ریاست کے فرقہ وارانہ تشدد سے بچے رہنے کا کریڈٹ اس وقت کے وزیراعلیٰ لالو پرساد یادو کو جاتا ہے ۔لالو کے بعد نتیش آئے جنہوں نے فرقہ وارانہ تشددکے متعلق ’ زیرو ٹالرینس ‘ پالیسی اپنائی تھی۔ اس وقت ان کی معاون بی جے پی کمزور تھی، اس لئے وہ اپنی شرطیں نافذ کرنےمیں کامیاب رہے۔
حالیہ سالوں تک بہار اور مغربی بنگال میں رام نومی کے موقع پر تلوار بھانجتے ہوئے نکلنے والے جلوس عام بات نہیں تھی اس طرح کے مذہبی جلوس بہار کے چھوٹا ناگ پور پٹھار تک ہی محدود تھا جو 15 نومبر 2000 کو جھارکھنڈ کا حصہ ہو گیا۔1979میں ہوئے جمشیدپور فسادات اور اس کے ایک دہائی بعد ہزاری باغ میں ہوئے دو بڑے فرقہ وارانہ فسادات ایسے تھے جنہوں نے بہار کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔تیر کمان جیسے روایتی ہتھیاروں سے سجے یہ لوگ، جن میں زیادہ تر آدیواسی ہوتے تھے اور جن کو سنگھ پریوار کا تحفظ ملا ہوا تھا، اکثر ایسے جلوس نکلتے تھے، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو جاتی تھی۔
جہاں اس سال رام نومی کے دوران جھارکھنڈ زیادہ تر پر امن رہا، بہار کے کم سے کم 10اور مغربی بنگال کے 4 ضلع میں دنگے ہوئے۔ان فسادات کو اگر ان کی فطرت اور تشدد کے پیمانے پر دیکھا جائے تو یہ 1989 میں درگا پوجا کے دوران ہوئے بھاگل پور فسادات اور اوپر بتائے گئے جمشیدپور اور ہزاری باغ کے فسادات سے بالکل الگ تھے۔1989سے بہار زیادہ تر پرامن ہی رہا ہے۔اکتوبر اور نومبر 1990 میں بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی کی ‘ رتھ یاترا ‘ روککر ہوئی ان کی گرفتاری کے بعد پٹنہ میں اور ایودھیا میں بابری انہدام سے 2 مہینے پہلے اکتوبر 1992 میں سیتامڑھی میں فرقہ وارانہ تشدد کے کچھ واقعات ہوئے تھے۔
ریاست کے فرقہ وارانہ تشدد سے بچے رہنے کا کریڈٹ اس وقت کے وزیراعلیٰ لالو پرساد یادو کو جاتا ہے جنہوں نے 15 سال تک ریاست کی کمان سنبھالی۔لالو کے بعد نتیش کمار آئے جنہوں نے نومبر 2005 سے جون 2013 تک این ڈی اے اتحاد کی حکومت چلائی۔ فرقہ وارانہ عناصر کے متعلق نتیش نے ‘ زیرو ٹالرینس ‘ پالیسی اپنائی تھی۔ کیونکہ اتحاد میں ان کی معاون بی جے پی تب کمزور تھی، اس لئے وہ اپنی شرطیں نافذ کرنے کی حالت میں تھے اور لاء اینڈ آرڈر پوری طرح وزیراعلیٰ کے کنٹرول میں تھا۔
حالانکہ 2013 میں جب نتیش نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑا تو حالات بدلنے لگے۔ یہ وہی وقت تھا جب نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی ترقی ہو رہی تھی۔ اس وقت بی جے پی نے اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے شروع کئے تھے اور2015-2013کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کے کئی واقعات ہوئے۔ وہیں دوسری طرف نتیش نے نو مہینے کے لئے ریاست کی کمان اپنے معاون جیتن رام مانجھی کو سونپ دی۔حالانکہ جب وہ ایک بار پھر پوری طرح سے طاقت ور ہوئے تو انہوں نے مانجھی کو ہٹایا اور نومبر 2015 میں آر جے ڈی اور کانگریس کی حمایت سے اسمبلی انتخاب جیتا۔ نتیش کی اس سیاسی واپسی میں آر جے ڈی کے اتحاد کے ساتھ ان کو فرقہ وارانہ حالات سے نمٹنے میں مدد ملی حالانکہ اگست 2016 میں سارن ضلع میں ماحول خراب کرنے کی کوششیں ہوئی تھیں۔
جولائی 2017 میں نتیش کی مہاگٹھ بندھن والی سرکارگری اور نتیش پھر سے بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کا حصہ بنے۔سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس بار نتیش نے یہ سمجھنے میں بھولکر دی کہ اس بار ان کا سامنا پہلے کے مقابلے میں طاقتور بی جے پی سے ہوا ہے، جو اکثریت کے ساتھ مرکز میں ہے۔ نتیجہ کے طورپر بہار کے حالات بدل گئے، اب ریاستی حکومت میں اور بی جے پی مرکز میں ہے اور وزیراعلیٰ معاون کردار میں دکھتے ہیں۔ہندو نئے سال کی شام 17 مارچ کو بھاگل پور میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور25-26مارچ کو رام نومی پر ریاست میں کئی جگہوں پر ہوئی کشیدگی اور جھڑپیں بی جے پی کے ذریعے نظر انداز کرنے کا پہلا معاملہ نہیں تھا۔
گزشتہ ستمبر میں جب پٹنہ کے ضلع انتظامیہ نے محرم کی وجہ سے درگا پوجا وسرجن کے لئے وقت طے کیا تھا تب مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے نتیش حکومت کی تنقید کی تھی۔اس کے بعد انتظامیہ نے اپنا حکم منسوخ کر دیا تھا۔ایک اور مرکزی وزیر اشونی چوبے کے بیٹے ارجیت شاشوت کا بھاگل پور تشدد میں شامل ہونا ایک دیگر معاملہ ہے۔ 18 مارچ کو ایک دن پہلے ایک بلا اجازت جلوس نکالنے کا الزام لگا تھا۔ اس پر ان کے والد نے سخت رد عمل دیتے ہوئے ایف آئی آر کو ردی کا ٹکڑا کہا جس کو بھاگل پور کے بدعنوان افسروں نے درج کروایا تھا۔حالانکہ کسی مرکزی وزیر کا اس طرح حکومت کی توہین کرنا غیر متوقع تھا لیکن ریاست کی انتظامیہ بس خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس بیچ ارجیت شاشوت رام نومی کے موقع پر ایک اور شوبھایاترا نکالنے کے لئے پٹنہ پہنچ گئے۔
27 مارچ کو پہلی بار جے ڈی یو کے جنرل سکریٹری کے سی تیاگی نے مرکزی وزیر کی بات کی تنقید کرتے ہوئے بیان جاری کیا۔ نتیش کمار نے بھی کہا کہ وہ فرقہ وارانہ مدعے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریںگے۔وزیراعلیٰ نے بھلےہی ایسا کہا ہو لیکن سچ یہی ہے کہ شاشوت بھاگل پور تشدد کے 12 دن بعد تک کھلےعام گھوم رہے تھے۔ ان 12 دنوں کے دوران ریاست کے اورنگ آباد، منگیر، آرا، سمستی پور اور نوادا جیسی کئی اور جگہوں پر فسادات ہوئے۔نتیش کی پچھلی این ڈی اے حکومت میں چوبے اور گری راج سنگھ دونوں ہی کیبنیٹ میں تھے۔ ان کی امیج تب بھی ہارڈکور رائٹسٹ کی ہی تھی۔
آج یہ دونوں رہنما مرکزی وزیر ہیں اور نریندر مودی کے وفا دار سمجھے جاتے ہیں اور دونوں ہی نتیش کے مقابلے مضبوط حالت میں نظر آتے ہیں۔ بی جے پی کے ساتھ ہوئے سمجھوتے میں نتیش کمار اپنی تمام شرطیں کھو چکے ہیں۔بی جے پی 2019 کےعام انتخابات تک ملک میں فرقہ وارانہ ماحول گرم رکھنا چاہتی ہے اور اس طرح کے فسادات ان کے سیاسی مقصد کے لئے مفید ہیں۔ اس طرح بی جے پی بہار کے حالات سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے اور نتیش کمار محض ایک بے بس تماش بین بنکر رہ گئے ہیں۔
(سرور احمد، آزاد صحافی ہیں اور پٹنہ میں رہتے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر