پشتو زبان کے بی اے فائنل کے طلبا کا الزام ہے کہ پراسپیکٹس میں 5 سال کا انٹیگریٹیڈ (Integrated)کورس بتایا گیا تھا لیکن اب انتظامیہ ایم اے میں 19-2018 کے سیشن کے بجائے اگلے سیشن میں داخلہ دینے کی بات کہہ رہا ہے۔
نئی دہلی: سال 2015 میں پہلی بار ملک میں پشتو زبان میں ڈگری کا کورس جواہرلال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں شروع کیا گیا۔ یہ ایک 5 سال کا انٹیگریٹیڈ(Integrated)کورس تھا، جس میں بی اے کرنے کے بعد طےشدہ اہلیت پوری کرنے کے بعد بنا کسی دوسرے داخلہ امتحان کے ایم اے میں داخلہ ملنے کی بات کہی گئی تھی۔یونیورسٹی کے ذریعے دیے پراسپیکٹس میں بھی ایسا کہا گیا تھا۔ اب جب مئی 2018 میں اس پہلے بیچ کا بی اے پورا ہونے والا ہے تو اس کورس کے طالبات نے الزام لگایا ہے کہ انتظامیہ نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے، جس کی وجہ سے پڑھائی کے لحاظ سے ان کا ایک سال برباد ہونے والا ہے۔
اسکول آف لینگویج، لٹریچر اور کلچر اسٹڈیز (SLL&CS)کے سینٹر فار پرشیئن اینڈ سینٹرل ایشین اسٹڈیز(Centre for Persian and Central Asian Studies)کے اس تین سال کے پشتو کورس میں بی اے کے آخری سال میں ایک افغانی طالب علم سمیت 16 طلبہ ہیں۔انتظامیہ کے ذریعے اب طالب علموں کو ایم اے میں داخلہ کے لئے سیشن 19-2018 کی بجائے 20-2019 کے سیشن میں داخلہ دینے کی بات کہی گئی ہے۔طالب علموں کا الزام یہ ہے کہ انتظامیہ نے ان کا ایک سال خطرے میں ڈال دیا ہے اور شکایت پر جواب بھی نہیں دے رہے ہیں۔
نام نہ بتانے کی شرط پر اس کورس کی ایک طالبہ نے بتایا، ‘ ہم اس کورس کے پہلے طالب علم ہیں صرف جے این یو میں نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں۔ ہمیں جب 2015 میں داخلہ دیا گیا تھا تب پراسپیکٹس میں لکھا گیا تھا کہ یہ کورس پانچ سال کا ہے اور بی اے ختم ہوتے ہی بغیر داخلہ امتحان کے ایم اے میں داخلہ دے دیا جائےگا۔لیکن اب انتظامیہ کہہ رہا ہے کہ ہمیں20-2019 کے سیشن میں داخلہ ملےگا۔ ہمارا بی اے مئی 2018 میں ختم ہو جائےگا اور اصول کے مطابق ہمیں اسی سال ایم اے میں داخلہ مل جانا چاہیے تھا۔اب داخلہ اگر 20-2019 میں ملےگا تو ہم ایک سال کریںگے کیا؟ پشتو زبان جے این یو کے علاوہ افغانستان میں پڑھائی جاتی ہے۔ ہمارا ایک سال برباد ہونے والا ہے۔ ‘
طلبا یونیورسٹی کے ریکٹر چنتامنی مہاپاترا کے رویے پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ طالب علموں نے بتایا، ‘ ہم نے جب اپنا مسئلہ ریکٹر کو بتایا تو ان کا جواب مضحکہ خیز تھا۔انہوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں نے کوئی دوسرا آپشن نہیں رکھا کہ آپ کو داخلہ نہیں ملا تو کیا کروگے۔بیک اپ رکھنا چاہیے تھا۔اب بتائیے جب ہمارا پانچ سال کا کورس ہے تو ہم بیک اپ کیوں بنائیں؟ ہم ملک کے پہلے پشتو زبان کے طالب علم ہیں اور ہمیں لگا کہ ہمارا مستقبل روشن ہوگالیکن اب ہم بہت بڑی مشکل میں پڑ گئے ہیں۔ ‘
کورس کی متعین تاریخ بڑھانے کے علاوہ طلبا کو مئی مہینے میں ہاسٹل خالی کرنے کا بھی فرمان دیا گیا ہے۔اس بارے میں ایک طالب علم نے بتایا، ‘ اب ایک سال تو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہہ دیا ہے کہ مئی میں ہاسٹل خالی کرنا پڑےگا۔اب ان کی غلطی کے چلتے ہمیں ہاسٹل سے بےدخل ہونا ہوگا۔’ پشتو کے ان طالب علموں کی مدد کر رہے جے این یو کے ریسرچ اسکالر اوم پرساد بتاتے ہیں، ‘ یہ کسی بھی ادارے کا اصول ہے کہ جب داخلہ کے وقت پراسپیکٹس میں جو بات لکھی گئی ہے وہ پورے کورس میں نافذ ہوگی۔یہ ایک معاہدہ ہوتا ہے طالب علموں اور ادارے کے درمیان۔اب جب ادارہ اس معاہدہ کی خلاف ورزی کر رہا ہےتو اس کا خمیازہ طالب علم کیوں بھگتیں؟ ‘
اوم آگے بتاتے ہیں، ’15 نومبر 2017 کو اسٹڈیز بورڈ کی ایک بیٹھک میں یہ طے ہو گیا تھا کہ کورس شروع کیا جائےگا اور اس تجویز کو اکیڈمک کاؤنسل کو بھیجا جائےگا اور وہ کمیٹی اس پر مہر لگائےگی۔اب کاؤنسل کی ذمہ داری تھی کہ اجلاس میں اس کو پاس کر کورس کو آگے بڑھنا چاہیےلیکن وی سی نے اسی اجلاس میں اس معاملے کو نظرانداز کر حاضری والے معاملے کو پاس کر دیا۔اب یہ طالب علم کیا کریں؟یہ ادارے کی ذمہ داری ہے کہ ان کا ایک سال برباد نہ ہو۔’ انہوں نے مزید کہا’انتظامیہ کے لوگ زبانی طور پر کلاس روم نہ ہونے کی دلیل دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ طالب علموں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔اب جب20-2019 میں داخلہ دیںگے تو اس وقت تو16-2015 کے ساتھ 17-2016کے طالب علم بھی ہوںگے، تب کہاں کہاں بیٹھیںگے؟ ‘
اسکول آف لینگویج کے ڈین سید عین الحسن نے طالب علموں کے الزام پر دی وائر کو بتایا، ‘ دیکھیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔طالب علموں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔جے این یو انتظامیہ ایم اے کورس کے لئے کام کر رہا ہے اور یہ معاملہ ابھی اکیڈمک کاؤنسل کے پاس ہے اور اس پر جلد فیصلہ لیا جانا ہے۔ہم تمام امکانات پر کام کر رہے ہیں۔ ‘
Categories: خبریں