تازہ ترین جانکاری کے مطابق اتل جوہری کو گرفتار کر لیا گیا تھا ،لیکن تھوڑی دیر بعد انہیں ضمانت بھی دےدی گئی ہے۔اس خانہ پری کے بعد بھی سوال اپنی جگہ قائم ہیں کہ کیا اس طرح کی گرفتاری کے ساتھ جے این یو میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا؟
ملک کا تو پتہ نہیں لیکن جے این یو ضروربدل رہا ہے ۔وہ یوں کہ اب جے این یو آئے دن سرخیوں میں رہتا ہے۔دراصل موجودہ وائس چانسلرجگدیش کمار کی تقرری کے بعد ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن کو لے کر جے این یوخبروں میں رہا ہے۔سیٹ کٹ کرنے کا معاملہ ہو، یا GSCASHکی جگہICCلانے کی بات،نجیب کی گمشدگی ہو یا مختلف ڈپارمنٹس میں ٹیچروں کی تقرری کسی نہ کسی وجہ سے یہ معاملے جے این یو میں زیر بحث رہے ہیں اور وی سی جگدیش کمار کی تقرری کے بعد سے ہی ان پر مبینہ طور پر من مانی کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔
ان دنوں ایک بار پھر جے این یو سرخیوں میں ہےاور اس بار بھی کئی واقعات ہیں جن کو لے کر اسٹوڈنٹس اور ٹیچرس میں کافی غصہ ہے۔مینڈیٹری اٹینڈنس کے فیصلے کو واپس لینے، مبینہ طور پر جنسی استحصال کے ملزم اتل جوہری کو ان کے تمام عہدوں سے ہٹائے جانے اور ہاسٹل فیس میں اضافہ کے فیصلے کو واپس لیے جانے کی مانگوں کے ساتھ گزشتہ کئی دنوں سے جے این یو کے اسٹوڈنٹس مسلسل پروٹیسٹ کر رہے ہیں ، یونیورسٹی اسٹرائیک کر رہے ہیں۔ہاسٹل فیس میں مبینہ اضافے کو یونیورسٹی کے اس سرکلر سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کیسے طلبا کے بوجھ کو بڑھایا جا رہا ہے:
طلبا نہ صرف وی سی کے فیصلوں سے ناراض ہیں بلکہ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ہو وی سی کبھی ان سے بات کرنے باہر نہیں آتے۔ حالانکہ جے این یو کی تاریخ میں اسٹوڈنٹس اور وی سی کے درمیان بات چیت کا راستہ ہمیشہ سے کھلا رہا ہے جو اب موجودہ حالات میں تنگ ہوتانظر آ رہا ہے۔حال ہی میں اسکول آف لائف سائنس کی 9 طالبات نےمبینہ طورپروفیسر اتل جوہری پر جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے ۔معاملہ اس وقت سامنے آیا جب 10 مارچ کو اسکول آف لائف سائنس کی ایک طالبہ نے اتل جوہری کو بھیجے اپنے ایک ای میل میں ان کے کردرا پر انگلی اٹھاتے ہوئے لکھا کہ ان کو لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہےاوران کی لیب چھوڑنے کی بات بھی لکھی تھی۔مزید لکھتی ہیں:
I pray to god that your daughters should also face the same situation in every field of life than at least you realise a pain of a girl
اس ای میل کی کاپی طالبہ نے دیگر لوگوں کے ساتھ اسکول آف لائف سائنس کو بھی بھیجی تھی۔ اسی دن طالبہ کا ہاسٹل روم لاک پایا گیا۔دو دن بعد 12 مارچ کو طالبہ کے والدین نےاس سے کوئی رابطہ نہ ہونے پر پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی حالانکہ بعد میں طالبہ اپنے رشتے داروں کے گھر پائی گئی۔بعد میں 8 مختلف طالبہ نے بھی پروفیسر اتل جوہری کے خلاف جنسی استحصال کی شکایت درج کرائی۔ان کو انتطامیہ کے تمام اہم عہدوں سے ہٹائے جانے کی مانگ بھی کی ہے۔ اس کو لے کر مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔بسنت کنج پولیس اسٹیشن میں اتل جوہری کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی ہے۔تازہ ترین جانکاری کے مطابق اتل جوہری کو گرفتار کر لیا گیا تھا ،لیکن تھوڑی دیر بعد انہیں ضمانت بھی دےگئی ہے۔اس خانہ پری کے بعد بھی سوال اپنی جگہ قائم ہیں کہ کیا اس طرح کی گرفتاری کے ساتھ جے این یو میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا؟
Delhi's Patiala House Court grants bail to accused JNU Professor Atul Johri. pic.twitter.com/10pFVQpWxo
— ANI (@ANI) March 20, 2018
جے این یو اسٹوڈنٹس یونین نے گزشتہ سنیچر کو اس معاملے میں ڈی سی ڈبلیو(Delhi Commission for Women)کو مداخلت کرنے کے لیے کہا تھا۔واضح ہو کہ 7طالبہ کی شکایت کے بعدجمعرات کو لائف سائنس کے پروفیسر اتل جوہری کے خلاف جنسی استحصال کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔ اسٹوڈنٹس یونین کی مانگ ہے کہ اتل جوہری کو فوراًبرخاست کیا جائے۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ انتظامیہ اتل جوہری کو تحفظ دے رہی ہے۔JNUSUکا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی اس معاملے میں آئی سی سی (Internal Complaints Committee)کے ذریعے جانچ کرائے جانے کی بات، اس طرف صاف اشارہ ہے کہ انتظامیہ اتل جوہری کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
آئی سی سی پر طلبہ کا اعتماد کیوں نہیں ہے ،اس میں کیا خامیاں ہیں یہ جاننےکے لیے آپ یہ مضمون پڑھ سکتے ہیں۔ حالانکہ پروفیسر جوہری نےاپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات سے انکار کرتے ہوئے اسے اپنے خلاف سازش قرار دیا ہے۔مینڈیٹری اٹینڈنس پالیسی (لازمی حاضری)کو لے گزشتہ کئی دنوں سے جے این میں اسٹرائیک کے ساتھ مظاہرہ بھی ہو رہے ہیں۔ غور طلب ہے کہ مینڈیٹری اٹینڈنس کا پوری یونیورسٹی میں مخالفت کی جا رہی تھی JNUSUکے ساتھ JNUTAبھی اس کوتغلقی فرمان بتا کراس کی مخالفت کر رہے تھے۔ اسی معاملے میں گزشتہ دنوں 9 چیئر پرسن/ڈین کومبینہ طور پرہٹانے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔گزشتہ دنوں کمپلسری اٹینڈنس کے معاملے کو لے کر یونیورسٹی انتظامیہ نے مختلف اسکول کے 7 ڈین/ چیئر پرسن کوراتوں رات ہٹا دیا تھا۔ میڈیا میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ تعداد کہیں 9 ہے تو کہیں 8۔Scroll میں شائع ہوئے کویتا سنگھ (Kavita Singh)کے ایک مضمون کے مطابق یہ تعداد 9 ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ کویتا سنگھ جے این یو کے School of Arts and Aestheticsکی ڈین تھیں اور ان میں سے ایک ہیں جن کو حال ہی میں انتظامیہ کے ذریعے ہٹایا گیا ہے۔
یونیورسٹی میں طلبا کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو ہٹا کر جن کی تقرری ان عہدوں پر کی گئی ہے وہ اس عہدے کی بنیادی اہلیت بھی پوری نہیں کرتے یعنی جس شعبے کی کمان انھیں سونپی گئی ہے وہ اس سے غیر متعلق بھی ہیں اور مبینہ طور پر انتظامیہ کے قریبی بھی بتائے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فارسی شعبہ کے ڈین کو ایس اے اے(School of Arts and Aesthetics) کا ڈین بنا دیا گیا ہے جبکہ اسپینش کے استاد کو فرنچ اسٹڈیز کا شعبہ سونپا گیا ہے۔
گزشتہ روزشام کوجے این یو کے طلبہ و طالبات نے کیمپس سے وسنت کنج پولیس اسٹیشن تک ایک مارچ نکالا تھا اورمبینہ طور پر جنسی استحصال کے ملزم اتل جوہری کے خلاف ایکشن لیے جانے کی مانگ کو لے کر پولیس اسٹیشن کے سامنےپروٹیسٹ کر رہے تھے جہاں پولیس اور طلبہ کے مبینہ طور پرمتصادم ہونے کی خبریں بھی سامنے آئی۔غور طلب ہے کہ اس واقعے کے بعد ڈی سی پی ملند دمبیرے نے کہا کہ پروفیسر اتل جوہری کو سمن جاری کیا گیا ہے اور منگل کو ان سے پوچھ تاچھ کی جائے گی۔ دہلی پولیس کا یہ قدم ڈی سی ڈبلیو کے دباؤ کا نتیجہ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ واضح ہو کہ دہلی کمیشن فاروومین نے پولیس کو جاری ایک نوٹس میں پوچھا تھا کہ ابھی تک جوہری کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا ہے؟ وومین کمیشن نے پولیس کو 23 مارچ تک اس معاملے کی رپورٹ دینےکے لیے کہا ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی انتظامیہ کو جاری کیے ایک نوٹس میں وومین کمیشن نے پوچھا ہے کہ جنسی استحصال کی شکایت کرنے والی لڑکیوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں ؟
غور طلب ہے کہ JNUTAاور دوسرے اساتذہ سوموار سے4دن کی بھوک ہڑتال پر ہیں جو نہ صرف اتل جوہری کو معطل کیے جانے بلکہ وی سی کے استعفیٰ کی مانگ بھی کر رہے ہیں ۔تقریباً54 ٹیچرس نے یہ مطالبہ کیاہے کہ پروفیسر اتل جوہری کے خلاف 8شکایتوں کی الگ الگ ایف آئی درج کی جائے۔واضح ہو کہ اتل جوہری کو انتظامیہ کے کچھ عہدوں پر سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ وہ اپنی اکیڈمک یعنی ٹیچنگ پوسٹ پر اب بھی بنے ہوئے ہیں ۔
دی وائر سے ہوئی بات چیت میں JNUTAکے سیکریٹری سدھیر سوتھر نے انتظامیہ پر مس گورننس اور سوشل جسٹس کو ختم کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ان کایہ بھی کہنا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہے اور دکھایا کچھ اور جا رہا ہے۔ہم یہ کبھی نہیں کہتے کہ اٹینڈنس نہیں ہونا چاہیے ۔ڈیفرینس آف موڈ یہ تھا کہ اٹینڈنس کا موڈ کیا ہونا چاہیے۔ الگ الگ اسکول کی اپنی خصوصیات ہیں انھیں دھیان میں رکھتے ہوئے اس کو لاگو کیا جائے۔الگ الگ کورسیز میں اس کے معنی الگ ہوں گے۔ان سب چیزوں کو لے کر تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اس پورے پروسیس میں اس چیز کو کہیں شامل نہیں کیا گیا۔دوسری بات یہ کہ فرمان آتا ہے کہ اگر آپ نہیں مانیں گے تو آپ کے خلاف تا دیبی کارروائی (Disciplinary Action)ہو گی۔میرا یہ سوال ہے کہ ایک ایسا قانون جس میں میری کوئی آواز نہیں ہے، میرا کوئی رول نہیں ہے ،میں اس کو کیوں مانوں؟آپ مجھے کم سے کم جواب دیں گے، آپ بتائیں گےکہ یہ یہ وجہ ہے۔جواب کیا ہے؟ہم کہہ رہے ہیں۔یہ جواب ہے۔انھوں نے مزید کہاکہ کسی بھی آرگنائزیشن میں ایک طرح کا قانون، ایک طرح کے اصول لاگو نہیں کیے جا سکتے۔لائف سائنسیز اور آرٹ اینڈ ایستھیٹکس ایک نہیں ہو سکتے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے یہاں اٹینڈنس کسی نہ کسی فارم میں ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے۔
تازہ جانکاری کے مطابق جے این یو کے ڈین نے 17 طلبہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔انھوں نے طلبہ پر مبینہ طور پر ان کے آفس میں بدتمیزی کرنے اور ہاتھا پائی کرنے کا الزام لگایا ہے۔طلبہ اور اساتذہ کے مظاہرے کیا رخ اختیار کریں گے اس پر ابھی کچھ بھی کہنا جلد بازی ہوگی لیکن ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ آخروہ سڑک پر اترنے کو مجبور کیوں ہوئے؟ کیا یونیورسٹی انتظامیہ نے ان سے بات چیت کرنے کا اسپیس ختم کر دیا ہے؟
ان حالات میں یہ بھی ایک سوال ہے کہ عالیجناب جگدیش کمار جے این یو کے وی سی ہیں یا یہ وی سی کا جے این یو ہے…
Categories: خبریں