یاد رہے کہ سعودی ولی عہد نے مسئلہ قطر کو اپنے سہ روزہ مصری دورہ کے اختتام پر ایک چھوٹا سا ایشو قرار دیا تھا ۔ اس کا جواب قطرسے شائع ہونے والے اخبار “الرایہ” نےاپنے اداریہ میں دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے عربی میں شائع ہونے والے اخبار وں میں سعودی ولی عہد کا دورہ برطانیہ اور ترک و عرب تعلقات موضوع بحث رہے ۔روزنامہ “الحیاۃ” نے 7 مارچ 2018 کے شمارہ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کےاس بیان کو نمایاں طور پر شائع کیا جس میں انہوں نے مصر ی دورہ کے اختتام کے موقع پر کہا کہ وہ قطری مسئلہ کے سلسلہ میں بالکل فکرمند نہیں ہیں اورجس طرح امریکہ نے کیوبا پر پابندیا ں ایک طویل عرصے تک جاری رکھی ، اسی طرح قطر کا محاصرہ بھی کئی دہائیوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
اسی موقع پر سعودی ولی عہد نے یہ بات زور دے کر کہی کہ سعودی عربیہ ایران کے بڑھتے اثرورسوخ کے ارد گرد گھیرا تنگ کرنے میں کامیاب ہوگیا، خواہ وہ عراق میں ہو، افریقہ میں یا یمن میں اور ہم لوگ ان جنگی منطرناموں سے نکل چکے ہیں جن میں ایران ہمیں گھسیٹنا چاہ رہا تھا ۔انہوں نے مزید یہ کہا کہ جو مصر کا دوست ہے وہ سعودی عرب کا دوست ہے اور جو سعودی عربیہ کا دشمن ہے وہ مصر کا دشمن ہے۔روزنامہ ” الریاض” نے 9 مارچ کا اداریہ سعودی برطانوی تعلقات پر لکھا ہے۔ “سعودی عربیہ اور برطانیہ کے درمیان اقتصادی تعلقات نے پچھلے سوسالوں میں غیر معمولی ترقی کی ہے، اوریہ تعلقات مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں”۔
“سرکاری بیانات کے مطابق دونوں ملکوں کا تجارتی لین دین پچھلے پانچ سالوں یعنی 2013 سے 2017 کےدرمیان 116 عرب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور سعودی عرب میں غیرملکی سرمایہ کاری میں امریکہ کے بعد برطانیہ کا دوسرا نمبر آتا ہے۔اس لیے سعودی ولی عہد،جن کے پاس وزارت دفاع کے ساتھ ساتھ نائب وزارت عظمی کا قلمدان بھی ہے، کے برطانوی دورہ میں اقتصادی اور سرمایہ کاری سے متعلق امور کو غیر معمولی اہمیت دی گئی”۔
فرانسیسی صدر ایمانول ماکرون کے دورہ ہند میں عرب میڈیا نے خصوصی دلچسپی دکھائی ۔متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے اخبار “الاتحاد” نے فرانسیسی صدر کا بیان کچھ اس طرح شائع کیا ” میرے یہاں آنے کا مقصد فرانس کو یورپ میں ہندوستان کو پہلا اسٹریٹجک پارٹنر بنانا ہےاور فرانس یورپ میں ہندوستان کے لیے گیٹ وے بننا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد پیرس نئی دہلی کے لیے لند ن کی جگہ لینا چاہتا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے ایک دوسرے اخبار “الخلیج” نے ہندوستانی کی موجودہ خارجہ پالیسی پر ایک مضمون شائع کیا ہے۔ اس کے مطابق “اگر چہ عرب وہند کے تعلقات برسوں سے کافی مستحکم ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہندوستان کو اس علاقہ کی بڑی طاقتوں مثلاً ، سعودی عربیہ،ایران اور ترکی کے ساتھ تعلقات میں زیادہ دلچسپی تھی بمقابلہ چھوٹے ممالک کے ۔ اسی وجہ سے دیگر عرب ممالک کو اس دائرہ میں لانے میں کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں ہوئی تھی۔ لیکن موجودہ وزیراعظم کے اقتدار سنبھالنے کے بعد عالم عرب کی ساتھ تعلقات میں تیزی آئی اور 2015 میں نریندر مودی کے متحدہ عرب امارات کے دورےسے تعلقات کے خدوخال واضح ہونے لگے اور مختلف عرب ممالک کے قائدین اور حکمران بھی ہندوستان کے دورے پر جانے لگے۔یہاں تک کہ گزشتہ فروری میں ہندوستانی وزیر اعظم نے فلسطین، متحدہ عرب امارات اور عمان کا دورہ کیا جس سے عرب ممالک کے ساتھ ہندوستان کے اسٹریٹجک تعلقات بنانے اوراس فطری تعلق کو ایک نئے مرحلے میں داخل کرنے کی ہندوستانی دلچسپی کی تائید ہوتی ہے”۔
یاد رہے کہ سعودی ولی عہد نے مسئلہ قطر کو اپنے سہ روزہ مصری دورہ کے اختتام پر ایک چھوٹا سا ایشو قرار دیا تھا ۔ اس کا جواب قطرسے شائع ہونے والے اخبار “الرایہ” نےاپنے اداریہ میں دیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ “اگر یہ محاصرہ چھوٹا ہے تواس محاصرے کو انجام دینے والے کب بڑے ہوں گے۔ سعودی ولی عہد کا یہ بیان کہ قطر کا ایشو ایک چھوٹا ایشو ہے آگ میں گھی ڈالنے کے مترادف ہے، اگے چل کر اخبار یہ سوال کرتا ہے کہ اگر یہ چھوٹا مسئلہ ہے تو قطر ہر وقت ان کے ذہن ودماغ پر کیوں چھایا رہتا ہے۔ محاصرہ قطر کو امریکہ کے کیوبا محاصرہ سے تشبیہ دینا مضحکہ خیز ہے۔ کیوبا کے احترام کے ساتھ ہم بتادینا چاہتے ہیں کہ قطر ایک مالدار ملک ہے اور بین الاقوامی سیاست میں اس کا اپنا ایک کردار ہے”۔
اماراتی اخبار “الخلیج” میں جناب علی جرادات نے ایک مضمون بعنوان ” ترک وعرب تعلقات حالیہ دنوں میں” لکھا ہے: وہ لکھتے ہیں “جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے اردوگان کی قیادت میں ترکی کو اپنے پہلے دس سالہ دور حکومت میں غیر معمولی ترقی سے ہمکنار کرایا۔ یہاں تک ترکی کا سالانہ ایکسپورٹ 25 عرب ڈالر سے 150 عرب ڈالر تک پہنچ گیا جس میں اکیلے 50 عرب ڈالر کی لاگت کا ایکسپورٹ عرب ممالک کے ساتھ تھا ۔ اور ایسا اس وجہ سے ہوا کہ ترکی کے تعلقات عربوں کے ساتھ اچھے تھے اورترکی عربوں کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں تھا۔ لیکن عرب اسپرنگ کے بعد ترکی قیادت کو غلط فہمی ہوئی اور انہیں لگا مصر اور تونس میں “اخوان المسلمون” کی کامیابی حتمی اور فائنل ہے اور شام میں اخوان کامیاب کے دروازے پر کھڑی ہے۔اخوانیوں کے توسط سے عرب علاقوں پر دوبارہ قبضہ کا خواب جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی قیادت دیکھنے لگی تھی۔ کیوں کہ ترکی کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بھی نظریات اور توقعات کے اعتبار سے اخوانی پارٹی ہے”۔
علی جرادات مزید لکھتے ہیں ” مصری قوم نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے اخوانیوں کی حکومت گرادی اور تونس میں اکیلے حکومت بنانا اخوانیوں کی استطاعت کے باہر کی چیز تھی اور شام میں ان کی توقعات طوفان کی نذر ہوگئی۔ ترکی کی اس وقت مصر وشام اور لیبیا کی منتخب حکومت کے ساتھ ٹھنی ہوئی ہے اور کسی حد تک عراق کےساتھ بھی تلخی ہے ۔ اور اس کا اثر یہ ہورہا ہے کہ ترکی کی شرح نمو 2 اعشاریہ 5 سے گھٹ کر 1 اعشاریہ 6 تک پہنچ گئی ہے اور لیرہ کی مارکیٹ قدر میں 15 فیصدی کی گراوٹ درج کی گئی ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ترکی میں داخلی اختلافات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ کسی وقت بھی عسکری انقلاب کا عفریت واپس آسکتا ہے”۔
Categories: خبریں, عالمی خبریں