مجسموں کا گرایا جانا محض کسی پتھر کی بے جان شے کو ختم کیا جانا نہیں ہےبلکہ اس نظریہ، اس اقدار کو زمین دوز کرنے کی کوشش ہے جس کی نمائندگی وہ مجسمہ کرتاتھا۔
ہندوستان میں مجسموں کا توڑا جانا کوئی نیا تجربہ نہیں ہےلیکن یہ کام ہمیشہ حملہ آوروں نے ہی کیا ہے۔قرون وسطی میں ایران، افغانستان اور سینٹرل ایشیا سے حملہ آور ہندوستان میں آئے اور انہوں نے ہمارے مندروں میں لگے مجسموں کو بےرحمی سے توڑا۔ان کے اس مذہبی شدت پسندی، ثقافتی اور نظریاتی حملے کے نشان آج بھی پورے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں۔ 90 کی دہائی میں بابری مسجد کو توڑتے ہوئے دیکھا گیا اور اس کا تنازعہ اور دیوانگی آج بھی ملک کو اپنے لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔
گزشتہ دنوں تریپورہ میں لینن کا مجسمہ اور تمل ناڈو میں تملوں کے دلت رہنما پیریارکے مجسمہ کو توڑا جانا بھی اسی دیوانگی کی ایک مثال ہے جس کا اثر اتر پردیش میں بھی دکھائی دیا اور وہاں چار جگہوں پر دلت رہنما ڈاکٹر امبیڈکر کے مجسموں کو توڑا گیا۔رد عمل میں مغربی بنگال میں آر ایس ایس کے رہنما ڈاکٹر شیاما پرساد کے مجسمہ پر حملہ ہوا۔ ان سب کے درمیان مہاتما گاندھی کو بھی نہیں بخشا گیا اور کیرل کے کنور ضلع میں ان کے مجسمہ سے بھی چھیڑچھاڑ کی گئی۔ کوئی بھی ملک یا سماج اپنے معمار اور مفکروں کے مجسمہ،ان کے اصولوں اور نظریات کو صدیوں تک زندہ رکھنے اور آنے والی نسلوں کو ان سے واقف کراتے رہنے کے لئے لگاتےہیں۔باہر سے آنے والوں کو ان کے ذریعے اس ملک یا سماج کی ثقافتی، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور مذہبی اقدار اور تعمیری جدو جہد کی جھلک ملتی ہے۔اس لئے ان کو توڑا یا گرایا جانا محض کسی پتھر کی بے جان شے کو ختم کیا جانا نہیں ہے وہ تو اس نظریہ، اس اقدار کو زمین دوز کرنے کی کوشش ہے جس کی نمائندگی وہ مجسمہ کرتا تھا۔
اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ مجسمہ کو توڑنے والا اس نظریہ کا مخالف ہی نہیں اس کے متعلق عدم رواداری بھی رکھتاہے، اس کو اپنے راستے کی رکاوٹ مانتا ہے اور اسی لئے اس کو پوری طرح ختم کر دینا چاہتا ہے۔تریپورہ میں طویل عرصے کے بعد پہلی بار بی جے پی کے اقتدار میں آنے پر اس کے کارکنان نے جس طرح انتہا پسند حکمرانوں کے مثالی سوویت روسکے حکمراں لینن کے مجسمہ کو بیلونیا میں ‘ بھارت ماتا کی جئے ‘ کے نعروں کے درمیان کریں سے زمین دوز کیا اس سے صاف تھا کہ وہ کمیونسٹ سے نفرت کرتے ہیں اور ان کو کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
ان کی نفرت اس حد تک ہے کہ وہ ان کے اس تاریخی نشان کو بھی بنائے رکھنا نہیں چاہتے۔ ان کو ڈر ہے کہ مستقبل میں لینن کے مجسمہ کو دیکھ کر ان کے نظریہ کے متعلق متاثر ہو سکتےہیں یا پھر کوئی پوچھ سکتا ہے کہ کیا یہاں کمیونسٹ بھی کبھی فعال رہے تھے۔ ان کی نگاہ میں یہ سوالات ان کی عزت کو چیلنج دینے والے ہیں۔تمل ناڈو میں تو انہوں نے حد ہی کر دی۔وہاں جن دراوڑ وں کے ذریعے وہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں، انہیں کے بھشم پتامہ پیریار ای وی راماسامی کے مجسمہ کو توڑنے کے لئے بی جے پی رہنما ایچ راجا نے اپنے کارکنان کو اکسایا اور تریپورہ میں لینن کا مجسمہ توڑے جانے کے اگلے ہی دن چنئی میں انہوں نے پیریار کے مجسمہ کو توڑ دیا۔
تشدد آمیز عدم رواداری کا نتیجہ تشدد آمیز مزاحمت ہی ہوتا ہے اور دونوں جگہوں پر وہی ہوا۔مغربی بنگال میں جہاں مخالف جماعت کی حکومت ہے، سنگھ کے رہنما شیاما پرساد مکھرجی کے مجسمہ کو نشانہ بنایا گیا۔ دیوانگی کا جواب دیوانگی سے۔اپنے اقتدار کی توسیع میں لگے وزیر اعظم نریندر مودی اس کے متوقع سیاسی نتیجوں سے واقف ہیں ۔اسی لئے انہوں نے جلد بازی میں مجسمہ توڑنے کی مخالفت میں بیان جاری کیا اور قصورواروں کے خلاف کڑی کارروائی کرنے کے لئے کہا۔اس کے ساتھ ہی مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ بھی فعال ہو گئے اور مجسمہ توڑے جانے والوں کو آگاہ کیا۔ اس کے باوجود اگر ان کی اپنی ہی ریاست اتر پردیش میں دلت رہنما ڈاکٹر امبیڈکر کے مجسموں کو چار جگہوں پر توڑا گیا تو اس لئے کہ وہاں بی جے پی کارکن دلتوں کو اپنے برابر کھڑے ہوتے دیکھنا نہیں چاہتا۔ یہاں اس کی نفرت سیاسی سے کہیں زیادہ سماجی ہے۔ اور چونکہ پارٹی اقتدار میں ہے تو اس کے حوصلے بلند ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ مجسموں کو توڑکر آپ اپنی توسیع نہیں کر سکتے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ توسیع کے عمل میں ہی ہر اس چیز کو تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کو آپ اپنے راستے کی رکاوٹ مانتے ہیں یا جو اب تک آپ کو آگے آنے سے روکتی رہی ہے۔آج جب آپ بہادر ہیں اور اس کے ساتھ ہی آپ میں برداشت کا مادہ بھی نہیں ہے تو بھی آپ ہراس رکاوٹ کو راستے سے ہٹائیںگے ہی۔اس لئے آر ایس ایس کے نظریہ کے لئے گورکشا کے نام پر قتل ہونا جاری ہے اور مجسموں کا ٹوٹنا بھی جاری رہےگا۔ اقتدار مل جاتا ہے تو تکبر میں، نہیں ملتا ہے تو مایوسی میں۔ مانکر چلئے 2019 کے بعد بھی فی الحال مجسمہ توڑنے والے بےروزگار ہونے والے نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ان کی پارٹی کے لئے کارسیوا ہی ہوگی۔
(نیلم گپتا آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر