ہم نے مہینوں شہر پر چھائی رہنے والی گرد اور دھند کی شکل میں اس کی قیمت چکانا شروع کر دیا ہے۔ آنے والے وقت میں ہماری نسلیں ہم سے بھی زیادہ قیمت چکانے والی ہیں۔
16 فروری 1519 کو ظہیرالدین محمّد بابر جب پہلی بار بجورا سے آگے چلکر سندھو ندی پار کرکے بھیرا میں اترا تو اس کے سامنے جنگ کے لئے دشمنوں کا کوئی لشکر نہ تھا۔سامنے سندھو ندی کے کنارے کنارے گھنے جنگل پھیلے ہوئے تھے۔ اس کی کشتی گھاٹ کے کنارے آکر جہاں رکی وہ جگہ بابر کے اپنے لفظوں میں گینڈا کا گھر تھا اور جس کمک نے بابر کو پہلا مقابلہ پیش کیا اس میں محض تین ہی سپاہی تھے۔ ایک ماں اور اس کے دو ننھے بچے۔زندگی میں ہونے والے تجربات کو روز ڈائری میں درج کرنے والے شخص بابر نے اس تجربے کو بھی ان الفاظ میں درج کیا :
‘ جنگل میں آگ لگا دی گئی لیکن وہ گینڈا نہ ملا۔ ایک بچّے کو تیروں سے گھائل کر دیا گیا۔ دوسراآگ میں جل چکا تھا۔ وہ ہانپ رہا تھا اور مرنے کے قریب تھا۔ ‘
بابر اس بڑے جنگلی جانور کو دیکھکر حیران تھا۔ لیکن ایسا کرنے والا وہ پہلا آدمی نہ تھا۔ سال 1330 میں، جب ابن بطوطہ اپنا ‘ چرمر ‘ کرتا ہوا جوتا پہنے ملتان کے پاس سے ہندوستان میں داخل ہوا تو اس کو بھی اس جانور کو دیکھنے کا موقع ملا۔وہ بھی حیران تھا لیکن مشرقی اتّر پردیش کے آج کے ضلع بہرائچ تک پہنچتےپہنچتے اس کی حیرانی ختم ہو چکی تھی۔ پورا شمالی ہندوستان ہی جیسے گینڈوں کا گھرہو۔
بابر لکھتا ہے کہ سریو ندی کے کنارے وہ بڑی تعداد میں ٹہلتے تھے۔البیرونی (1030) کے مطابق پوری گنگا وادی کرگ(گینڈا) سے آباد تھی۔ جو جنگلی جاندار آج شمال مشرق کے قاضی رنگا اور مانس کے جنگلات میں اپنا وجود بچائے رکھنے کے لئے جوجھ رہا ہے، 1398 میں تیمور نے جب کشمیر کی سرحد پر اس کو دیکھا تو شکار کھیلنے کے جذبے سے خود کو روک نہ سکا۔ (Shivani Bose-From Eminence to Near Extinction، Page 78/79، Shifting Grounds Oxford University Press)
ابوالفضل نے ان کو آج کے سنبھل پرگنہ میں دیکھا تھا۔ آئین اکبری میں درج اس جانور کا اس علاقے سے وجود پائے جانے کا یہ شاید آخری ذکر تھا۔صرف دوڈھائی سالوں بعد جب جہانگیر نے یہاں کمرگاہ (مغلیہ عہد میں گھیرا بناکر شکار کھیلنے کا طریقہ) سے شکار کھیلا تو اس کی تزک جہانگیری کے صفحات پر کوئی گینڈا موجود نہ تھا۔17ویں صدی کی شروعات سے ہی ان تمام علاقوں سے جہاں بابر اور اس کی کچھ نسلوں نے اس جانور کو دیکھا تھا، وہ تباہ ہو چکے تھے۔ سریو کے پاس کی ریت پر وہ اب ٹہلنے کو نہیں بچے تھے۔ (دیکھیں : عرفان حبیب : بھارت کا پارستھتکیہ اتہاس، صفحہ نمبر 113، راج کمل 2015)
اپنا وجود بچائے رکھنے کی کتنی ہی لڑائیاں ایک ساتھ لڑی جا رہی تھیں۔ اس جدو جہد کے ایک سرے پر آدمی تھا اور دوسرے پر فطرت اور ٹھیک بیچ میں اقتدار۔اقتدار دونوں سے جس رشتے کے ذریعے جڑتے تھے وہ رشتہ تھاطاقت کا بے رحمی سے استعمال۔ طاقت دونوں کو کچلتی تھی۔ فطرت کو بھی، انسان کو بھی۔ ماحولیات کو یہ چھوٹ کبھی حاصل نہیں رہی کہ وہ کسی حکومت کی راہ کی رکاوٹ بنے۔
آج گجرات کے پہاڑ کے جنگلات تک محدود رہ جانے والے ایشیاٹک شیر (Panthera Leo Persica) کبھی پورے شمالی ہندوستان کے گھاس کے میدانوں میں انسان کے ساتھ ساتھ اس زمین کو آپس میں بانٹے ہوئے ٹہلتے تھے۔برٹش ڈپلومیٹ سر تھامس رو کو 1617 میں مانڈو ضلع میں جہانگیر سے ایک شیر کو مارنے کی اجازت لینی پڑی تھی۔ بادشاہ اور اس کی فیملی کو چھوڑکر ‘ بڑے شکار ‘ کو مارنا ایک سنگین جرم تھا جس کی سزا سزائے موت تھی۔
فرانسیسی فلسفی اور مؤرخ برنئیر کے مطابق، ایک معمولی انسان کو چھوٹے ہرنوں، نیل گائے، پیٹریج، تمام طرح کے کوئل اور دیگر پرندوں کےشکار کرنے کی چھوٹ تھی۔جہانگیرنامہ سے پتا چلتا ہے کہ جہانگیر اپنے کئے تمام شکاروں کی پوری تفصیل رکھتا تھا۔ اس کے مطابق 39 سالوں میں تمام قسم کے جنگلی جانور اور پرندے ملاکر اس نے 28532 شکار کئے جس میں سے 86 شیر تھے۔سال 1623 میں اس نے آگرہ کے رحیم آباد میں جس شیر کا شکار کیا وہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا شکار تھا۔ (جہانگیرنامہ، ترجمہ تھیکسن، صفحہ نمبر 411)
اس تصور سے ہی دل کیسے جوش سے بھر جاتا ہے کہ کچرے، دھواں، دھول اور شور سے بےحال آج کی قومی راجدھانی کاعلاقہ یعنی این سی آر کہا جانے والا علاقہ تب قدرتی طور پر کتنا متنوع رہا ہوگا!1562 میں متھراسے گزرتے ہوئے اکبر کا مقابلہ شیروں کے ایک بڑے جھنڈ (پرائڈ) سے ہوا جس میں سات شیر تھے۔ ان میں سے ایک کو زندہ پکڑ لیا گیا اور باقی کو شکار کی شکل میں مار دیا گیا۔
اسی طرح ہریانہ میں جہاں سے آج گھنے جنگل کےعلاقے تباہ ہو چکے ہیں، جہانگیر نے 1608 میں کرنال اور پانی پت کے بیچ میں شیروں کے ایک جوڑے کا شکار کیا۔1857 کے بعد شمالی ہندوستان کے میدانوں میں اس جانور کے دیکھے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ابتک اس ملک کے اقتدار پر نئے حکمرانوں کا داخلہ ہو چکا تھا۔ وہ نئے ہتھیاروں سے مسلح تھے۔ ایک زمین کا اسپیس کئی طرح کی نسلیں آپس میں بانٹکر ایک مشترکہ زندگی میں ساتھ ساتھ رہ سکتی ہیں۔ یہ خیال ان کے لئے اٹ پٹا سا تھا۔
توسیع پسندی ہی نیا فلسفہ تھا۔ جنگلات کو اجاڑنے اور جنگلی زندگی کی اندھادند تباہی ان کا شوق تھا۔ 1820 کے آس پاس کے سالوں میں ایک انگریز افسر ولیم فریزر نے اکیلے 84 شیروں کو گولی ماری۔کہا جاتا ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کے علاقوں سے اس جانور کو ناپید کر دینے کے لئے ‘ وہ اکیلا ذمہ دار تھا ‘۔ 1850 کی دہائی میں کرنل جارج آکلینڈ اسمتھ نے تقریباً 300 شیر مارے جس میں سے 50 اکیلے دہلی کی جمنا ندی اور آس پاس کے علاقوں سے تھے۔
اسی وقت کے آس پاس بوندی کے راجا بشن سنگھ نے کوٹہ کے جنگلات سے 100 شیر مارے۔ 1880 تک وہ یہاں سے پوری طرح ختم ہوکر کچھ سیکڑا کی تعداد میں صرف کاٹھیاباڑ میں بچے تھے جو کچھ سنجیدہ لوگوں اور حساس سرکاری کوششوں کی وجہ سےابتک بچے رہ گئے ہیں۔ (Lions، Cheetahs and Others in Mughal Landscape ؛ Page-94 Divyavhanu Singh، Quoted In Shifting Grounds Oxford Press)
لیکن ایشیاٹک چیتا اس معاملے میں اپنے خاندانی نسل کی بہ نسبت بدقسمت تھا۔ مغل بادشاہوں کو گھاس کے میدانوں کے اس جانور سے بہت لگاؤ تھا۔ شیروں اور چیتوں کے برعکس، وہ اس کے زندہ پکڑے جانے کو ترجیح دیتے تھے۔اسے تربیت دی جاتی تھی۔ پھر تفریح کے طور پر اس کی مدد سے چھوٹا شکار پکڑوایا جاتا۔ اکبر ان کا دیوانہ تھا۔ جہانگیر کی آپ بیتی سے پتا چلتا ہے کہ اس کے پاس تقریباً 3000 تربیت یافتہ چیتے تھے۔
اورنگزیب کے وقت میں آئے ایک غیر ملکی مسافر زین تھیونوٹ کے مطابق، چیتوں پر ‘ ریاست کی اجارہ داری ‘ تھی۔ ریاست کی اجازت کے بغیر ان کو کوئی نہیں پکڑ سکتا تھا۔چیتے آج کے راجستھان کے جھنجھنو، ناگور، جودھ پور، جیسلمیر، میڑتا کے علاقوں اور اتّر پردیش میں اٹاوا کے پاس چنبل ندی کے پاس سے پکڑے جاتے تھے۔ بہار سے لےکر گجرات تک کے میدانوں میں یہ بڑی تعداد میں ملتے تھے۔
مغل سلطنت کے زوال کے بعد گھاس کے میدانوں سے وہ تیزی سے تباہ ہوئے اور 1947 میں جس سال ہمارے ملک کو آزادی ملی، اسی سال جنگل میں پایا جانے والا آخری چیتا مار دیا گیا۔ہندی کے ایک ہم عصر شاعر کیدارناتھ سنگھ کی ایک نظم ہے۔ عنوان ہے”ندیاں”،اس نظم کا ایک حصہ یہ ہے :
پُل
پرتھوی کے سارے کے سارے پل
ایک گہرا شڈینتر ہیں، ندیوں کے خلاف
اور ندیاں انھیں اس طرح برداشت کرتی ہیں
جیسے قیدی زنجیروں کو…
ندیاں برداشت کر لیتی تھیں لیکن سوکھا، قحط پڑنے پر جب لگان دینا ناقابل برداشت ہو جاتا تھا تو کسان بغاوت کر دیتے اور بھاگکر ان جنگلات میں پناہ لیتے تھے۔ان جنگلات کے فائدے صرف وہاں رہنے والے جانوروں کو ہی نہیں ملے۔ سال 1330 میں دوآب میں کسانوں نے لگان بڑھائے جانے کے خلاف بغاوت کر دی۔برنی لکھتا ہے کہ سلطان نے ان جنگلات کو گھیر لیا جہاں کسان چھپے ہوئے تھے۔ ان میں آگ لگا دی گئی۔ کسانوں کو بےرحمی سے سزا دی گئی۔جہانگیر اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے کہ 1621 میں اس نے گھنے جنگلات میں چھپے ہوئے ان ‘ گنواران ‘ (گاؤں کے عام لوگ) اور ‘ مزارعیان ‘ (زراعت کرنے والے کسان) کو سزا دی جو زمین دار کو لگان دینے سے منع کرتے تھے۔
ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ گھنے جنگلات کےعلاقے صرف شعرااور ادیبوں کو نظم کے لئے رومانی موضوع دستیاب کرانے کا ہی کام نہیں کرتے تھے۔ ماحولیات عام آدمی کو وہ اسپیس بھی دستیاب کراتا تھا جہاں رہکر ایک معمولی کسان اقتدار سے اپنی مزاحمت کو درج کرا سکتا تھا۔پروفیسر سمت گُہا کی Environment and Ethnicity In India Since 1200 to 1991، Cambridge University Publication، 1999 اس موضوع پر ایک غیر معمولی کتاب ہے جو تاریخ کے اوراق میں بکھرے ہوئے ایسے کئی ذرائع کو پکڑنے کی کوشش کرتی ہے۔
وجئےنگر کے پرشکوہ حکمراں کرشن دیو رائے کی ایک بندوبست یہ تھی کہ ‘ جنگلات کو وہیں پنپنے دیا جائے جو ریاست کے دوردراز علاقے ہوں۔ ان کو چھوڑکر ریاست کے بیچ میں پڑنے والے تمام علاقوں سے ان کو تباہ کرکے اجاڑ دیا جائے ‘۔شمالی ہندوستان کی طرح ہی کونکن کے علاقوں میں سفر کرتے ہوئے 1675 میں جان فریئر نے لکھا کہ دیہات کے معمولی کسان فوجوں سے بچنے کے لئے جنگلات میں بھاگ جاتے تھے۔ اس سے غصے میں آکر ان جنگلات میں آگ لگانے کا فرمان جاری کئے جاتے تھے۔
مراٹھا اور ان کے بعد برٹش حکمرانوں نے بھی جنگلات اور بھیل، گونڈ جیسی جنگلی کمیونٹیکے لیے یہی نقطہ نظر اپنایا۔1813 کے ایک مراٹھی شاہی فرمان میں جو خاندیش کے ریونیو افسروں کے نام ہے یہ لکھا گیا ہے کہ؛
‘ اس علاقے میں جنگل کی کثرت ہے۔ شیروں اور ڈاکوؤں کو دور رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت کاٹے جائیں ‘۔
اقتدار کی حمایت سے وابستہ اس عمل پر دوسرا دباؤ بڑھتی ہوئی آبادی کا تھا۔ آئین اکبری میں ابوالفضل کے ذریعے دئے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر مؤرخ مورلینڈ نے 1601 میں ملک کی آبادی کا اندازہ لگایا۔اس کے مطابق 1601 میں یہ قریب 100 ملین تھی۔ عہد وسطی میں ہندوستان کے ایک دیگر ہم عصر مؤرخ شیرین موسوی کے مطابق، 1601 میں آبادی کا یہ اعداد و شمار قریب 145 ملین ہونا چاہئے۔آب پاشی کے ذرائع میں باقاعدہ ہوئی تکنیکی ترقی اور بڑھتے ہوئے آبادیاتی دباؤ نے زیادہ سے زیادہ زمین کو زراعتی زمین میں بدلنے کے لئے متاثر کیا۔1650 میں فی مربع کلومیٹر آبادی کی کثافت 35 تھی۔ مغل سلطنت کے عروج پر 1608 میں آگرہ صوبے میں کل دستیاب زمین میں سے صرف 27.5 فیصد ہی زراعت کے لئے استعمال ہو رہی تھی۔
1656 سے 1668 تک ہندوستان میں رہے فرینچ مسافر برنیئر کی آنکھوں دیکھی صورتحال کے مطابق، دہلی سے آگرہ تک جمنا کے کنارے اور لاہور تک جانے والے اہم راستوں کے دونوں طرف گھاس کے بڑے بڑے میدان تھے۔ اس سے ریاستی اقتدار کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوتا تھا۔ان سب عوامل کا ملاجلا نتیجہ یہی ہوا کہ ہماری زمین سے جنگل سکڑنے لگے۔وسط ہندوستان کا جنگلی علاقہ جو مہاندی اور گوداوری کے درمیان بستر سے لےکر، جھارکھنڈ اور گجرات کے داہود اور راج پیپلا تک پھیلا ہوا تھا، شاہجہاں کے وقت تک پورے ملک میں جنگلات کی سب سے بڑی توسیع تھی۔
شاہجہاں کے درباری مؤرخ لاہوری کے مطابق، اس پورے علاقے سے جنگلی ہاتھیوں کو پکڑا جاتا تھا۔ لیکن 18ویں صدی کے درمیان تک یہ جنگل مناسب طورپر سمٹ چکا تھا۔گجرات سے حاصل مراۃ احمدی کا مصنف بتاتا ہے کہ راج پیپلا سے ہوکر جانے والا وہ راستہ جو ہاتھیوں کے گزرنے کا کاری ڈور تھا، بند ہو چکا تھا۔ (ص:32، مین اینڈ نیچر ان مغل ایرا، شیرین موشوی۔ انڈین ہسٹری کانگریس 1992)
گنگا اور یمنا کے دوآب میں جہاں کے جنگلات میں کسان بغاوت کر کےچھپنے کی جگہ پاتے تھے، سب سے زیادہ آبادیاتی دباؤ تھا۔ بدایوں اور دہلی کے درمیان پھیلے گھاس کے میدان اور جنگل 18ویں صدی کے آخر تک ختم ہو چکے تھے اور ان میں چڑنے اڑنے والے تمام جانور اور پرندے بھی۔
نوآبادیاتی حاکموں کا لالچ اور بھی بڑا تھا۔ ہمالیہ اور ترائی کے ذیلی پہاڑی علاقوں کے جنگل ان کو اعلیٰ معیار کا ساگوان اور شال کی لکڑی دستیاب کراتے تھے۔ 1849 میں لندن کی دو بڑی کمپنیوں کو جنگل کی لکڑی کا ٹھیکہ دیا گیا۔ ایک کلو میٹر ریلوے لائن بچھانے کے لئے اوسط 250 درخت کاٹنے ہوتے تھے۔ شال کی اچّھی سی اچّھی لکڑی کے سلیپر بھی دس سال سے زیادہ نہیں ٹکتے تھے۔ اس لئے ہر دس سال بعد پھر اتنے ہی درخت کاٹے جاتے۔
پروفیسر عرفان حبیب کے ایک اندازے کے مطابق، صرف 1879 تک ریلوے لائن بچھانے کے لئے قریب 20 لاکھ درخت کاٹ ڈالے گئے۔ انجن کا ایندھن الگ سے۔ایک اندازے کے مطابق ایک کلومیٹر کے سفر کے لئے ہرسال قریب 50 ٹن لکڑی ریل انجن کے لئے چاہئے ہوتی تھی۔ اکیلے 1890 تک جب بھاپکے کوئلہ انجن کا چلن شروع ہوا، لاکھوں درخت اور ہزاروں مربع کلومیٹر کے جنگل ‘ جدید ترقی ‘ کے لئے اجاڑے جا چکے تھے۔
1865 میں بنے جنگل قانون کے تحت برٹش حکومت نے ریزرو اور محفوظ جنگلات کی شکل میں تمام قسم کے جنگل اپنے قابو میں لے لئے۔ جنگل کمیونٹی جو جنگل کی پیداوار پر صدیوں سے منحصر تھے، اپنے ذریعہ معاش کے لئے انگریز افسروں کے رحم و کرم پر منحصر ہو گئے۔پیلی بھیت کے کلکٹر ٹی ڈبلیو کی ایک رپورٹ میں جو 13 اپریل 1888 کی ہے، اس ضلع کی غریب بنباسی خواتین کی گواہی درج ہے۔ان کے مطابق، ‘ ان کو ایندھن لکڑی کے لئے چوکی سے اجازت لینی پڑتی تھی۔ پیلی بھیت شہر جاکر اس کو دوڈھائی آنے میں بیچتیں اور اگلے دن کا کھانا جٹاتیں۔ بھر پیٹ کھانا کبھی نہیں ملتا تھا۔ کبھی کبھی تو دودو دن بھوکا رہنا پڑتا تھا۔ ‘ (عرفان حبیب، صفحہ نمبر 170 راج کمل 2015)۔
یہ جنگلات میں ریاست اور نوکرشاہی کی ایسی دخل اندازی تھی جو یہاں کے لوگوں نے ابتک نہ دیکھی تھی۔ جنگلات پر قبضہ مغل حکمرانوں کا بھی تھا۔ لیکن اس کی شکل پیچیدہ نوکرشاہی جیسی نہیں تھی۔ اس میں مقامی روایتوں کی منظوری تھی۔ اب جنگل اور اس کی جائیداد ریاست کے ذریعے حمایت یافتہ ٹھیکے داروں کے لئے تھی۔مغلوں کے ذریعے کئے جانے والے محدود شکار کی جگہ اب بارود سے لیسرائفلوں نے پورا کھیل شکاری کی جانب میں موڑ دیا اور پھر جو تباہی شروع ہوئی وہ اس ملک کے ماحولیات اور اس کی حیاتیاتی تنوع کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔وہ ہاتھی جن کو مغل مارنے کی جگہ فوج کے لئے پکڑتے تھے انگریزوں کے کسی کام کے نہ تھے۔ وہ ‘ جنگلی ‘ تھے۔ اس لئے 1860 میں نیلگری کے جنگلات میں باغان مالکوں کے ذریعے سیکڑوں ہاتھی روزانہ مارے گئے۔
1933 سے 1940 کے بیچ میں نیپال کے راجا نے ترائی میں اپنے مہمان کو قریب 500 سے زیادہ شیر اور سیکڑوں گینڈا مروائے۔ یہاں تک کہ خود برٹن کے معزز جارج پنچم نے ایک ہفتہ کی اپنی ترائی کی پکنک میں 39 شیروں کو گولی سے مار دیا۔ ایک انگریز ایڈمنسٹریٹر ڈانلڈ بٹر کے 1837 میں داخل ایک رپورٹ میں جو جنوبی اودھ میں جنگلات کی صورتحال پر ہے، اس اندھادند صرفہ اور تباہی پر اس شاعرانہ زبان میں فکرکا اظہار کیا گیا :
‘ وہ دن اب دور نہیں رہ سکتا جب ہمارا ریونیو نظام کے ساتھ جنگلات سے آباد یہ علاقے ہرےبھرے سائے اور پتّیوں پر سیدھی گرنے والی شبنم کی ملائم بوندوں سے خالی ہو جائیںگے۔ ‘ (عرفان حبیب، انسان اور ماحول میں صفحہ نمبر 169 سے ماخوز)
ہوا بھی یہی۔ جب درخت ہی نہ ہوںگے تو شبنم کہاں ہوگی۔
اس ملک کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ اس کےشاندار قدرتی اور ماحولیاتی ورثہ سے منسلک ہے۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ ابھی بھی ہم اپنی اس بچی کھچی وراثت سے مایوس ہیں۔جدیدیت کے گھوڑے پر سوار ہوکر ہم نے وہ سب روند ڈالا جو ہمیں فوری طور سے بیکار اور ایک رکاوٹ لگی۔ الگ الگ دور میں اقتدار نے تباہی کی اس مہم کی قیادت کی اور ہم نے تقلید۔
ہم نے مہینوں شہر پر چھائی رہنے والی گرد اور دھند کی شکل میں اس کی قیمت چکانا شروع کر دیا ہے۔ آنے والے وقت میں ہماری نسلیں ہم سے بھی زیادہ قیمت چکانے والی ہیں۔جنگلات سے ہمیشہ اقتدار کو زیادہ ڈر رہا ہے۔ وہ خود میں ایک اقتدار ہے۔ اقتدار کی جنگ میں اب وہ جیت لئے گئے ہیں۔ جنگلات پر ہماری جیت دراصل ہماری ہار ہے لیکن شاید ہمیں یہ محسوس ہوتے ہوتے بڑی دیر ہو چکی ہے۔ بھوانی پرساد مشر کے الفاظ میں ؛
دھنسو ان میں ڈر نہیں ہے
موت کا یہ گھر نہیں ہے
اترکے بہتے انیکوں
کل کتھا کہتے انیکوں
ندی نرجھر اور نالے
ان ونوں نے گود پالے
لاکھ پنچھی سو ہرن دل
چاند کے کتنے کرن دل
نیند میں ڈوبے ہوئے سے
اونگھتے انمنے جنگل
وات جھنجھا وہن کرتے
چلو اتنا سہن کرتے
کشٹ سے یہ سنے جنگل
اونگھتے انمنے جنگل
(مضمون نگار انڈین پولیس سروس میں اتّر پردیش کیڈر کے افسر ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر