آپ اپنے سیاسی صحافیوں اور مدیروں سے یہ بھی نہیں جان پائیںگے کہ دین دیال اپادھیائے کے انتیودیہ (Antyodaya)پر چلنے والی پارٹی نے کئی سو کروڑ کا ہیڈکوارٹر بنایا ہے وہ اندر سے کتنا شاندار ہے۔
سیاسی صحافیوں کو کبھی ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا۔ گورکھ پور میں یوگی کی ہار بڑا واقعہ تو ہے لیکن اس واقعہ میں کیا اتنا کچھ ہے کہ چارچار دنوں تک سیکڑوں صحافی لکھنے میں لگے ہیں۔سیاسی صحافیوں کو ہی سسٹم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن اندر کی باتوں کو کم ہی صحافی لکھ پاتے ہیں یا لکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی سے بنا بنایا اکویشن نہ بگڑ جائے۔اس لئے وہ ہمیشہ انتخابی نتیجوں اور انتخاب کے انتظار میں رہتے ہیں تاکہ صرف ہارنے اور جیتنے کے امکان کےتجزیے سے اپنا وقت کاٹ لیا جائے۔ کئی بار خود پر ہی شک ہونے لگتا ہے کہ شاید وہی دنیا کا دستور ہوگا اور لوگ بھی یہی جاننا چاہتے ہوںگے۔
سیاسی صحافیوں اور سیاسی مدیروں کو ہوا والے ٹاپک ہی کیوں پسند آتے ہیں۔ پہلے کی ہوا اور بعد کی ہوا کی پیمائش کے لئے بیرومیٹر لئے گھومتے رہتے ہیں۔جن چرکٹ ترجمان کا یہی ٹھکانہ نہیں کہ ایک انکم ٹیکس کے فون پر وہ کس پارٹی میں ہوںگے، ان کے ساتھ بیٹھکر اینکر لوگ 2019 کا اکویشن بنا رہے ہیں۔پھر سے کاغذ پر حساب جوڑا جانے لگا ہے کہ مایا اور اکھلیش مل گئے تو یوپی میں بی جے پی 50 سیٹ پر آ جائےگی۔ کوئی یہ نہیں بتا رہا ہے کہ جب مایا ، اکھلیش اور کانگریس الگ الگ لڑتے تھےتب بھی یوپی میں بی جے پی کیوں ہار جاتی تھی؟ پھر ان تینوں کے الگ لڑنے سے بی جے پی دو بار تاریخی روپ سے جیتی بھی۔ وہ کیسے ہوا؟ انہی سب پر لکھکر آپ کو مغالطہ میںلایا جاتا ہے کہ بڑا بھاری سیاسی تجزیہ ہو رہا ہے۔ کون کتنے میں خریدا گیا، کون کتنے میں بٹھایا گیا۔ یہ تو آپ ان کے ذریعے کبھی نہیں جان پائیںگے۔
آپ اپنے سیاسی صحافیوں اور مدیروں سے یہ بھی نہیں جان پائیںگے کہ دین دیال اپادھیائے کے انتیودیہ (Antyodaya)پر چلنے والی پارٹی نے کئی سو کروڑ کا ہیڈکوارٹر بنایا ہے وہ اندر سے کتنا شاندار ہے۔فائیواسٹار ہے یا سیون اسٹار ہے؟ سویمنگ پل چھوڑ کر کیاکیا بنا ہے وہاں؟ اس کی شان و شوکت کیا کہتی ہے؟ کیا اس کی شان و شوکت میں یہ تاثر بھی ہے کہ ہم ہی اس ملک کے اب حکمراں ہیں۔ قلعہ بنا نہیں سکتے تو چلوہیڈکوارٹر بنا کر ہی قلعہ اور راج محل کا خواب پورا کر لیتے ہیں۔پہلے بی جے پی کے دفتر میں کچھ بھی بنتا تھا، ٹی وی کا رپورٹر گھوم گھوم کر دکھاتا تھا۔ لیکن فائیواسٹار کی طرز پر بنے اس ہیڈکوارٹر کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔
جب ملک میں خوفناک غریبی ہو ، بےروزگاری ہو، ڈھنگ کے اسکول اور کالج نہ ہوں، تب اسی وقت میں ایک پارٹی عالی شان ہیڈکوارٹر بناتی ہے اور اندر جا کر دیکھکر غش کھا جانے والے سیاسی صحافی لکھنے سے ڈر جاتے ہیں۔ تب یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ کیوں دن رات اور بار بار گورکھ پور میں یوگی کی ہار پر لکھ رہے ہیں۔ جانتے ہوئے کہ نہ تو یوگی ختم ہونے والے رہنما ہیں، نہ مودی۔ ختم اگر کوئی ہو رہا ہے تو وہ اس ملک کی بھولی اور غریب عوام اور ان تک اطلاع پہنچانے والے طاقتور سیاسی صحافی۔ کیا آپ نے بی جے پی کے نئے فائیو اسٹار ہیڈکوارٹر کی اندر سے کوئی تصویر دیکھی ہے؟ کسی نے ٹوئٹ کیا ہے یا اندر جانے والوں کو تصویر لینے سے ہی روک دیا گیا یا اپنی عقیدت کے مظاہرہ میں وہ ایسا نہیں کر پائے؟
ہو سکتا ہے کہ ایسی تصویریں لوگوں نے ٹوئٹ کی ہوں اور میں نہیں دیکھ پایا۔ میں نے تو اپنی ٹائم لائن پر نئے ہیڈکوارٹر کے بارے میں کچھ بھی نہیں دیکھا۔ آپ نے دیکھا ہو تو بتائیےگا۔پوچھیے گا کسی سیاسی صحافی سے۔ آپ نے بی جے پی کا فائیو اسٹار ہیڈکوارٹر دیکھا ہے، کیسا ہے، تاج ہوٹل سے اچھا ہے یا میریئٹ سے؟ کیا آپ نے صدر جی کا کمرہ دیکھا ہے؟ نئے ہیڈکوارٹر میں صدر جی کا کمرہ، ان کے بیٹھنے کا پوزیشن ، ان سب کا بھی تو پاور اکویشن اور پاور بیلنس سے تعلق ہوتا ہے، اس کا کہیں تجزیہ کیوں نہیں ہو رہا ہے۔میں نہیں کہتا کہ آپ تنقید ہی کریں، جی بھرکر گیت گائیے مگر تصویر تو دکھائیے صاحب۔ عوام کی خدمت کرنے والی پارٹی کے فائیو اسٹار ہوٹل کی اندر سے لی گئی کوئی تصویر نہیں ہے۔آپ گورکھ پور کے نتیجے سے 2019 کا رزلٹ نکال دے رہے ہیں۔ حد ہے۔
(بشکریہ قصبہ)
Categories: فکر و نظر