گزشتہ سال لاء کمیشن نے یہ اشارہ ضرور دیا تھا کہ اس کے مطابق ملک میں یونیفارم سول کوڈ لاگو کرنا بہت مشکل ہے اس لئے مختلف مذاہب کے پرسنل لاء کی اصلاح کرنے پر توجہ دینا بہتر ہوگا۔
ملک کے سیاسی حلقوں میں شاید ہی کوئی موضوع اتنا متنازعہ ہو جتنا یونیفارم سول کوڈ (UCC)کا نفاذ ہے۔ دراصل یونیفارم سول کوڈ ہونے سے مراد ملک میں موجود تمام فرقےکےلوگوں کےلیے یکساں قانون کا ہونا ہے۔ اس بات کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ کم و بیش ہندوستان میں خاندان کے معاملات کو چھوڑ کر تقریباً تمام قانون سبھی لوگوں پر یکساں لاگو ہوتے ہیں۔ صرف خاندان کے معاملات جیسے شادی ، طلاق، میراث کو لے کر ہی ملک میں موجود الگ الگ مذہبی فرقے کے لئے ان کے مذہبی اور سماجی عقائد کے حساب سے قوانین مقرر کئے گئے ہیں۔ انہیں’پرسنل لاء‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا جب بھی یونیفارم سول کوڈ کی حمایت میں بات ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خاندانی معاملات میں بھی تمام لوگوں کے لئے باقی قوانین کی طرح یکساں قوانین ہوں۔ آئین ہند کے آرٹیکل 44 کے مطابق حکومت کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ملک میںْ ایک یونیفارم سول کوڈ کو ’حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
لفظ ’یونیفارم‘ کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ انگریزی لفظ ‘یونیفارم ’کامطلب ہے یکساں۔ یکساں سول کوڈ سے مراد تمام لوگوں پر ایک ہی سول قانون کا لاگو ہونا ہے۔ تمام قوانین کو دو حصّوں میں بانٹا جا سکتا ہے:
کریمنل اور سول۔ کریمنل قوانین جرائم سے متعلق قوانین ہوتے ہیں جیسے کہ تعزیراتِ ہند، پوٹا وغیرہ۔ کریمنل قوانین سب لوگوں کے لئے پہلے سے ہی یکساں ہیں۔ وہیں دوسری طرف تمام دیگر قوانین کو من جملہ سول قوانین کہا جاتا ہے جیسے کہ کمپنی کے قوانین، کانٹریکٹ(معاہدوں کے قوانین) وغیرہ۔ سول قوانین کا اکثر حصّہ بھی سب کے لئے ایک ہی ہے۔ سول قوانین کا ایک حصّہ جسکا تعلق خاندانی معاملات اور میراث کی تقسیم سے ہے الگ الگ مذہبی قوانین سے نافذ ہوتا ہے۔ اِن قوانین کو پرسنل قوانین کہا جاتا ہے۔ لہٰذہ یونیفارم سول کوڈ کا مطلب ہے سب کے لئے ایک ہی پرسنل قوانین لاگو ہونا۔
آئین میں مقرر بنیادی حقوق میں ہم آہنگی:
جہاں ایک طرف آرٹیکل14 ہر شہری کو برابری کا حق دیتا ہے، وہیں آرٹیکل25کسی بھی مذہب کوماننے اور عمل کرنے کے حق کا تحفظ کرتا ہے۔ قانون کے اعتبار سے دونوں ہی بنیادی حقوق ہیں۔ جب بھی یونیفارم سول کوڈکو نافذ کرنے کی بات آتی ہے تو دونوں ہی فریقین اپنے اپنے طریقے سے آرٹیکل14 اور 25 کو بیان کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جب بھی پرسنل لاء کی بات ہوئی ہے تو عدالت نے دونوں ہی حقوق میں ہم آہنگی لانے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 25 میں موجود کسی بھی مذہب کواپنانے کے حق کی تفسیر کرتے ہوئےیہ کہا ہے کہ ملک کے ہر باشندے کو بے روک ٹوک مذاہب کی وہ رسومات ادا کرنے کی آزادی ہے جن کے بغیر وہ مذہب نا مکمل ہے۔ اس کو Essential Practices Doctrineبھی کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ رسمیں جو کسی بھی مذہب کے لحاظ سے اشد ضروری ہیں ان کی پریکٹس سے آئینی طور پر حکومت کسی بھی قانون کے ذریعے محروم نہیں کر سکتی۔
یہی شرط ایک ممکنہ یونیفارم سول کوڈ پر بھی عائد ہوگی۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیاپارلیامنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کسی مذہب کاکون سا عمل اس مذہب کی نظر میں ضروری ہے اور کون سا غیر ضروری؟ کیا مذہب کی تشریح کرنا منتخب سیاسی نمائندوں کا حق ہے یامذہبی رہنماؤں کا؟یا پھر ہر شخص کو خود پر یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے لئے ضروری اور غیر ضروری مذہبی عقائد کا انتخاب کرے۔ ایسے میں کسی بھی ایک شہری قانون کی تشکیل کرنا نہایت ہی پیچیدہ اور مشکل عمل ہے۔
ملک کے سیاسی حلقوں میں اتنی مدت سے زیربحث رہنے کے باوجود یہ بات حیران کرنے والی ہے کہ آج تک اس قانون کا کوئی خاکہ تجویز نہیں کیا گیاجس پر بحث کی جائے۔ کسی بھی قانون کی افادیت جاننےکے لئے اس کا ایک مسودہ موجود ہونا ضروری ہے تاکہ اس پر کوئی تجزیہ ممکن ہو۔ اب تک ایسا کوئی ڈرافٹ دستیا ب نہیں ہے۔کچھ لوگوں کا ماننا یہ بھی ہے کہ ہندو کوڈ بل(مخلف ہندو پرسنل قوانین کا مشترکہ نام) ایک ممکنہ خاکہ ہو سکتا ہے جس پر قانون بنانے کے دوران مناسب ترمیم کی جائے، لیکن یہ خام خیالی ہی ہوگی کیونکہ ایسی کسی ترمیم کا کسی بھی پلیٹ فارم پر ذکر نہیں ہوا ہے جس سے ہندو کوڈ بل کو ہی بدل کر ایک ایسا سول کوڈ بنایا جائے جو کہ تمام طبقات کو قابل قبول ہو۔
بالآخر ایک یونیفارم سول کوڈ بنانے کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ نافذ کرنے لائق ہو۔ ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب ملک میں بڑی تعداد میں رہنے والے تمام طبقے کے لوگ ایسے قانون سے متفق ہوں۔ چونکہ ایک یونیفارم سول کوڈ کا تعلق شہریوں کی ذاتی زندگی سے ہے اس لئے ان کی رضا مندی حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔حکومت کے تجربے سے یہ صاف ہے کہ ایسا قانون نافذ کرنا بہت مشکل ہے جن پر آبادی کا ایک بڑا حصہ اتفاق نہ رکھتا ہو۔ اس کی ایک مثال کچھ سال پہلے ریاست جموں کشمیر میں گئوکشی پر لگی پابندی ہے جو پھر بعد میں عوام کے زبردست احتجاج کے بعد ہٹائی گئی تھی۔ حال ہی میں سری سری روی شنکر کا یہ بیان کہ ایودھیا مسئلہ پر عدالت کا کوئی بھی فیصلہ نافذ کرنا ناممکن ہوگا اس بات کا ہی ثبوت ہے کہ کسی بھی قانون کو نافذ کرنا تب تک ناممکن ہے جب تک زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس پر اعتماد نہ ہو۔ اس لئے کوئی بھی سول کوڈ بنانے سے پہلے تمام فرقوں اور مذاہب میں اس کے حق میں رائے قائم کرنا بہت ضروری ہے۔ شاید ان مسائل کی وجہ سے آئین میں یونیفارم سول کوڈ کو شہریو ں کے لئے حاصل کرنے کی بات ہوئی ہے نا کہ اسے مسلط کرنے کی۔
اس ضمن میں مرکزی حکومت نے جون 2016 میں لاء کمیشن کو ایک حوالہ بھیج کر “یونیفارم سول کوڈ سے منسلک معاملات”پر ایک تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔لیکن ابھی بھی کمیشن اس موضوع پر اپنی رپورٹ تیار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ گزشتہ سال لاء کمیشن نے یہ اشارہ ضرور دیا تھا کہ اس کے مطابق ملک میں یونیفارم سول کوڈ لاگو کرنا بہت مشکل ہے اس لئے مختلف مذاہب کے پرسنل لاء کی اصلاح کرنے پر توجہ دینا بہتر ہوگا۔
Categories: فکر و نظر