ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اور دلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال بےگھرلوگوں کو گھر دینے کے تمام دعوے بھلےہی کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کی راجدھانی میں موجود رین بسیرےدکھاوا محض ہیں۔
گرمی کی شروعات ہو چکی ہے۔ ایسے میں ہرسال کی طرح رین بسیروں میں رہنے والے بےگھرلوگوں کو خاصی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ موسم کے قہر کا اصلی مطلب سمجھنا ہو تو آپ شہرکے بےگھرلوگوں پر نظر ڈال سکتے ہیں۔گاؤں اور قصبہ سےآکرروزی اور روزگار کے لئے یا پھر علاج کے لئے شہر کے ہسپتالوں میں خیمہ ڈالنے والوں کے لئے تو زیادہ گرمی یا زیادہ سردی کا ہی موسم جیسے ستم بنکر آتا ہے۔
سی ایچ ڈی (Centre for Holistic Development)نامی این جی او کے ذریعے جاری کئے گئےاعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال (مارچ سے لےکر جون تک) تقریباً ایک ہزار بےگھرلوگوں کی موت گرمی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ کئی غیر سرکاری تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ شہری علاقوں میں ٹھنڈ سے زیادہ گرمی میں بےگھرلوگوں کی موت ہوتی ہے۔ لیکن شاید ہمارا انتظامیہ اس پر زیادہ دھیان نہیں دیتا ہے۔جمنا پشتہ پر واقع ایک رین بسیرا کے ناظم نشو ترپاٹھی کہتے ہیں، ‘ سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ ٹھنڈ میں لگائے گئے ٹینٹ شیلٹروں کو اپریل کی شروعات میں ہی ہٹا دیا جاتا ہے۔ جس سے رین بسیروں کی تعداد میں بھاری کمی آ جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی بےگھرلوگوں کو باہر سڑک پر سونا پڑتا ہے۔ ٹن کے بنے پورٹا کیبنوں کی دیواریں اتنی گرم ہو جاتی ہیں کہ لوگوں کو اس میں بھی رہنے میں دقت آتی ہے۔ ٹھنڈ میں جہاں ہر رین بسیروں میں باقاعدگی سے ڈاکٹروں کے وزٹ کرنے کے اصول بنائے جاتے ہیں وہیں گرمیوں میں ایسا کوئی اصول دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ‘
یعنی اگلے کچھ مہینے میں پڑنے والی خوفناک گرمی کے لئے ہماری حکومتیں بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔ پناہ گاہ جیسے ڈھانچے موجودہ وقت میں صرف چاردیواری بن کر رہ گئے ہیں۔ بےگھرلوگوں کے متعلق حکومت کی سرگرمی صرف شدید سردی کے موسم میں ہی نظر آتی ہے۔ وہیں گرمیوں میں ان کا نا تو کوئی خاص انتظام کیا جاتا ہے اور نا ہی ان پر کوئی دھیان دیتا ہے۔ گرمی کے موسم میں ان کی کتنی افادیت ہے، اس کا نہ تو ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا جاتا ہے، نہ انتظام کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی اور سطح کی سرگرمی ہوتی ہے۔
رین بسیروں کو لےکر سب سے زیادہ سرگرمی شدید ٹھنڈ کے موسم میں ہی نظر آتی ہے۔ جب ان کا ایک یا دو دورے میں اچانک معائنہ ہوتا ہے، کورٹ ان کے لئے ہدایت جاری کرتی ہے، این جی او کے لوگ ایڈوکیسی کرتے ہیں۔لیکن اس دوران بھی ان کے کیا حالات ہوتے ہیں اس کی جانچ کرنے کے لئے ہم نے دسمبر اور جنوری مہینے میں دلی شہر کے کئی رین بسیروں کا دورہ کیا۔ ان کے حالات کچھ یوں تھے۔
31 دسمبر کی رات ساڑھے 11 بجےدرجۂ حرارت گرتے ہی جمنا پشتہ کا یہ علاقہ کہرے کی دھند میں غائب ہو جاتا ہے۔ جیسےجیسے رات ڈھلنے لگتی ہے، یہاں موجود تمام پورٹا کیبن اور عارضی ٹن شیلٹروں میں کھچاکھچ لوگ بھرنے لگتے ہیں۔ جن شیلٹروں میں لوگوں کے سونے کی صلاحیت 150 ہےوہاں 200 سے بھی زیادہ لوگ سو رہے ہیں۔ آپ کو بتا دیں کہ جمنا پشتہ کے اس علاقے میں کوئی بھی مستقل (یعنی پکا)رین بسیرا نہیں ہے۔رات ساڑھے تین بجے کے آس پاس وہاں واقع آخری ٹینٹ شیلٹر سے تھوڑا آگے بڑھنے پر ایک خوفناک منظر سامنے دیکھنے کو ملتا ہے۔ پلاسٹک کی بوری اور دھول سے سنے کمبل میں خود کو لپیٹے کئی لوگ جمنا ندی کے کنارے واقع پانی کی سیمنٹیڈ پائپ کے نیچے سو رہے ہیں۔ درخت ،پتوں اور پائپ پر جمعی شبنم کی ٹھنڈی بوندیں ان کی پلاسٹک کی بوری پر ٹپک رہی ہیں۔
وہیں پائپ کے نیچے سو رہے انل نام کے ایک شخص سے ہماری بات چیت ہوئی۔ جلپائی گڑی، بنگال کے انل 45 سال کے ہیں۔ دلی آئے ہوئے تقریبا ایک سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ گزشتہ تین مہینے سے بےروزگار ہیں، اس کے پہلے وہ شادی پارٹیوں میں کام کیا کرتے تھے۔یہ پوچھنے پر کہ وہ رین بسیرےمیں جاکر کیوں نہیں سوتے، انل کہتے ہیں، ‘ رین بسیروں میں کافی جگہ نہیں ہوتی۔ چھوٹی چھوٹی بات پر لڑائی جھگڑا ہونا وہاں کے لئے عام بات ہے۔ یہاں جگہ بھی ہے اور امن بھی۔ دن بھر ہراساں ہونے کے بعد اتنی ہمت نہیں بچتی کہ جگہ کے لئے وہاں کے لوگوں سے بحث کروں۔ ‘
یہ مسئلہ صرف انل کا نہیں بلکہ جمنا ندی کے کنارے سو رہے زیادہ تر بےگھرلوگوں کا ہے۔ قریب 250 سے 300 لوگ یہاں کھلے میں سوتے ہیں۔ ٹھنڈ کا قہر اس قدر ہے کہ وہاں سوئے لوگ جسم میں حرارت کے لئے کتوں کا سہارا لینے کو مجبور ہیں۔گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل شہر کے الگ الگ علاقوں میں واقع رین بسیروں کی حالت کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات تو صاف ہو گئی کہ چاہے وہ نئی دلی ریلوے اسٹیشن سے 100 میٹر کی دوری پر واقع اجمیری گیٹ کا رین بسیررا ہو یا (فاؤنٹین چوک) چاندنی چوک کا رین بسیرا۔ ہرجگہ بے گھر لوگوں کی بھیڑ تو ہے لیکن پکے رین بسیروں کا سہارا نہیں ہے۔
سنہ 2011 کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق دلی میں 46724 بے گھر لوگ رہتے ہیں۔ وہیں ڈوسب یا ڈی یوایس آئی بی (Delhi Urban Shelter Improvement Board)کے ذریعے 2014 میں کئے گئے سروے کے مطابق دلی میں صرف 16760 بے گھرلوگ ہیں۔دلی حکومت ڈی یو ایس آئی بی کے ذریعے بتائے گئے اس اعداد و شمار پر ہی اعتماد کرتے ہوئے بےگھرلوگوں کے لئے اسکیمیں بناتی ہے۔ ان عداد و شمار کی سچائی جاننے کے لئے جب ہم نے ڈی یوایس آئی بیکے ایک افسر سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ دلی میں بےگھرلوگوں کی آبادی پر ہائی کورٹ میں اپیل ہوئی تھی جس میں کورٹ نے بھی ڈی یو ایس آئی بی کے ذریعے 2014 میں کرائے گئے سروے کو صحیح مانا۔
وہی سماجی کار کن سنیل الیڈیا کے مطابق سماجک سویدھا سنگم (Samajik Suvidha Sangam)کے تحت دلی حکومت کے ذریعے 2013 میں کئے گئے سروے کے مطابق 55 ہزار بے گھرلوگ ہیں۔بے گھر لوگوں کے تناسب سے رین بسیروں کی تعدادڈی یو ایس ائی بی کی تازہ رپورٹ کے مطابق شہر میں 257 رین بسیرے موجود ہیں۔ جن میں مستقل عمارت والےرین بسیرے کی تعداد 83 ہے، وہیں پورٹا کیبن (115) اور عارضی ٹینٹ شیلٹرو کی تعداد (58) ہے۔اس کے علاوہ ایک سبوے بھی ہے جس میں قریب 350 لوگ سو سکتے ہیں۔ وہیں کل 257 رین بسیروں میں 20534 لوگوں کے رہنے کا انتظام ہے۔
تو اگر ڈی یو ایس آئی بی کے ذریعے جاری کئے گئے بے گھر لوگوں کی تعداد کے تناسب سے رین بسیروں کی تعداد اور ان میں لوگوں کے رہنے کا انتظام دیکھیں تو دونوں ہی کافی نظر آتے ہیں۔پھر ایسا کیا ہے کہ لوگ اب بھی کھلے میں سونے کو مجبور ہیں، اسی کی وجہ جاننے کے لئے ہم نے پہلے ڈی یو ایس آئی بی کی سائٹ کو کھنگالا۔ ہماری جانچ میں ہم نے جو پایاوہ بےحد چونکانے والا تھا۔ڈی یو ایس آئی بی کی سائٹ پر رین بسیروں کی کل تعداد ان میں لوگوں کے رہنے کی صلاحیت، جگہ کی دستیابی وغیرہ تمام جانکاریاں دی ہوئی ہیں۔
ویب سائٹ پر دی ہوئی 253 رین بسیروں کی لسٹ میں سب سے پہلے نائٹ شیلٹر (NS Code-1) پر اگر ہم نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ 150 لوگوں کی صلاحیت والے اس شیلٹر کا رقبہ 3299.23 اسکوائر فٹ ہے وہیں اس سے دگنی یعنی 310 لوگوں کی صلاحیت والے دوسرے نائٹ شیلٹر بھی 3299 اسکوائر فٹ کا ہی ہے۔ کہیں 4522 اسکوائر فٹ والے رین بسیروں میں 300 لوگوں کے رہنے کی صلاحیت دکھائی گئی ہے تو کہیں 755.22 اسکوائر فٹ میں 450 لوگوں کی۔لوگوں کے رہنے کی صلاحیت اور مختص جگہ کا الٹ پھیر صرف مستقل نائٹ شیلٹروں میں نہیں ہے، بلکہ پورٹا کیبن اور ٹینٹ شیلٹروں میں بھی ہے۔ جہاں ایک طرف 914 اسکوائر فٹ والے پورٹا کیبن میں 50 لوگ رہ رہے ہیں وہیں اتنے ہی رقبے میں بنا جمنا پشتہ واقع پورٹا کیبن رین بسیروں میں 225 لوگوں کے رہنے کی صلاحیت بتائی گئی ہے۔
مطلب شیلٹروں میں کم جگہ ہونے کے باوجود ڈی یو ایس آئی بی نے لوگوں کے رہنے کی صلاحیت کو بنا کسی پیمانے کے بڑھاچڑھاکر لکھ دیا ہے۔ڈی اے وائی-این یو ایل ایم(Deendayal Antyodaya Yojana-National Urban Livelihoods Mission) ‘اسکیم آف شیلٹرس فور اربن ہوم لیس ‘(Scheme of Shelters for Urban Homeless)، کی ہدایت کے مطابق ایک آدمی کو سونے کے لئے 50 اسکوائر فٹ کی جگہ چاہیے۔مگر ڈی یو ایس آئی بی کی سائٹ کے حساب سے جمنا بازار، ہنومان مندر فلائی اوور واقع ٹینٹ شیلٹر میں سونے والے ایک آدمی کو ڈھنگ سے 2 اسکوائر فٹ کی جگہ بھی نصیب نہیں ہو رہی ہے۔یہاں تک کہ ڈزاسٹر مینجمنٹ(Disaster Management)کی ہدایت کے مطابق آفت کے وقت بھی لوگوں کو سونے کے لئے کم سے کم 37 اسکوائر فٹ کی جگہ ملنی چاہیے۔ تو پھر کیا دلی میں آفت سے بھی سنگین حالت پیدا ہو چکی ہے؟
اس کو لےکر ڈی یو ایس آئی بی کے افسر نے بتایا کہ سینٹرل دلی کے کچھ علاقے جیسے کشمیری گیٹ اور اجمیری گیٹ میں لوگوں کی آمد ورفت بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہاں ڈی ڈی اے کے ذریعے کافی زمین نہ ملنے کی وجہ سے مناسب رین بسیرا بنانے میں دقت آتی ہے۔غور طلب ہے کہ ڈی یو ایس آئی بی ایک انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ ہے جس کے اوپر رین بسیروں کی دیکھ ریکھ اور انتظام کی ذمہ داری ہے۔
شہر کے الگ الگ رین بسیروں کا حال جاننے کے بعد ہمیں دلی حکومت کے ذریعے رین بسیروں میں بنیادی سہولیات جیسے بیت الخلا، صاف پینے کا پانی، کمبل، بستر وغیرہ کی دستیابی کے یہ دعوے بھی کھوکھلے نظر آئے۔ ڈی اے وائی-این یو ایل ایم’اسکیم آف شیلٹرس فور اربن ہوم لیس’، کی ہی ہدایت کے مطابق رین بسیرے میں رہنے والے فی دس آدمی پر ایک بیت الخلا کا انتظام ہونا چاہیے۔مگر دلی ریلوے اسٹیشن سے 100 میٹر کی دوری پر واقع اجمیری گیٹ رین بسیرے میں رہ رہے 500-400لوگوں پر صرف 3 بیت الخلا اور 2 باتھ روم ہی دستیاب ہیں۔ جبکہ اصول کے مطابق وہاں 50-40بیت الخلا کا انتظام ہونا چاہیے تھا۔
وہاں کے کیئرٹیکروکی کے بتاتے ہیں، ‘بیت الخلا کی کمی کی وجہ سے یہاں رہنے والے لوگوں کو بہت دقت ہوتی ہے۔ صبح صبح لمبی لائن لگ جاتی ہے۔ لوگوں کی قطار اتنی لمبی ہوتی ہے کہ کچھ لوگ کھلے میں جانے کو مجبور ہو جاتے ہیں۔’وہاں سے تھوڑی ہی دور پر واقع ہمت گڑھ چوک رین بسیرا میں گزشتہ آٹھ مہینے سے رہ رہے رکشہ ڈرائیور سلمان وہاں کے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ‘ میں جب یہاں آیا تھا تو بیت الخلا کی سہولت مفت تھی۔ لیکن پچھلے دو مہینے سے حکومت بیت الخلا استعمال کرنے کے بھی پیسے لے رہی ہے۔ بیت الخلا کے نام پر حکومت نے تین پلاسٹک کے ڈبے تو باہر کھڑے کر دئے ہیں۔ مگر اس میں نہانے اور دھونے کا انتظام نہیں ہے۔’ جن کے لئے دن کے 100 روپے کمانا بھی مشکل ہے ان لوگوں کو نہانے سے لےکر کپڑے دھونے کے لئے الگ سے پیسے دینے پڑتے ہیں۔
رین بسیروں میں لوگوں کے نہیں سونے کی ایک بڑی وجہ ہے وہاں کی صاف صفائی میں کمی۔ زیادہ تر رین بسیرے ایسی جگہ پر بنے ہیں جہاں گندگی بہت ہے۔ یہاں رات گزارنا کسی مصیبت سے کم نہیں۔موتیاخان واقع فیملیاور مرد مستقل رین بسررا اس کی مناسب مثال ہے۔ اس کے داخلہ دروازے پر ہی کچرے کا انبار لگا ہے۔پاخانہ پیشاب سے گندی پڑی دیواروں پر بلیچنگ پاؤڈر کا چھڑکاؤ تو ہےلیکن بدبو اب بھی برقرار ہے۔ اندر کی حالت بھی الگ نہیں ہے۔ شیلٹر کے فرش اور سیڑھیوں پر گندگی، میل کی تہہ اس قدر جمی ہے کہ دیکھکے ایسا لگتا ہے جیسے کئی مہینوں سے صاف صفائی نہیں ہوئی۔
الگ الگ رین بسیروں میں رہنے والے لوگوں سے ہوئی بات چیت میں یہ بات سامنے آئی کہ شیلٹر کی ہر روز صفائی تو دور کی بات ہےلوگوں کے ذریعے استعمال کی جا رہی دری اور کمبل بھی باقاعدگی سے صاف نہیں ہوتے۔وہیں کچھ رین بسیروں کے باہر بیت الخلا کے پلاسٹک کے ڈبے رکھ دئے گئے ہیں جو گندگی اور بیماریوں کی ایک بڑی وجہ بن جاتے ہیں۔نائٹ شیلٹر میں ڈاکٹر باقاعدگی سے آتے ہیں یا نہیں، اس کی تفتیش کے لئے وہاں کے وجٹر رجسٹر کو کھنگالا گیا۔ جس سے پتا لگا کہ روسانارا روڈ، سرائے پھوش، رےگھڑپرا، کھاریان محلہ وغیرہ واقع رین بسیروں میں پچھلے کئی دنوں، مہینوں سے ڈاکٹر نہیں آئے ہیں۔شروعاتی علاج کے نام پر رےگھڑپرا اور کھیریان محلہ وغیرہ میں واقع رین بسیروں کے فرسٹ ایڈ باکس میں اکسپائرڈ دوائیاں رکھی ہیں۔
وہیں سرائے کالےخاں واقع نائٹ شیلٹر وں میں دوائی کا کافی اسٹاک نہیں ہے۔ فرسٹ ایڈ میں بخار کی دوا بھی نہیں ملتی۔ کہیں کہیں محلہ کلینک کا انتظام ہے بھی تو وہ صبح 8 بجے سے دوپہر 2 بجے تک ہی کھلی رہتی ہے۔حکومت نے ٹھنڈ میں رین بسیروں میں رہ رہے لوگوں کے لئے ایک ‘ موبائل ہیلتھ اسکیم ‘ بھی چلائی تھی۔ جو فی الحال صرف کاغذات پر ہی چل رہی ہے۔ڈی یو ایس آئی بی کی سائٹ پر اس اسکیم کا نام تو لکھا ہے مگر اس کی تعمیل کی جانکاری دستیاب نہیں ہے۔بقول میڈیکل آفیسر سشیل مائکل، ‘ساوتھ جون کے نائٹ شیلٹروں میں ڈاکٹر کو بھیجے جانے کے لئے فی الحال وین کی کمی ہے۔ جو کہ کچھ دنوں میں پوری ہونے کی امید ہے۔ ‘
بہار کے پورنیہ ضلع سے آئے رکشہ ڈرائیور عبداللہ کے رین بسیروں میں نہیں سونے کی اپنی وجہ ہے۔ رین بسیروں کے باہر سے رکشہ چوری ہو جانے کا ڈر رہتا ہے۔کوڑے چننے والے بھی اسی لئے شیلٹر میں نہیں سو پاتے کیونکہ وہاں ان کی بوریوں کو رکھنے کی کافی جگہ نہیں ہوتی۔ عبداللہ اور ان کے ہی جیسے دیگر لوگ رکشہ پر یا سڑک کنارے، کوڑے کے بغل میں اپنی رات کاٹنے کو مجبور ہیں۔
مو نرکافلائی اوور کے نیچے رہ رہے اقبال کی فیملی والے بھی رین بسیروں کی جگہ سڑک پر سونا ٹھیک سمجھتے ہیں۔ شہر میں فیملی رین بسیروں کی بہت کمی ہے۔ کچھ ہیں بھی تو وہاں پرائویسی جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔اس لئے فیملی کے ساتھ رہنے کے لئے لوگ سڑک پر سونے کو مجبور ہیں۔ جبکہ اصول کے مطابق فیملی رین بسیروں میں پرائویسی کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ کئی دنوں تک رین بسیروں میں رہ چکے رمیش کہتے ہیں ،روز روز کے جھگڑے،مارپیٹ، سہولیات کی کمی، کیئر ٹیکر کا سخت رویہ، چوری اور وہاں کی گندگی نے مجھے جھگی جھوپڑی میں رہنے کو مجبور کر دیا۔ آج میں یہاں ساڑھے تین ہزار روپیہ مہینہ کرایا دےکر رہتا ہوں۔ جبکہ رین بسیروں میں یہ سہولت مفت تھی۔ مہینے کے جو 9000 کماتا ہوں، اس کا ایک بڑا حصہ کرایہ میں چلا جاتا ہے۔ لیکن کیا کروں رین بسیروں کی حالت دیکھ میری وہاں رہنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
شہر کے کئی رین بسیرے ایسے بھی ہیں جہاں ساری سہولیات موجود تو ہیں لیکن وہ ایسی جگہ بنا دئے گئے ہیں کہ لوگوں کو اس کی جانکاری ہی نہیں ہے۔200 سے 300 لوگوں کے سونے کی صلاحیت والے شیلٹروں میں 20 سے 30 لوگ ہی رہ رہے ہیں۔ جو رین بسیرے اچھی سوسائٹی میں بنے ہیں وہاں رہ رہے سوسائٹی کے دیگر لوگ ہی بےگھرلوگوں کو اپنے محلے میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ مثال کے طور پر روسنارا روڈ، کھاریان محلہ وغیرہ رین بسیرے موجود ہیں۔
بنگلہ صاحب واقع رین بسیرے میں رہنے والی کرن کی دس سالہ بیٹی کو وہیں رہنے والے رتک نام کے ایک شخص نے زبردستی چومنے کی کوشش کی۔ جب اس بات کا پتا کرن کو چلا تو اس نے اس پر اعتراض کیا جس کے بعد رتک اور اس کے دوستوں نے ملکر ان پر ظلم کیا۔وہیں رہنے والی وندنا کے ساتھ تو اس سے بھی برا ہوا تھا۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہے، میں نے رات میں کچھ لڑکوں کو یہی رین بسیروں کے احاطہ میں ایک لڑکی کے ساتھ زبردستی کرتے دیکھا۔ اس رات میں نے ان غنڈہ سے اس کو بچا تو لیا، مگر تھانے میں شکایت کرنے کی یہ قیمت مجھے چکانی پڑےگی اس کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔ وہ لڑکے اس رات تو بھاگ گئے لیکن اگلے ہی دن انہوں نے میری بری طرح پٹائی کی۔
کچھ دنوں بعد وہ پھر آئے۔ اس بار12-10 کی تعداد میں۔ دیکھکر ہی لگ رہا ہو جیسے جان سے مارنے کے ارادے سے آئے ہوں۔ لوہے کے راڈ اور ڈنڈے سے انہوں نے اسی احاطہ میں سب کے سامنے مجھے پیٹا۔ میں ادھ مری حالت میں ہو چکی تھی پر وہاں کھڑے لوگوں میں سے کسی نے چوں تک نہیں کی۔ 15 دن رام منوہر ہسپتال میں بھرتی رہی۔ زخم ایسے تھے کہ اندر چار انگلیاں گھس سکتی تھی۔ پورے 8 بوتل خون اور 12 ٹانکے لگے تھے۔اس بیچ وومن کمیشن والے آئے تھے، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ابھی بھی وہ لڑکے اس شیلٹر میں آگ لگانے کی دھمکی دے گئے ہیں، جہاں میں کام کرتی ہوں۔
ایک ہی احاطے میں بنا بنگلہ صاحب کا مرد اور خاتون رین بسیروں میں اس کےپہلے بھی ایک 6 سالہ بچی کے ساتھ ریپ کی واردات سامنے آئی تھی۔رین بسیروں میں سونے والی عورتوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ اورر یپ کی خبریں اکثر میڈیا میں آتی رہتی ہے۔ 2016 میں ہی ہندوستان ٹائمس کی ایک رپورٹ میں ڈی یو ایس آئی بی کے ہیڈ وی کے جین نے یہ مانا تھا کہ خاتون رین بسیروں میں حفاظتی انتظام کی بھاری کمی ہے۔ جس کے بعد انہوں نے شیلٹروں میں سی سی ٹی وی کیمرے، 4کیئر ٹیکر کی تقرری، حفاظت گارڈ، ایک دن میں کم سے کم تین دفعہ پولیس کانسٹیبل کا عورتوں کی شکایتں سننے کے لئے دورہ کرنا جیسے تمام وعدے کئے تھے۔
لیکن نہ ان 19 کے 19 رین بسیروں میں 4کیئر ٹیکر رکھے گئے اور نہ ہی باقاعدہ طور پر پولیس کانسٹیبل کا دورہ ہوا۔ خانہ پری کے لئے سی سی ٹی وی کیمرےعموماً تمام شیلٹروں میں لگا دئے گئے۔اس مدعے پر جب ہم نے ڈی یو ایس آئی بی کے ایگزیکیٹوافسر بہادر سنگھ سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق شہر میں 9240 بے گھر خواتین ہیں۔ جبکہ 2014 میں ڈی یو ایس آئی بی کے ذریعے کئے سروے کےمطابق ان کی تعداد 900 کے قریب ہے۔بے گھر خواتین کی تعداد کے تناسب دہلی میں 7 پکّے اور 12 پورٹا کےبن رین بسیرے موجود ہیں۔ ڈی یو ایس آئی بی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ان 19 رین بسیروں میں 1244 خواتین کے رہنے کی صلاحیت ہے۔ جبکہ ان میں 24944.42 اسکوائر فٹ کی ہی جگہ ہے۔ اگر این یو ایل ایم کی گائڈلائن کی مانے تو ہرخاتون کو سونے کے لئے کم سے کم 50 اسکوائر فٹ جگہ ملنی چاہیے۔ ایسے میں 1244 خواتین کے لئے 62200 اسکوائر فٹ جگہ ہونی چاہیے۔ اب ڈی یو ایس آئی بی 500 لوگوں کے رہنے کی ہی صلاحیت والے ان 19 رین بسیروں میں 1244 خواتین کے رہنے کی صلاحیت کس بنیاد پر بتا رہا ہے، یہ تعجب کی بات ہے۔
رین بسیروں کی کمی اور وہاں ہونے والی پریشانیوں اور عدم تحفظ کی وجہ سے خواتین سڑک کنارے سونے کو مجبور ہیں، مگر وہاں کی حالت بھی الگ نہیں ہے۔‘ وہ کہتی ہیں، ہماری بچّی کو دوسروں ملکوں میں بیچ دیا ہے۔ دو سال کی ہی تو تھی۔ یہی سڑک کنارے سے رات کے قریب ایک دو بجے کوئی چراکے لے گیا میری ناتن کو۔ اکلوتی بچّی تھی وہ میری بیٹی کی۔ ہم نے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈااس کو۔ کچھ ہاتھ نہیں لگا، سوائے اس کے کپڑوں کے جو اس نے اس رات پہن رکھے تھے۔ اگلے دن ان کپڑوں کو کوئی یہاں پھینک گیا تھا۔ آج قریب تین سال ہو گئے، اس کو لاپتہ ہوئے۔ ہائی کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے۔ نکّمی پولیس کہتی ہے، تمہاری بچّی کو انہوں نے دوسرے ملک میں بیچ دیا ہے۔ ارے! تو ان کو ڈھونڈ کر لاؤ نا۔70سال کی بسنتی یہ کہتےکہتے رو پڑتی ہیں۔ قریب دو دہائیوں سے اربندو مارگ کی سڑک کنارے رہ رہے اس فیملی کا درد سننے والا کوئی نہیں۔
بسنتی کی بہو گیتا بتاتی ہیں؛سڑک کنارے سونا ہماری مجبوری ہے اسی لئے میں نے اپنی بیٹی کو ننیہال بھیج دیا۔ رین بسیروں میں رہ نہیں سکتے کیونکہ شوہربچّے ساتھ میں رہتے ہیں۔وہیں بنگلہ صاحب رین بسیروں کے باہر سڑک کنارے سونے والی سنجنا کے لئے ریہڑی پٹری زیادہ محفوظ ہے۔وہ کہتی ہیں، ‘ ویسے تو انہونی کو کوئی نہیں روک سکتا مگر رین بسیروں میں چھیڑخانی اور ریپ جیسے واقعات کو آسانی سے انجام دے دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنی بچّیوں کے ساتھ باہر سوتی ہوں۔ ‘ مگر ٹھنڈ میں کھلے سڑک پر سونے کی وجہ سے ہرسال قریب ہزاردو ہزار بےگھروں کی موت ہو جاتی ہے۔
ٹھنڈ کے موسم کی شروعات سے ہی بےگھروں کی موت کا اعداد و شمار لگاتار بڑھنے لگتا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر تک 253 بے گھر لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ وہیں اس سال اب تک قریب 44 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔اس سلسلے میں جب ڈی یو ایس آئی بی کے افسر بپن رائے سے بات کی تو انہوں نے کہا، ‘ میڈیا غلط اعداد و شمار دکھا رہی ہے۔ ان کی منشا اعداد و شمار کو لےکے سیاست کرنا ہے۔ 44 لوگوں میں سے 10 لوگ تو نشے کےاورڈوز سے مرے ہیں۔ اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ ‘
حکومت یہ کہہکر اپنا پلا جھاڑ لیتی ہے کہ باہر سونے والے لوگوں کی موت ٹھنڈ سے نہیں بلکہ نشے کے اورڈوز سے ہوتی ہے۔ مگر کیا شہر میں چلائے جا رہے نشہ مکت کنیدر اس کے لیے کافی ہیں؟آپ کو بتا دیں کہ فی الحال ڈی یو ایس آئی بی کے ذریعے صرف 4 نشہ مکت کیندرچلائے جاتے ہیں۔ ایسے میں لوگوں کی اس حالت کی ذمہ دار کیا حکومت نہیں ہے؟
بےگھرلوگوں کے حق کے لئے کام کر رہی ‘ سینٹر فار ہالسٹک ڈیولپمنٹ ‘ کے ڈائریکٹر سنیل کمار آلیڈیاکہتے ہیں، ‘ دہلی اسمبلی سیشن میں دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے ایک بار کہا تھا کہ کسی بھی شخص کی موت اگر بھوک یا نشے سے ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ پھر اس کی ذمہ داری وہ کیوں نہیں اٹھاتے۔ ‘
رین بسیروں کی تعداد اور ان کا ایڈمنسٹریشن اگر اطمینان بخش ہوتا، تو ایسی حالت ہی نہیں پیدا ہوتی۔ رین بسیروں کو این جی او چلاتی ہے اور یہ ٹنڈر کے ذریعے طے ہوتا ہے۔دلی میں چلنے والے رین بسیرا کے ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری این جی او کو دی جاتی ہے۔ موجودہ وقت میں کچھ رین بسیرے کا ایڈمنسٹریشن پینل سسٹم کے ذریعے کیا جا رہا ہے تو کچھ کا ٹنڈر کے تحت۔ 2015میں بنے پینل سسٹم میں اس وقت کے کم از کم تنخواہ کے حساب سے 45 ہزار روپے ہررین بسیراکودیا جا رہا ہے۔ اس میں 3 کیئرٹیکراور ایک صفائی ملازم کی تنخواہ کے ساتھ ہی رین بسیرے پر آنے والے غیر متوقع خرچ کو بھی جوڑا گیا ہے۔
فروری 2017 کے بعد دہلی میں ملازمین کو ملنے والی تنخواہ میں 37 فیصدی اضافہ کے باوجود پچھلے ایک سال میں ڈی یو ایس آئی بی نے رین بسیروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہ میں ایک فیصد کا بھی اضافہ نہیں کیا ہے۔پینل سسٹم کے تحت رین بسیرے کا ایڈمنسٹریشن کرنے والے کچھ این جی او کے مالکوں نے بتایا، ‘ ویسے تو مارچ 2017 میں ہی دہلی حکومت نے بڑھے ہوئے تنخواہ کا سرکلر جاری کر دیا تھا لیکن ڈی یو ایس آئی بی کے ذریعے دسمبر تک کوئی بھی ادائیگی نہیں کی گئی۔ جس سے ہمیں رین بسیرے کے خرچ کو خود سے اٹھانا پڑا۔ 9 مہینے بعد جب ڈوسب نے پیسے دئے تو نئے کم از کم تنخواہ کے مطابق کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا۔ ‘
اس کی وجہ جاننے کے لئے جب ہم نے ڈی یو ایس آئی بی کے افسر سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا، ‘ این جی او کو جلد ہی پیسے دئے جائیںگے۔ ابھی کچھ فائل اٹکی ہوئی ہے جلدہی ان کا حل نکلےگا۔’ڈی یو ایس آئی بی کے ذریعے پیسے نہیں ملنے کی وجہ سے جہاں تین کیئرٹیکر کی جگہ وہ 2 کو ہی رکھکے کسی طرح سے کام چلا رہے ہیں۔ تقریباً ایک سال سے اٹکی فائلوں کی نکاسی کب تک ہوگی اور کب جاکے رین بسیروں میں کام کرنے والوں کی تنخواہ میں اضافہ ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتائےگا۔ڈی یو ایس آئی بی نے رین بسیراکے ایڈمنسٹریشن میں آئی دقتوں کا حل ٹنڈر کے تحت نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے تحت جو این جی او سب سے زیادہ بولی لگائےگی یعنی جو این جی او سب سے کم روپے میں رکھ رکھاؤ کی ذمہ داری لےگی اس کو ہی رین بسیرے کی ذمہ داری ملے گی۔
رین بسیرے کے لئے کام کرنے والے این جی او اس عمل کو لےکر متذبذب ہے۔ مہیلا پرگتی کی اور نامی این جی او چلانے والی اوشا نشچل کا ماننا ہے کہ پینل سسٹم ہی سب سے مناسب ہے جس میں حکومت رین بسیرے کے ملازمین کو کم ازکم تنخواہ کے تحت کافی بجٹ مہیّا کرائے۔ وہیں ٹنڈڑ نظام نافذ کرنے سے ملازمین کو کم از کم تنخواہ دینے اور رین بسیرا کو صحیح طور چلانے میں مشکلیں در پیش ہیں ۔
(مضمون نگار آئی آئی ایم سی میں پڑھتے ہیں۔)