’میں امن چاہتا ہوں۔ میرا بیٹا تو جا چکا ہے۔میں نہیں چاہتا کہ کوئی خاندان اپنے عزیزوں سے محروم ہوجائے۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ بدلا لیا گیا تو میں آسنسول چھوڑ دوں گا ۔اگر آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں تو انگلی بھی نہیں اٹھائیں گے۔
نئی دہلی :مغربی بنگال میں رام نومی کے دن شروع ہونے والا تشدد تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔گزشتہ اتوارکو ہوئے اس تشدد میں اب تک 5 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں چوتھے فرد کی پہچان آسنسول کی نورانی مسجد کے امام کے 16 سالہ بیٹے کے طور پرکی گئی ہے۔ بیٹے کی موت کے بعدمسجد کے امام مولانا امداداللہ رشیدی نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے یہاں لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے امن وامان کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بدلے کی بات کریں گے تو میں مسجد اور شہر چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی باپ اپنابیٹا کھو ئے ۔واضح ہو کہ امام کا مقتول بیٹا صبغۃ اللہ رشیدی اس سال بورڈ کےامتحان (دسویں) کے دوران دکھائی دیا تھااورآسنسول کے ریل پارکے علاقے میں ہوئے تشدد کے بعد سے لا پتہ تھا۔
ذرائع کے مطابق، بلوائیوں نے اس کو اٹھالیا تھا۔ بعد میں،اس کی لاش بدھ کو دیر رات برآمد کی گئی ۔ جمعرات کو اس کی شناخت کی گئی ۔ شک جتایا جارہا ہے کہ اس کو پیٹ پیٹ کر ماردیا گیا تھا۔ 48 سالہ مولانا رشیدی نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ جب وہ باہر نکلا تو افراتفری مچی ہوئی تھی۔ شر پسند عناصر وں نے اس کو اٹھالیا۔ رشید نے مزید کہاکہ ، ’میرے بڑے بیٹے نے پولیس کواطلاع دی ، لیکن پولیس اسٹیشن میں اس کو انتظار کرنے کے لیے کہا گیا۔ بعد میں یہ اطلاع دی گئی کہ پولیس نے ایک لاش برآمد کی ہے، جس کی شناخت اگلی صبح کی گئی۔
غور طلب ہے کہ صبغۃ اللہ کو دفن کرنے کے بعد عید گاہ میدان میں ہزاروں لوگ جمع ہوئے تھے ، جہاں مولانا رشید نے بھیڑ سے امن و امان قائم کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے لوگوں سے کہاکہ ؛
’میں امن چاہتا ہوں۔ میرا بیٹا تو جا چکا ہے۔میں نہیں چاہتا کہ کوئی خاندان اپنے عزیزوں سے محروم ہوجائے۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ بدلا لیا گیا تو میں آسنسول چھوڑ دوں گا ۔اگر آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں تو انگلی بھی نہیں اٹھائیں گے۔
انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں امام رشید ی نے مزید کہا کہ وہ گزشتہ تیس برسوں سے مسجد کے امام رہے ہیں ۔یہ ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو صحیح پیغام دے، امن کا پیغام۔مجھے اپنے ذاتی نقصان سے نکلنے میں وقت لگے گا۔انہوں نے کہا کہ آسنسول کے لوگ ایسے نہیں ہیں ۔یہ سب ایک سازش ہے۔آسنسول کے میئر جتیندر تیواری نے کہا کہ لوگوں کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی قوت ، صبر اور انتظامیہ کے ساتھ امام کے مدد کرنے کے جذبہ پر ہم فخر محسوس کرتے ہیں ۔اپنے بیٹے کو کھو دینے کے باوجود لوگوں سے ان کی اپیل معمولی بات نہیں ہے۔
I wil not•Wil take them to court• I have already filed a FIR against one Police officer who assaulted me, pushed&threatened me•Why encircle me with RAF?What ws RAF doing when the victims’ were beaten, their houses burnt down&looted?Shall continue 2 fight against this injustice https://t.co/U5389r9wtQ
— Babul Supriyo (@SuPriyoBabul) March 30, 2018
دریں اثنا بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر بابل سپریو نے آسنسول کے تشدد زدہ علاقے میں جانے کی کوشش کی لیکن ریاستی پولیس نے انہیں اجازت نہیں د ی ۔پولیس سے ہاتھاپائی کے الزام میں ان پر غیر ضمانتی دفعات کے تحت مقدمہ دائر کیا گیاہے۔بی جے پی لیڈر نے بھی اپنی طرف سے ایک مقدمہ دائر کیا ہے جس میں الزام لگایا ہے کہ آئی پی ایس آفیسر نریش کمار نے ان پر حملہ کیا تھا۔
یواین آئی اردو کے مطابق؛ تشدد کے واقعات کے بعد سے ہی رانی گنج اور آسنسول میں حالات کشیدہ ہیں ۔کل تک جھڑپ کے اکادکا واقعات ہوئے تھے مگر اب حالات کنٹرول میں ہیں ۔یہاں بڑی تعداد میں پولس اہلکار اب بھی تعینات ہیں۔ انٹر نیٹ خدمات بھی بند ہیں۔
Categories: خبریں