فیک نیوز: کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے آئینی ادارے بیحد دباؤ میں ہیں اور سب کچھ سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کے دفتروں میں طے کیا جا رہا ہے!
آئین میں چار ادارے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور ڈاکٹر امبیڈکر نے ان اداروں کو ‘جمہوریت کا محافظ’ قرار دیا تھا ۔ہم سپریم کورٹ، کنٹرولر آڈیٹر جنرل، یونین پبلک سروس کمیشن اور الیکشن کمیشن کی بات کر رہے ہیں۔ مودی حکومت کے موجودہ دور میں جس طرح سپریم کورٹ کےچار ججوں نے انکے ادارے میں موجود سرکاری دخل کو دبے الفاظ میں میڈیا کے سامنے رکھا تھا، اسی طرح کے کچھ منظر ہمارے سامنے گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن کے تعلق سے بھی ظاہر ہوئے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان اداروں میں ان لوگوں کی مداخلت ہو رہی ہے جو آئینی اقدار کے قدردان نہیں ہیں !
27 مارچ کی صبح 11:08 پر بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے ایک ٹوئٹ کیا کہ صوبہ کرناٹک میں 12 مئی کو اسمبلی انتخابات ہیں جن کا نتیجہ 18 مئی تک آ جائےگا ۔یہ ایک معمولی ٹوئٹ تھا جس نے ملک کے سیاسی ماحول میں ہنگامہ برپا کر دیا کیوں کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ پیش آیاکہ جب کسی انتخاب کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کے آفیشل اعلان سے پہلےکسی سیاسی پارٹی کے آئی ٹی ترجمان نے کیا ہے۔
امت مالویہ کے اس ٹوئٹ کے بعد سوشل میڈیا پر اس بات کو لیکر ہنگامہ ہوا کہ الیکشن کمیشن کی ٹاپ سیکرٹ باتیں سیاسی پارٹیوں کو کیسے دستیاب ہیں ؟ لوگوں نے قیاس لگائے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے اور ملک کا جمہوری نظام خطرے میں ہے !امت مالویہ کے علاوہ کرناٹک کانگریس کے سوشل میڈیا انچارج سری واستو نے بھی اسی وقت ٹوئٹ کیا تھاجو امت مالویہ نے کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے کہا گیا کہ کمیشن اس کی تفتیش کریگا اور مجرموں کے لئے سزا کا مطالبہ کریگا۔ امت مالویہ نے الیکشن کمیشن کو لکھے اپنے خط میں یہ صفائی دی کہ انکا ٹوئٹ آئینی اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے اور یہ کہ انہوں نے ٹائمز ناؤ چینل کی خبر کے بعد ہی ٹوئٹ کیا تھا۔ بقول امت ، ٹائمز ناؤ نے سب سے پہلے 11:06 بجے الیکشن کی تاریخ والی بریکنگ نیوز دکھائی تھی ، جس کو دیکھ کر ہی انہوں نے اپنا ٹوئٹ کیا تھا ! اپنے خط میں امت نے ٹائمز ناؤ کے اسکرین شاٹ پر یہ دعویٰ کیا ہے۔
امت مالویہ فیک نیوز کے معاملے میں بہت آگے رہتے ہیں جیسا کہ ہم اپنے قارئین کو گجرات -ہماچل اور نارتھ ایسٹ صوبائی انتخابات کے دوران بھی آگاہ کرتے رہے ہیں ۔ بی جے پی اور پارٹی کے سینئر لیڈران نے امت کے دفاع میں بیانات بھی دیے ہیں ۔ ان سب کے درمیان قابل غور بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن سے پہلے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کوئی غیر ذمہ دار ادارہ کیوں کر رہا ہے ، چاہے وہ کسی سیاسی پارٹی کا دفتر ہو یا کسی میڈیا ہاؤس کا دفتر! موجودہ حالت سنجیدہ رد عمل کی توقع رکھتے ہیں کیوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے آئینی ادارے بیحد پریشر میں ہوں اور سب کچھ سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کے دفتروں میں طے کیا جا رہا ہو !
فیک نیوز کی اشاعت کبھی کبھی بے خبری میں بھی ہو جاتی ہے جہاں فیک نیوز عام کرنے والے شخص کا مقصد یہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ قارئین کو گمراہ کرے۔ ایسا ہی کچھ گزشتہ ہفتے کانگریس لیڈر ششی تھرور کے ساتھ بھی پیش آیا جب انہوں نے مہاویر جینتی پر گوتم بدھ کی تصویر شائع کی ۔ششی تھرور کے اس ٹوئٹ پر سوشل میڈیا میں بہت تفریح اور مزاح کا ماحول رہا اور لوگوں نے اسی انداز میں سیاسی جملے بھی کہے۔
بوم لائیوکے مطابق اس کے بعد ششی تھرور نے ایک ویب سائٹ کی لنک ٹوئٹ کی اور کہا کہ ان کے غلط ٹوئٹ کا ماخذ یہ لنک ہے۔ تھرور نے اپنے قارئین کا شکریہ بھی ادا کیا کہ انہوں نے غلط ٹوئٹ کی نشاندہی کی۔ اس کے بعد ششی تھرور نے کچھ ٹوئٹ کئے جن میں امراجالا ، جن ستا، ہندوستان جیسے اخبارات نے بھی ششی تھرو کی طرح سوامی مہاویر کی غلط تصویریں عام کی تھی۔
بہار اور بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران گزشتہ ہفتے حیدرآباد کی ایک تصویر سوشل میڈیا میں بہت عام ہو ئی ۔ بھگوا ذہنیت کے افراد نے اس تصویر کو یہ کہہ کر عام کیا کہ حیدرآباد کی ایک مسجد کو ہندو شیر اور مقامی لیجسلیٹو ممبر ٹی راجہ سنگھ نے رام نومی کے جشن کے دوران سفید برقع میں ڈھک دیا اور مسجد کے اوپر ‘جے شری رام’ کا بینر لگوا دیا !
حیدرآباد کے ایک انتخابی حلقے گوشہ محل کی مسجد سے تعلق رکھنے والی یہ فیک نیوز بڑے وبال کا سبب بن سکتی تھی لیکن وقت رہتے ہی تصویر کی حقیقت کا انکشاف کر دیا گیا اور اپنی ان خدمات کے لئے حیدرآباد پولیس مبارکباد کی مستحق ہے۔سوشل میڈیا ہوَش سلیر کے مطابق گوشامحل میں مسجدوں کو ڈھکنے کا سلسلہ پرانا ہے اور یہ کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد کے خوف سے احتیاطاًمساجد کو ڈھکنے کا کام کیا جاتا ہے اور اس کام میں سرکاری محکموں اور دفتروں کا اہم کردار ہوتا ہے، اسمبلی ممبران کا اس طرح کے کاموں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے اسمبلی ممبر ٹی راجہ سنگھ نے ایسا کچھ نہیں کروایا تھا جس کا فیک تصویر میں دعویٰ کیا گیا ہے !
دوسری بات اس بینر کی تھی جس کے بارے میں یہ عام کیا گیا تھا کہ وہ بینر مسجد کے اوپر لگایا گیا تھا جس پر جے شری رام لکھا تھا ! دراصل وہ بینر مسجد پر نہیں لگا تھا۔وہ سڑک کے بیچ میں موجود تھا لیکن فاصلے سے لی گئی تصویر میں ایسا لگ رہا تھا کہ مسجد کے سفید غلاف پر اسکو لگا دیا گیا ہے ! لہذا سوشل میڈیا میں عام کی گئی تصویر جھوٹ پر مبنی تھی۔
30 مارچ کو سوشل میڈیا ہوَش سلیر نے اس فیک نیوز کا انکشاف کیا جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ بی جے پی کے پارلیامانی رکن اشوک سکسینہ اور سنگھ کے غنڈے سولر پینل کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور ان کو توڑ رہے ہیں ! یا تصویر ‘عام آدمی پارٹی’ نامی گروپ میں فیس بک پر شائع کی گئی تھی اور تقریباً اس کے آٹھ ہزار شئیر ہوئے تھے۔ بعض جگہ اس کا ویڈیو بھی سوشل میڈیا میں عام ہوا اور وہ اتنا عام ہوا کہ پاکستان کے سوشل میڈیا گروپوں میں بھی اس بات کا مذاق بنایا گیا کہ انکے لیڈر اور ہندوستانی عوام یہ سوچتے ہیں کہ سولر پینل کو استعمال کرنے سے سورج دیوتا ناراض ہو جاتے ہیں اس لئے سولر پینل کا استعمال جائز نہیں ہے !
اسی ویڈیو کا استعمال پچھلے مہینے فروری میں بی جے پی کارکنوں نے بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ مودی مخالف طاقتیں مودی کے وکاس سے نفرت کرتی ہیں اس لئے ایسی حرکتیں انجام دے رہی ہیں !سوشل میڈیا ہوَش سلیر نے بتایا کہ ویڈیو اور تصویر میں اشوک سکسینہ موجود نہیں ہیں اور یہ ویڈیو ایک مہینے پرانا ہے۔ ویڈیو مہاراشٹر کے چالیسگاؤں جگہ کا ہے جہاں مزدوروں کو جب انکا محنتانہ نہیں ملا تو انہوں نے غصے میں یہ قدم اٹھایا تھا !
Categories: خبریں