جسٹس سہیل صدیقی کی سربراہی والے کمیشن نے 22 فروری 2011کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اقلیتی تعلیمی ادارے کا درجہ دیا گیا تھا، جس کے خلاف کچھ لوگ عدالت میں گئے اور حکومت وقت نے جامعہ کے اقلیتی کردار کی تائید میں حلف نامہ داخل کیا تھا۔
: نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامہ کے اقلیتی کردار معاملہ میں دہلی اقلیتی کمیشن نے جامعہ کے وائس چانسلر کے نام نوٹس جاری کیا ہے – کمیشن کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق کمیشن نے وائس چانسلر سے مندرجہ ذیل سوالات پوچھے ہیں۔
1. نیشنل کمیشن فارمائناریٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز کے ذریعہ 22 فروری 2011کو جامعہ کو دئے گئے اقلیتی کردار کے بارے میں جامعہ ملیہ کی کیا رائے ہے؟
2.اگر ایسی کوئی رائے ہے تو وہ کسی طرح طے کی گئی ہے۔ روئیداد اور فیصلے کی کاپی بھیجئے۔
3. جامعہ ملیہ کی لیگل ٹیم کی لسٹ فراہم کیجئے۔
4. اس بات کی وضاحت کیجئے کہ جامعہ کے اقلیتی کردار کا دفاع کرنے کے لئے دہلی ہائی کورٹ میں 13 مارچ 2018 کو کوئی وکیل کیوں موجود نہیں
تھا؟5.جامعہ ملیہ کے کردار کے دفاع میں کوتاہی کی وجہ سے جامعہ کی لیگل ٹیم کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے؟
واضح ہو کہ گزشتہ 13 مارچ کو جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار کا معاملہ ہائی کورٹ میں پیش ہوا تو اس اہم کیس میں جامعہ ملیہ کا وکیل عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوا- نتیجتاً مرکزی حکومت کے تبدیل کردہ حلف نامے کو عدالت نے بغیر کسی جرح کے قبول کرلیا۔ نئے حلف نامے میں مرکزی حکومت نے جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار کی مخالفت کی ہے جبکہ سابقہ حکومت نے اقلیتی کردار کیتائیدمیں حلف نامہ داخل کیا تھا۔
دریں اثنا انڈین ایکسپریس کے مطابق اس معاملہ میں جامعہ انتظامہ کا کہنا ہے کہ انھیں قبل از وقت اطلاع نہیں ملی جس کی وجہ سے کورٹ میں حاضر نہیں ہو سکا – جامعہ انتظامہ کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ عدالت میں مرکزی حکومت کے حلف نامہ کی مخالفت کرینگے ۔
غور طلب ہے کہ جسٹس سہیل صدیقی کی سربراہی والے کمیشن نے 22 فروری 2011کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اقلیتی تعلیمی ادارے کا درجہ دیا گیا تھا، جس کے خلاف کچھ لوگ عدالت میں گئے اور حکومت وقت نے جامعہ کے اقلیتی کردار کی تائید میں حلف نامہ داخل کیا تھا۔ 2014میں بی جے پی نے بر سراقتدار آنےکے بعد جامعہ کے اقلیتی کردار کی مخالفت کی تھی۔
Categories: خبریں