وزیر مملکت برائے خزانہ شوپرتاپ شکلا نے راجیہ سبھا میں ریزرو بینک کے حوالے سے ایک تحریری جواب میں یہ جانکاری دی۔
نئی دہلی: ملک کے پبلک سیکٹر کے بینکوں نے مالی سال 15-2014سے ستمبر 2017 تک 241911 کروڑ روپے کی Non-performing asset (این پی اے) کو بٹے کھاتے میں ڈالا ہے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ شیو پرتاپ شکلا نے منگل کو راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں یہ جانکاری دی۔بٹے کھاتے میں ڈالنے کا مطلب ہے کہ بینکوں نے اب اس رقم کو واپس پانے کی امید چھوڑ دی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان بینکوں کے گلوبل آپریشن پر ریزرو بینک آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، پبلک سیکٹر کے بینکوں نے 241911 کروڑ روپے کے این پی اے (وصول نہیں ہو پائے قرضوں) کو بٹے کھاتے میں ڈالا ہے۔
وزیر مملکت برائے خزانہ نے بتایا کہ این پی اے کو بٹے کھاتے میں ڈالنا ایک عام عمل ہے۔ بینکوں کے ذریعے اپنی بہی کھاتے کو صاف ستھرا کرنے کے لئے یہ کارروائی کی جاتی ہے۔ ٹیکس منافع اور سرمایہ کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے لئے بھی بلاکڈ قرضوں کو بٹے کھاتے میں ڈالا ہے۔شکلا نے واضح کیا کہ ایسے قرض کو بٹے کھاتے میں ڈالنے کے بعد بھی قرض دار پر دین داری بنی رہتی ہے اور ان کو اس کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ وصولی کا عمل قانونی نظام کے تحت مسلسل بنیاد پر چلتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مالی اثاثوں کی Securitisation and Reconstruction of Financial Assets ,SARFAESI Act،قانون Debts Recovery Tribunal (ڈی آر ٹی) اور لوک عدالتوں کے ذریعے بٹے کھاتے میں ڈالے گئے قرض کی وصولی کا عمل چلتا رہتا ہے۔
وزیر نے واضح کیا کہ کسی قرض کو بٹے کھاتے میں ڈالنے کا مطلب قرضدار کو فائدہ پہنچانا نہیں ہے۔ قرض دار سے قرض کی وصولی کا عمل جاری رہتا ہے۔مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا قانون 1934 کی دفعہ 45 ای کے تحت ہر قرض دار کی بنیاد پر قرض سے متعلق جانکاری نہیں دی جا سکتی ۔ اس دفعہ کے تحت کسی بینک کے ذریعے قرض کے بارے میں دی گئی اطلاع کو خفیہ مانا جائےگا اور اس کو عام یا شائع نہیں کیا جائےگا۔اس سے پہلے گزشتہ مارچ مہینے میں وزارت خزانہ کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق، پبلک سیکٹر کے بینکوں نے موجودہ مالی سال18-2017 کی پہلی ششماہی میں جان بوجھ کر قرض نہیں لوٹانے والوں پر بقایا 516 کروڑ روپے کے قرض کو بٹے کھاتے (این پی اے) میں ڈال دیا ہے۔
اس کے تحت 18-2017 کی اپریل ستمبر ششماہی میں ایسے 38 قرض دار کے کھاتوں کو بٹے کھاتے میں ڈالا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بینکوں نے ان کھاتوں کے تناظر میں اپنی کمائی میں سے 100 فیصد کا پروویزن کر دیا ہے۔ایسی اکائیوں کو جان بوجھ کر قرض نہیں لوٹانے والی اکائی کہا جاتا ہے جنہوں نے لئے گئے قرض کو اس کے اعلان شدہ مقاصد میں استعمال نہیں کیا ہو یا صلاحیت ہوتے ہوئے بھی قرض چکایا نہ ہو یا رقم کا غبن کر دیا ہو یا پھر گروی رکھی جائیداد کو بینک کی جانکاری کے بغیر بیچ کر دیا ہو۔
گزشتہ فروری مہینے میں ملک کے سب سے بڑے بینک ایس بی آئی نے17-2016 میں 20339 کروڑ روپے کے رکےہوئےقرض کو بٹے کھاتے (این پی اے) میں ڈال دیا تھا۔ یہ سرکاری بینکوں میں سب سے زیادہ رقم ہے، جو بٹے کھاتے میں ڈالی گئی ہے۔اس طرح17-2016 میں بینکوں کے بٹے کھاتے میں کل ملا کر 81683 کروڑ روپے کی رقم ڈالی گئی۔یہ اعداد و شمار تب کے ہیں جب ایس بی آئی میں اس کے معاون بینکوں کا انضمام نہیں کیا گیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ مالی سال 13-2012 میں سرکاری بینکوں کا کل بٹا کھاتا 27231 کروڑ روپے تھا۔
اس طرح پانچ سال کی مدت میں یہ رقم تین گنی بڑھ گئی ہے۔ مالی سال 14-2013 میں سرکاری بینکوں نے 34409 کروڑ روپے کےرکے ہوئے قرض کو بٹے کھاتے میں ڈالا تھا۔مالی سال 15-2014 میں یہ رقم 49018 کروڑ، 16-2015 میں 57585 کروڑ اور مارچ 2017 میں ختم ہوئے مالی سال میں 81683 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔اسٹیٹ بینک کے علاوہ پنجاب نیشنل بینک نے بھی 17-2016میں 9205 کروڑ روپے بٹے کھاتےمیں ڈالے ہیں۔ اس کے بعد بینک آف انڈیا نے 7346 کروڑ روپے، کینرا بینک نے 5545 کروڑ روپے اور بینک آف بڑودا نے 4348 کروڑ روپے بٹے کھاتےمیں ڈالے ہیں۔موجودہ مالی سال میں ستمبر ششماہی تک سرکاری بینکوں نے 53625 کروڑ روپے کے قرض کو بٹے کھاتے میں ڈالا تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں