوچھنے پر وہاں موجود گارڈ کو بھی اس تعمیر کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا بس وہ اتنا ہی کہہ پائے کہ ‘ لگتا ہے یہاں کچھ نیا بنےگا۔ ‘
ہرمندر صاحب اور امرتسر شہر کے مسلمانوں کے باہری اور اندرونی حملوں سے تحفظ کے لئے بھنگی ریاست کے سربراہگجّر سنگھ نے اس قلعے کی بنیاد 18ویں صدی میں رکھی تھی۔ تب وہ سکھ جماعتوں کے لئے بنایا گیا چھوٹا سا قلعہ تھا، جس کو بعد میں راجا رنجیت نے نئے سرے سے بنوایا اور سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ کے نام پر اس کا نام رکھا۔
پنجاب پر انگریزوں کی حکومت ہو جانے پر 1849 میں یہ قلعہ بھی ان کے پاس چلا گیا اور پھر آزادی کے بعد ہندوستانی فوج کے قبضے میں رہا۔ چھاؤنی علاقے میں ہونے کی وجہ سے عوام کی نظر میں یہ کبھی آیا ہی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی امرتسر کے زیادہ تر لوگوں کو شہر میں اس قلعے کے ہونے کی جانکاری نہیں ہے۔ ہیریٹیج کے تئیں کچھ بیدار لوگوں کے لگاتار دباؤ بنائے جانے کے بعد 2009 میں فوج نے قلعہ مرکزی حکومت کو سونپ دیا۔ تب اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اس کی کنجی پنجاب حکومت کو دے دی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوام کے لئے کھولے جانے سے پہلے اس کی مرمت اور تحفظ کے لئے اس کو ریاست کے محکمہ آثار کو سونپا جاتا اور ‘ پنجاب کا شیر ‘ کہے جانے والے راجا رنجیت سنگھ کی تاریخی وراثت کی شکل میں عوام کے لئے کھولا جاتا۔ مگر پورا قلعہ سونپ دیا گیا ، ممبئی کی فلم اداکارہ دیپا ساہی کو، اس کو ‘ ورچوول رییئلٹی تھیم پارک ‘ میں بدلنے کے لئے۔
مایانگری کی اداکارہ کی فرم کا نام بھی مایانگری ہے اور انھیں رچنی بھی ایک مایانگری ہی ہے۔ ان سے یہ امید کرنا کہ وہ اس تاریخی عمارت کی تاریخیت کو بچائے رکھیںگی، ان کے تئیں زیادتی ہوگی۔ خاص طور سے تب جب حکومت نے خود اس کو یہ کام سونپا ہو اور انجام دینے کے لئے وراثت سے چھیڑچھاڑ کی پوری اور کھلی چھوٹ دی ہو۔
تاریخی مقام پر ہاٹ بازار لگانے اور اسٹیج چلانے کے بارے میں پوچھے جانے پر مرکزی محکمہ آثار کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر جمال کا کہنا تھا، ‘ یہ ناجائز اور غیر قانونی ہے۔ لال قلعے میں اس کے دروازے پر کچھ دکانیں لگتی ہیں تو اس لئے کہ وہ بادشاہوں کے زمانے میں بھی لگتی تھیں۔ پر ایسا نہیں کہ قلعے کے اندر بھی دکانیں اور چاٹ پکوڑی کے ٹھیلا لگا دئے جائیں۔ پوری دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ تاریخی یادگار کو تجارتی مرکز میں بدل دیا جائے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ غلط ہے۔ پھر چاہے وہ یادگار حکومت کے اپنے کنٹرول میں ہی کیوں نہ ہو۔ ‘
قلعے کی بازارکاری کی جا رہی ہے، یہ خاص دروازے پر داخلہ ٹکٹ لینے کے ساتھ ہی سمجھ آ جاتا ہے۔ ٹکٹ کی قیمت 160 روپے سے لےکر 400 روپے سے اوپر تک بتائی جاتی ہے، جس میں تھری ڈی شو سے لےکر بھنگڑا، گدّا، موٹر رائڈ، شاپنگ اور ہاٹ بازار، کھاناپینا سب کچھ کر سکتے ہیں۔
صرف گھومنے کی ٹکٹ 25 روپےکی ہے اور وہ آپ کو اندر کے ٹکٹ کاؤنٹر پر جا کر ملتی ہے۔ قلعے کے باہر توپ کو دیکھکر لگتا ہے کہ آپ کسی فوجی عمارت میں داخل ہو رہے ہیں۔اندر کے دروازے پر لگا گھنٹہ اس کے تاریخی ہونے کا احساس کراتا ہے پر اس کے بعد اندر جاتے ہی وہ احساس ختم ہو جاتا ہے۔ پھوارے، ہری بھری گھاس، کافی ہاؤس اور مائک پر پنجابی نغمہ اور اس پر ہوتا بھنگڑا، چاروں طرف بکھری تاریں، دریا۔ آپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ آپ کیا دیکھنے آئے ہیں!
توشہ خانے میں گئے تو فرش ، دیواریں سب جدید ساز و سامان سے سنورے ہوئے تھے۔ نئی تکنیک سے اس وقت کے سکوں کو دیکھنا تو آسان تھا مگر توشہ خانہ راجا رنجیت سنگھ کے وقت کیا تھا اور انگریزوں نے اس کو کیسے اپنے بارودخانے میں بدلا، اس کا وہاں کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔
اسی طرح اس کے ٹھیک سامنے کی عمارت میں سیڑھیاں چڑھکر اوپر پہنچے تو اس کے کمروں کے فرش اور دیواریں جدید سامان سے بدلے جا چکے تھے، کمروں میں کچھ پتلے کھڑے کر دئے گئے تھے، جو نئے تھے۔غالباً کسی ثقافتی پروگرام میں کام آتے ہوں، جن کو وہاں سنبھالکر کھڑا کر دیا گیا تھا۔ بتانے والا کوئی گائڈ تھا نہیں سو وہاں تعینات گارڈ نے ہی بتایا کہ جنرل ڈائر اسی کمرے میں آکے رہے تھے اور اس کے ٹھیک سامنے پھانسی گھر ہے۔
حالانکہ یہ دونوں ہی اطلاعات غلط تھیں اور راجا رنجیت کے وقت یہ عمارت کس کام آتی تھی یہ ان کو پتا نہیں تھا۔ اس کے بعد چار عمارتیں اور تھیں، جن میں سے تین پر ممنوعہ علاقہ لکھا ہوا تھا۔بچی ہوئی ایک عمارت کا نچلا حصہ دکانوں میں تبدیل ہو چکا ہے اور اوپر کے حصے میں تھری ڈی شو چلتا ہے، جس میں ورچوول اسٹائل میں راجا رنجیت سنگھ کی تاریخ بتائی جاتی ہے۔ یہاں فرش اور دیواریں اس نانک شاہی اینٹ کے تھے، جو اس وقت استعمال کی جاتی تھیں۔
پر یہ بھی زیادہ دن رہنے والے نہیں کیونکہ قلعے کی جدیدکاری میں ہاٹ و بازار تعمیر کے پہلے مرحلے کے بعد اس ڈھانچے کو ورچوول ریئلیٹی شو میں بدلنے کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے، جس میں کھائیوں میں نئی تعمیر چل رہی ہے اور یہاں کام پھر ممنوعہ عمارتوں میں چلےگا۔
اس مرحلے میں یہاں ہوٹل، ریستوراں اور کاٹیج بنیںگے۔ بالی ووڈ شو کے لئے اسٹیج بنائیں جائیںگے۔ پچھلے آٹھ سال سے قلعے کے تحفظ کا کام کر رہی دیپا ساہی ابتک یہ پتا نہیں لگا پائی کہ کون سی عمارت کیا تھی، کس نے بنوائی اور اس کا استعمال کیا تھا۔قلعے کی تعمیر اور استعمال راجا رنجیت سنگھ اور انگریز انتظامیہ دونوں نے ہی کیا۔ اس معنی میں دونوں کے نشان وہاں ہونے چاہیے۔ پر ابھی تو نہ وہاں راجا رنجیت سنگھ ہیں نہ انگریز۔ ابھی تو دیپا ساہی کی مایانگری ہے اور قلعے کو مایانگری میں تبدیل کرتے اس کے کاریگر اور مزدور۔
قصور دیپا ساہی کا نہیں، ان کا تو یہی پروجیکٹ تھا، جسے بادل سرکار نے منظوری دی۔ اور اب کانگریس حکومت میں وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے اس کے کام کی تعریف کرتے ہوئے اس کام کے لئے اس کو کھلکر تعاون دینے کا اعلان امرتسر میں گزشتہ دنوں ہی کی ہے۔
اتنا ہی نہیں وہ تو دیپا کے کام سے اتنے خوش ہیں کہ امرتسر میں ایک اور عجائب گھر کی ذمہ بھی اس کو دینے جا رہے ہیں۔ تو کہا جا سکتا ہے کہ آج جب سُورن مندر اور واگھا سرحد کی وجہ سے امرتسر سیاحت کے نقشے پر اوپر آ رہا ہے تو پنجاب حکومت اس کی وراثت کو حصہ داری موڈ پر نجی ہاتھوں میں سونپ دونوں ہاتھوں سے ان کو لوٹنے اور لٹانے میں لگی ہوئی ہے۔
ایسا نہیں کہ اس کے خلاف لوگ بولے نہیں پر لٹیری حکومتیں ان آوازوں کو اپنے کانوں تک آنے ہی کہاں دیتی ہے۔ سو، گوبندگڑھ قلعے سے تو شروعات ہوئی ہے۔ اب آگے کس کی باری ہے؟ ٹاؤن ہال!
(نیلم گپتا آزاد صحافی ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر