انٹرویو : مہاراشٹر میں اپنی مانگوں کو لےکر ہزاروں کسان ناسک سے پیدل مارچ کرتے ہوئے ممبئی پہنچ گئے ہیں۔ اس کی قیادت کر رہے ماکپا سے جڑے آل انڈیا کسان سبھا کے صدر اشوک دھاؤلے سے بات چیت۔
ناسک سے ممبئی تک کسانوں کی اتنی بڑی ’پد یاترا‘کے پیچھے اہم مانگیں کیا ہیں؟
آل انڈیا کسان سبھا نے چھ مارچ کو ناسک سے اپنے سفر کی شروعات کی ہے۔ اب 12 مارچ کو یہ ممبئی پہنچ گئی ہے۔ اس 200 کلو میٹر کے سفر میں فی الحال 30000 کسان شامل ہیں۔ ہمارے اس پیدل مارچ کے پیچھے کی وجہ حکومت کے ذریعے کسانوں اور آدیواسی کو دیا گیا دھوکہ ہے۔ہماری مانگ ہے کہ کسانوں کا پورا قرض معاف کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ گزشتہ سال جون میں پانچ وزراءکے ساتھ بیٹھک ہوئی اور مہاراشٹر حکومت نے کسانوں کا 34 ہزار کروڑ کا قرض معاف کرنے کا فیصلہ لے لیا۔ لیکن حکومت نے اس میں بھی عوام کو بےوقوف بنانے کا کام کیا۔
حکومت نے قرض معافی کے لئے ایسی شرطیں بنائی ہیں کہ کوئی کسان اس کو پورا کر ہی نہیں پائےگا۔ حکومت نے کہا کہ جو کسان اپنا قرض باقاعدگی سے بھر رہا ہے اس کو اس کا فائدہ ملےگا۔ انہوں نے اس میں 25 ہزار کا اہتمام بھی ڈال دیا اور اس میں بھی ایسا ہے کہ اگر آپ کا 50 ہزار کا قرض ہے اور آپ 25 ہزار قرض معافی کا فائدہ لینا چاہتے ہیں، تو آپ کو پہلے 25 ہزار بھرنا ہوگا اور پھر 25 ہزار معاف ہو جائےگا۔ حکومت کی یہ اسکیم قرض معافی کے لئے نہیں بلکہ قرض وصولی کے لئے ہے۔ہماری ایک اور مانگ ہے کہ کسانوں کی بجلی کا بل بھی معاف ہونا چاہیے۔ کیونکہ بنا بجلی کا استعمال کئے ہی لاکھوں کسانوں کا بہت زیادہ بل آیا ہے۔ ویسے بھی کسانوں پر قرض کی مار کم ہے جو اب بجلی کمپنی کی مار سہیںگے۔
بجٹ میں ایم ایس پی کی بات کے باوجود بھی آپ لوگ تحریک کر رہے ہیں؟
دیکھیے، حکومت نے ایم ایس پی کو لےکر گمراہ کر دیا اور کچھ لوگوں کے ساتھ میڈیا نے بھی یہ نشر کر دیا۔ حکومت نے ایم ایس پی کی تعریف کو ہی بدلکر رکھ دیا ہے۔سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق لاگت پر 50 فیصد زیادہ دینے کی بات کہی گئی تھی۔ مودی نےبھی انتخابی جلسہ میں کہا تھا کہ اقتدار میں آئے تو کمیشن کی سفارشیں نافذ کریںگے، پر ایسا نہیں ہوا۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، مثال کے لئے اگر ایک ایکڑ زمین پر فصل کے لئے کسان 10000 لگا رہا ہے تو اس کو لاگت کا 50 فیصد یعنی 15000 روپے ملنے چاہیے، لیکن حال یہ ہے کہ حکومت نے ایم ایس پی 5000 طے کر دیا ہے اور کسان 10000 لگا رہا ہے۔ جہاں اس کو 15000 ملنا چاہیے تھا، وہاں اس کو 7500 روپے مل رہے ہیں۔ یہ تو کسانوں کے ساتھ دھوکا ہے۔
حکومت لاگت قیمت کا تجزیہ کرنے میں ناکام ہے۔ دراصل ائیرکنڈیشن کمروں میں بیٹھکر سچائی پتا نہیں چلتی۔ کسانوں کے درمیان آ کر دیکھنا پڑےگا کہ ان کی کیا لاگت ہے اور کیا مسئلہ ہے۔مرکزی حکومت نے 2015 میں سپریم کورٹ میں حلف نامہ دےکر کہا ہے کہ لاگت پر 50 فیصد زیادہ نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ بازار خراب کر دےگا۔ویسے، کیا حکومت کو اندازہ بھی ہے کہ پچھلے 25 سال میں چار لاکھ سے زیادہ کسانوں نے خودکشی کر لی ہے اور اس میں سب سے زیادہ تعداد مہاراشٹر سے ہے جو تقریباً 70000 ہے۔وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے بھی بجٹ کے وقت کہا کہ ربیع فصل سے ایم ایس پی پر 50 فیصد ملنے لگےگا، لیکن زمینی سطح پر ایک بھی فصل پر ایم ایس پی کے مطابق ادائیگی نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس سے بہت کم ملا ہے۔میڈیا کے درمیان اور کاغذ پر کہنا آسان ہے پر کیا حکومت منڈیوں اور کسانوں کے پاس آکر دیکھ رہی ہے کہ کیا کسانوں کو فائدہ مل رہا ہے۔
مرکز کی مودی حکومت کہہ رہی ہے کہ کسانوں کا قرض معاف کرنا ریاستی حکومت کا کام ہے۔ اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
تب تو مودی جی کو پارلیامانی انتخاب کے دوران کی گئی اپنی تقریر میں کہنا چاہیے تھا کہ میں جیت گیا تب بھی آپ کا قرض معاف نہیں کر پاؤںگا… انتخاب کے وقت تو انہوں نے یہ نہیں کہا تھا۔اب مرکزی حکومت دلیل دے رہی ہے کہ قرض معاف کرنا ان کا نہیں ریاستی حکومت کا کام ہے۔ مجھے لگتا ہے اس قرض کی ذمہ داری ریاست سے زیادہ مرکز پر ہے، کیونکہ زیادہ سے زیادہ وسائل انہی کے پاس ہے۔ عموماً قرض قومی بینکوں کے ذریعے لیا گیا ہے اور اس کے لئے مرکز کو قدم بڑھانا ہوگا۔
حکومت نے کسانوں کو دھوکہ دینے کا کام کیا ہے۔ صنعت کاروں کے ذریعے لئے گئے قرض کا کل این پی اے تقریباً 11.5 لاکھ کروڑ ہے۔ اس پر کوئی کچھ نہیں بولتا لیکن بات جب کسانوں کی آئےگی تب تمام قرض وصول کرنے پہنچ جاتے ہیں۔چھوٹےموٹے قرض کے لئے بینک گھٹیا طریقے سے وصولی کرتا ہے۔ یہ بینک کسانوں کو ذہنی طور پر پریشان کرتے ہیں۔ خودکشی کے پیچھے صرف قرض لوٹانے کا دباؤ نہیں بلکہ اس کی وصولی کے لئے کسانوں کو دی جانے والی دماغی الجھن اور بےعزتی بھی ہوتی ہے۔
حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انہیں کسانوں کاقرض معاف کرنا ہوگا، ورنہ لوگ کسانی چھوڑ دیںگے۔ اگر مودی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ قرض معاف کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے، تو اس کو یاد کر لینا چاہیے کہ وی پی سنگھ کی حکومت نے تمام کسانوں کے لئے 10000 روپے تک کا قرض معاف کیا تھا اور منموہن سنگھ نے بھی 2008 میں ایسا کیا تھا۔ہاں، یہ ضرور ہے کہ ہم پچھلی حکومتوں کے ذریعے قرض معافی کی تنقید کر سکتے ہیں، لیکن انہوں نے ایسا کیا تو تھا۔ مودی حکومت اپنے وعدوں میں ناکام رہی ہے اور عوام کو بیوقوف بنا رہی ہے۔
فاریسٹ رائٹ ایکٹ، 2006 کو لےکر کیا مسئلہ ہے؟
دیکھیے، یہ قانون 2006 میں منظور ہوا ہے۔ اس کو پاس ہوئے اب 12 سال ہو گئے ہیں لیکن آدیواسیوں کو اس کا کچھ بھی فائدہ نہیں ملا ہے۔آدیواسیوں کے لئے پچھلی حکومت نے تو کچھ کام بھی کیا لیکن اس حکومت نے کوئی بھی کام نہیں کیا۔ یہ بل اس لئے بنایا گیا تھا تاکہ عدالت کی طرف سے آدیواسیوں کے لئے جو غلطیاں ہوئی ہیں، اس میں اصلاح ہو سکے۔آدیواسی جنگل میں ہی زراعت کرتے ہیں اور یہ ابھی نہیں بلکہ ہزاروں سال سے وہ کرتے آ رہے ہیں۔ اس قانون کے تحت آدیواسیوں کے پاس زراعت کی زمین متعین کرنے کا اہتمام ہے۔اس قانون کے تحت جو درخواست کر رہے ہیں، اس میں 3 لاکھ درخواستوں میں سے ایک لاکھ پر ہی کام کیا گیا ہے۔ آدیواسیوں کو انصاف دینے میں دیری ٹھیک بات ہے کیا؟
صدیوں سے جنگل کی زمین پر زراعت کرنے والے آدیواسیوں کے نام پر وہ زمین دی جانی چاہیے۔ یہی اس قانون کی روح ہے۔ لیکن حکومت آدیواسیوں کے حق کے لئے بالکل بھی فکرمند نہیں ہے۔
کپاس کی فصل میں گلابی کیڑے (پنک بال وارم) کا مسئلہ بھی آپ کے مدعوں میں سے ایک ہیں۔ اس کے بارے میں بتائیے؟
سبھی کو یہ بات پتا ہے کہ مہاراشٹر کے ودربھ اور مراٹھواڑا میں کپاس کی زراعت زیادہ ہوتی ہے اور ہرسال گلابی کیڑے کا مسئلہ یہاں کا کسان جھیلتا ہے۔ گلابی کیڑے کی وجہ سے تقریباً 12000 کروڑ روپے کا نقصان کپاس اگانے والے کسانوں کو ہوا ہے۔
گزشتہ سال دسمبر میں اسمبلی میں کہا گیا کہ سوکھی زمین پر 37000 روپے فی ایکڑ معاوضہ ملےگا اور گیلی زمین پر 30000 روپے فی ایکڑ۔ جس علاقے میں کپاس کی زراعت زیادہ ہوتی ہے، وہی سب سے زیادہ کسانوں کی خودکشی کی جگہ ہے۔حکومت نے ایوان میں گزشتہ سال دسمبر میں وعدہ تو کر دیا، لیکن دیکھیے کہ اب مارچ کا مہینہ بیتنے والا ہے اور کسانوں کو کچھ نہیں ملا ہے۔ کاغذ میں ترقی کی بات کرنا آسان ہے، لیکن اس کا فائدہ ملک کے ہرایک آدمی کو پہنچانا صحیح ترقی ہے۔ایوان میں تقریر کر کے یہ کہہ دینا کہ ہم نے اتنا دے دیا اور میڈیا بھی اسی سے تجزیہ کرنے لگتا ہے۔ کیا کسی نے زمین پر جا کر دیکھا کہ کسانوں سے کئے گئے وعدے کتنے پورے ہوئے ہیں۔
آپ لوگ حکومت کی بلّیٹ ٹرین اور ہائی وے اسکیم کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟
میں یہ بہت واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ ترقی کے خلاف نہیں ہے۔ یہ جو حکومت کی بلّیٹ ٹرین اسکیم یا ممبئی،ناگ پور خوشحال منصوبہ ہے اس میں بڑی تعداد میں نئی زمینوں پر قبضہ کیا جائےگا۔ہم سب جانتے ہیں کہ حکومت ترقی کے نام پر کسانوں اور آدیواسیوں کی زمین لے لیتی ہے اور ان کی بازآبادکاری نہیں کرتی۔ وہ بھٹکتے رہتے ہیں اور اپنے حق کے لئے تاعمر لڑتے رہتے ہیں۔حکومت زمین حصول کے لئے کڑے اصول بنائے۔ پہلے بازآبادکاری اور پھر معاوضہ، اس کے بعد کوئی کام۔
مہاراشٹر اور گجرات کا ریور لنک سمجھوتہ کر رہی ہے، باندھ بنا کر وہ مغرب کے عرب ساگر میں جانے والا پانی گجرات کی طرف موڑنا چاہتی ہے۔ ہماری مانگ ہے کہ ایسا نہ کرکے مہاراشٹر کے قحط زدہ علاقوں کو پانی دیا جائے۔مراٹھواڑا ہرسال سوکھے کی مار جھیلتا ہے اور یہیں سب سے زیادہ کسان خودکشی کرتا ہے۔ اس سمجھوتہ کے چلتے مہاراشٹر کا آدیواسی سب سے زیادہ دقت میں آنے والا ہے۔باندھ کی وجہ سے بہت بڑا قبائلی علاقہ پانی میں ڈوب جائےگا اور ہم سب جانتے ہیں کہ ایک بار آدیواسی کی زمین اور جنگل ختم ہو گیا تو وہ اپنی پہچان کھو دیتا ہے، جو اس نے صدیوں سے بچا کر رکھی ہے۔
کیا آپ اس تحریک سے حکومت پر دباؤ بنانے میں کامیاب ہوںگے؟
یہ کوئی پہلی کسان تحریک نہیں ہے کہ حکومت پر دباؤ نہیں بنےگا۔ اس سے پہلے مارچ 2016 میں تقریباً ایک لاکھ کی تعداد میں ناسک میں کسانوں نے 2 دن اور 2 رات کا ستیہ گرہ کیا تھا اور حکومت دباؤ میں بات کرنے بھی آئی تھی اور یقین دہانی بھی کرائی تھی لیکن کچھ کیا نہیں۔کسان سبھا کی قیادت میں اکتوبر 2016 میں ہزاروں آدیواسیوں نے پال گھر میں آدیواسی دیولپمنٹ کمیشن کا گھیراؤ بھی کیا تھا، اس وقت بھی یقین دہانی کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوا۔
گزشتہ سال 2017 میں ہوا اور حکومت نے 34000 کروڑ روپے قرض معافی کا اعلان کیا، لیکن اس میں بھی حکومت نے دھوکہ دیا۔ اب ہم نے پھر پیدل مارچ کر ممبئی میں اسمبلی گھیراؤ کرنے کا فیصلہ لیا۔ہم یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ اس بار حکومت کی ایسی کوئی بیٹھک نہیں ہوگی، جس میں کھوکھلی یقین دہانی کرائی جائے۔ ہم اس بار کوئی ٹھوس قدم کے بغیر ممبئی سے واپس نہیں لوٹیںگے۔
جب تک ہماری مانگ مان نہیں لی جاتی۔ تب تک ہم ممبئی میں ہی رہیںگے۔ حکومت نے کسانوں کو کم آنکا ہے، لیکن ان کو کسانوں کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔
Categories: خبریں