اٹونامی کی آمد کے ساتھ ساتھ اب تعلیمی ادارےدکانوں میں تبدیل کر دئے جائیںگے جہاں بازار کی ضروریات کے مطابق نصاب تیار کئے جائیںگے اور اسی کے مطابق ان کی فیس طے ہوگی۔
ہم سے چھین لی گئی
کاپی قلم کتاب
قید کر لیا گیا
ہمارے سپنے کو
پھر ہم سے کہا گیا
تم خود سوایت ہو
ہمارے ادھیکاروں کو چھیننے کے لئے
انہوں نے ایک نیا شبد گڑھا ہے ‘سوایتتہ ‘
جیسے انہوں نے کبھی انگوٹھا کاٹنے کو کہا تھا
‘ گرو دکشنا ‘
ـپردیپ کمار سنگھ
کتنی سچ ہے یہ لائن کہ ہمارے حقوق کو چھیننے کے لئے ہی اکثر اقتدار نئے نئے لفظ، نئے نئے نعرے اور جملےتخلیق کرتا رہتا ہے۔ اس بار یہ حملہ ہماری تعلیم کے حق پر ہے۔حملے کے لئے جس ہتھیار کا استعمال ہونا ہے وہ ہے ‘ خودمختاریت ‘ کا۔ ایم ایچ آر ڈی منسٹر پرکاش جاویڈکر نے ملک کی 62 یونیورسٹیوں اور کالجوں کو ‘ آٹونومس یونیورسٹی ‘ کا درجہ دینے کا اعلان کیا ہے۔جس میں پانچ مرکزی یونیورسٹیاں بھی ہیں۔ ‘ آٹونومس ‘ لفظ سننے میں تو کتنا اچھا لگتا ہے جس کا معنی ہے ‘ خودمختاری ‘ پر اس تناظر میں بات جب اعلیٰ تعلیم کی ہو رہی ہو تو ذرا محتاط ہو جانے کی ضرورت ہے۔
دراصل ‘ خودمختاری ‘ کے پیچھے وسیع طور سے تمام سرکاری تعلیمی اداروں کی نجی کاری کا ایک بڑا منصوبہ کام کر رہا ہے۔جس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ ان خود مختار اداروں میں سیلف-فائنانسڈ کورس کا سیلاب آئےگا، جس کے پاس جتنا پیسہ ہوگا وہ اتنا ہی بہترین کورس (جاب دلانے میں اثردار) پڑھ پائےگا۔ ‘خودمختاری ‘پالیسی کی سطح پر اقتصادی طور پر کمزور طبقوں سے آنے والے طالب علموں، ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کے ان کے بنیادی حقوق کو ان سے چھیننا ہے۔اس لئے ملک کی اکثریتی آبادی اعلیٰ تعلیم کے دائرے سے باہر ہو جانے والی ہے۔ یہ سماج کے وہ حصے ہیں جو روایتی طور پر تعلیم اور روزگار کے مواقع سے باہر رہے ہیں۔اتناہی نہیں ‘ خودمختاری ‘ کے اس منصوبہ کے تحت اساتذہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے Contractualisation کی طرف ڈھکیل دیا جائےگا۔ جہاں ایک استاد کے طور پر ان کے حقوق کا دائرہ بہت ہی سکڑا ہوگا۔
‘ خودمختاری ‘ کے نام پر کہا جا رہا ہے کہ اب خود مختار اداروں کو نئے کورس اسٹرکچر شروع کرنے کی اجازت کے لئے یو جی سی کے پاس نہیں جانا ہوگا۔یہاں سوال پوچھا جانا چاہئے کہ ریاست اور مرکز کے تحت آنے والی تمام یونیورسٹیوں کا قیام اسمبلی / پارلیامنٹ کے تحت ہوا تھا ان کے پاس تو ہمیشہ سے اپنے نصاب کو بنانے کی آزادی رہی ہے۔غیر ملکی تعلیمی اداروں کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کرنے اور اکیڈمک تعلق بنانے کی آزادی رہی ہے۔ تو آخر اس کے لئے ‘ خودمختاری ‘ کی آڑ لینے کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟حکومت ‘ خودمختاری ‘ کی دلیل دےکر دراصل اعلیٰ تعلیم سے اپنے ہاتھ کھینچنے کی فکر میں ہے۔ یقینی طور پر اعلیٰ تعلیم کو بازار کے لئے کھول دینے کا منشا تو نمایاں طور پر اس کے پیچھے کام کر ہی رہا ہے۔اصل میں ‘ خودمختاری ‘ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ذاتی تعلیمی اداروں کے زمانے کےآغاز کا اشارہ ہے۔
ویسے جاویڈکر جیکے پاس ان بڑھی ہوئی فیسوں کو کیسے ادا کیا جا سکےگا اس کا بھی جواب ہے وہ طالب علموں کو بینک لون دلوانے کا انتظام کروانے والے ہیں۔ طالبات تحریک کی ایک بہت پرانی مانگ ہے جو ایک نعرے کے طور پر بھی کافی مشہور ہوئی ‘ تعلیم پر کتنا خرچا ہو / بجٹ کا دسواں حصہ ہو ‘ اگر تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات تک حکومت مہیّا کرانے سے اپنا پلا جھاڑ رہی ہے تو اس پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، نہیں تو ہمارے طالب علم جب یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوکر نکلیں گے تب صرف ان کی آنکھوں میں مستقبل کے خواب ہی نہیں ہونگے بلکہ ان کے کندھوں پر قرض کا بوجھ بھی ہوگا۔
مجوزہ خود مختار یونیورسٹیوں کے لئے بھی جاویڈکر جی نے ایک انتظام کیا ہے، اس جنّ کا نام ہے ایچ ای ایف اے (Higher Education Funding Agency) جو منٹوں میں آپ کی تعلیم پر ہونے والے خرچ کا حل لا سکتا ہے، لیکن دوستو اس جنّ کو جتنی جلدی ممکن ہو بوتل میں بند کرکے بحر ہند میں پھینک دینے کی ضرورت ہے۔ ایچ ای ایف اے یونیورسٹیوں کو اپنا انفراسٹرکچر چلانے کے لئے لون دےگا اور جس کو چکانے کے لئے یہ ادارہ طالب علموں کی فیس بڑھائیںگے۔ آخرکار پسیں گے بیچارے طالب علم ہی۔’خودمختاریت ‘ کا تعلیم کی خوبی سے، پڑھنے اور پڑھانے کی آزادی سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہےبلکہ اپنے اصل کردار میں یہ برابری اور اعلیٰ تعلیم تک ہر خاص و عام کی پہنچکی بنیادی قیمت کی پامالی ہے۔
‘ خودمختاری ‘ کی آمد کے ساتھ ساتھ اب تعلیمی ادارے دکانوں میں تبدیل کر دئے جائیںگے جہاں بازار کی ضروریات کے مطابق نصاب تیار کئے جائیںگے اور اسی کے مطابق ان کی فیس طے ہوگی۔کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھ ہی سکتا ہے کہ آخر بازار کے مطابق نصاب کو ڈھالنے میں برائی ہی کیا ہے؟ پر کیا ہم نہیں جانتے کہ تمام سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں نے لمبی مدت میں جو شناخت بنائی ہے اس کو ذاتی ہاتھوں میں سونپ دینا کتنا خوفناک ہو سکتا ہے۔
پرائیویٹ ادارے فائدے کے لیے کام کرنے والے ادارے ہوتے ہیں۔ ان پر کسی یو جی سی یاایم ایچ آر ڈی کا کوئی دباؤ یا قابو کام نہیں کرےگا۔ تب ان کے اثرات کو برقرار رکھناتقریبا ناممکن ہو جائے گا۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ سرکاری اداروں پر تو عوامی دباؤ کام کرتا ہے پر کیا ان ذاتی اداروں میں ٹھیک اسی طرح وظیفہ اور ریزرویشن سے متعلق اصولوں پر عمل ہو پائےگا جو اعلیٰ تعلیم کو سبھی کے لئے یکساں طورپر دستیاب کرانے میں اثردار کردار نبھاتا آیا ہے؟اس سب کے ساتھ ایک بہت بڑا خطرہ موجودہ نصاب پر بھی منڈلا رہا ہے۔ یقینی طور پر سیلف فائننسڈ کورس کی اس بھیڑ میں وہ تمام نصاب جو ابھی تک تعلیم کے ‘ علم کی نشریات ‘ ‘ سماجی شعور ‘ اور انسان کو سماج کے لئے ایک بہتر اکائی کے طور پر بہتر کرنے کے اپنے بڑے مقصد کی خدمت کر رہے تھے، وہ یا تو سمیٹ دئے جائیںگے یا پھر اس گلاکاٹ مقابلہ کی ہوڑ میں خودہی دم توڑ دیں گے۔
کمرشیل ، اقتصادیات وغیرہ جیسے موضوعات پھر بھی ٹک پائیںگے پر سماجیات، ادب اور انسانیت کے دیگر موضوعات جو براہ راست بازار اور اس کی ضروریات سے نہیں جڑتے، ان کا کیا ہوگا؟’خودمختاریت ‘ دراصل ‘ علم ‘ اور ‘ تعلیم ‘ کے اسی بنیادی نظریہ پر ظلم ہے۔ کیا تعلیم کا مقصد صرف بازار کے لئے مزدور پیدا کرنا ہے؟ آج انہیں سوالوں سے ہمیں دو چار ہونے کی ضرورت ہے۔ذرا اور تفصیل سے جانتے ہیں کہ ‘ خودمختاریت ‘ کے اس پیکج میں ہمارے لئے اور کیاکیا ہے۔تمام ‘خود مختار’ یونیورسٹیوں اور کالجوں کو I / II / III بالترتیب تین زمرے میں تقسیم کیا جائے گا۔ جن اداروں کو این اے اے سی (National Assessment and Accreditation Council)سروے میں 3.5 یا اس سے زیادہ یا National Institute Ranking Framework (این آئی آر ایف)کے ذریعے 50 تک کی برتری میں مقام ملا ہے وہ زمرہ I کے تحت رکھے جائیں گے۔
وہ ادارہ جن کو این اے اے سی کے ذریعے 3.01 سے لےکر 3.49 تک کا اسکور ملا ہے یا این آئی آر ایف کے ذریعے 100-51 تک کی برتری والے اداروں کو زمرہ II میں رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ باقی ادارے زمرہ III میں رکھے جائیںگے۔زمرہ I میں آنے والی مرکزی یونیورسٹیز کو ‘خود مختاری’ حاصل کرنے کےلیے ماہرین کی کمیٹی کی منظوری تک کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہر استاد کی تنخواہ اور خدمات کی شرائط انتظامیہ کی طرف سے ذاتی طور پر طےکی جائیں گی۔ مینجمنٹ کو یہ حق ہوگا کہ وہ کل فیکلٹی کے20 فیصدعہدے غیر ملکی اساتذہ کو دے سکیں اوراتنا ہی نہیں ان کی تنخواہ کا پیمانہ بھی زیادہ ہو گا جو ان کی مانگ کے مطابق بڑھایا جا سکتا ہے۔
یہ تنخواہ خود مختار ادارے کو اپنے ہی ذرائع سے حاصل کرنا ہوگا۔ طالب علموں کی کل سیٹوں کا 20 فیصد بھی غیر ملکی طالب علموں کو دیا جا سکےگا، جس کے لئے ان سے من مانی فیس بھی وصولی جا سکےگی۔’خودمختاری ‘ کے طورپر اعلیٰ تعلیم کی دنیا پر یہ ابھی تک سب سے بڑا حملہ ہوگا۔ یہ ضروری ہے کہ اس کا عوام مخالف چہرہ جلد سے جلد عوام کے سامنے اجاگر ہو جائے۔اعلیٰ تعلیم کے حال اور مستقبل پر اس حملے کی آہٹ پاکر دہلی یونیورسٹی ٹیچرس اسوسی ایشن (ڈی یو ٹی اے) سمیت ملک بھرکے تعلیمی ادارے اور طالب علم آج سڑکوں پرہیں۔تعلیم پر حملہ سماج کی بنیاد پر حملہ ہے، یہ ضروری ہے کہ عام لوگ بھی اس لڑائی میں ساتھ آئیں اور اس کو مضبوط بنائیں۔ حملہ وحشیانہ ہے دوستو لڑائی بھی بہت تیکھی ہو گی!
(اوما راگ دہلی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر