کسی بھی ملک یا سماج کا یہ رویہ کہ اس کی مذہبی کتاب یا پہچان تھیوری آف ایوری تھنگ ہیں اور ان میں ہی ماضی، حال، مستقبل کا سارا علم اور سائنس ہے، بہت ہی خطرناک ہے۔
مشہور سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ کی موت کے آس پاس ہی ہندوستانی سائنس کانگریس کا انعقاد ہوتا ہے، جس کے افتتاحی سیشن میں ہمارے سائنس اور ٹکنالوجی کے وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن، اسٹیفن ہاکنگ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ‘ ہم نے حال ہی میں ایک مشہور سائنس داں اور کائنات کا سائنسی علم رکھنے والے اسٹیفن ہاکنگ کو کھو دیا ہے جو مانتے تھے کہ ویدوں میں موجود فارمولے البرٹ آئنسٹائن کے نظریہ اضافت سے بہتر تھے۔ ‘اپنی مشہور تقریر میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘ ہندوؤں کے ہر رسم وراج سائنس سے گھرے ہوے ہیں اور ہر جدید ہندوستانی حصولیابی، ہمارے قدیم ہندوستان کی سائنسی حصولیابیوں کی دین ہے۔ ‘
یقینی طور پر اسٹیفن ہاکنگ کو دی گئی یہ سب سے خراب خراج عقیدت رہی ہوگی اور البرٹ آئنسٹائن نے تو خواب میں بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ سائنس دانوں کے کسی مجمع میں ان کو اس طرح کا چیلنج مل سکتا ہے۔ہرش وردھن سے جو کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر کے طور پر تربیت یافتہ ہیں، سے اس جانکاری کے ذرائع کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے سوال کرنے والوں کو ہی اس کا ماخذ تلاش کرنے کا مشورہ دے ڈالا۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے جھوٹ اور افواہوں کی پول کھولنے والی ویب سائٹ ‘ آلٹ نیوز ‘ کے ذریعے اس کے بارے میں کھوج بین کی گئی جس سے پتا چلا کہ ڈاکٹر ہرش وردھن کے ذریعے کیا گیا یہ دعویٰ نیا نہیں ہے۔ انٹرنیٹ پر اس طرح کا دعویٰ کرنے والے مضامین کافی پہلے سے ہی موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کیاغیرمنطقی اور غیر سائنسی معاملات میں ہم پاکستان بن رہے ہیں؟
بدقسمتی سے ڈاکٹر ہرش وردھن اس طرح کا دعویٰ کرنے والے اکلوتے نہیں ہے۔ پچھلے چار سالوں سے اقتدارمیں بیٹھے لوگوں کے دہانِ مبارک سے اس طرح کے خیالات کا نکلنا بہت عام ہو گیا ہے جس میں وزیر، وزیراعلیٰ اور یہاں تک کہ وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔دراصل ہمارے ملک میں ایسے لوگ اقتدار میں ہیں جو سائنس کو عقیدہ اور تاریخ کو فخر کا موضوع مانتے ہیں۔ قدیم ہندوستان کی نام نہاد سائنسی کامیابیوں پر ان کا گہرا ایمان ہے۔ ماضی کی اپنی اس عظمت کو وہ ازسرنوقائم کرنا چاہتے ہیں جس کو ان کے مطابق مسلمان اور انگریز حکمرانوں نے بیچ میں بند کر دیا تھا۔
آئنسٹائن سے پہلے ہمارے یہ رہنما ڈارون اور نیوٹن کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ پچھلے ہی دنوں سابق آئی پی ایس افسر اور فی الحال مرکز میں وزیر ستیہ پال سنگھ بیباکی سے یہ دعویٰ کرتے نظر آئے تھے کہ ارتقا کے سلسلے میں چارلس ڈارون کا اصول ‘ سائنسی طور سے غلط ہے ‘ اور اسکول اور کالج کے نصاب میں اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح سے راجستھان کے وزیر مملکت برائے تعلیم واسودیو دیونانی نے تو نیوٹن کے کشش ثقل کے اصول پر ہی دعویٰ کر دیا ہے۔ ان کا یقین ہے کہ ‘ ہم سب نے پڑھا ہے کہ کشش ثقل کا اصول نیوٹن نے دیا تھا، لیکن گہرائی میں جاننے پر پتا چلےگا کہ کشش ثقل کا اصول نیوٹن سے ایک ہزار سال قبل برہماگپت دوم نے دیا تھا۔ ‘لیکن ان ہوائی دعووں کی سرکاری شروعات تو ایک طرح سے 2014 میں ہی ہو گئی تھی جب ایک پرائیویٹ ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ‘ دنیا کو پلاسٹک سرجری کی مہارت ہندوستان کی دین ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے گنیش جی کی پلاسٹک سرجری ہوئی تھی، جب ان کے سر کی جگہ ہاتھی کا سر لگا دیا گیا تھا۔ ‘
عقیدہ یا مذہبی کتابوں کو سائنس ثابت کرنے کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ اس میں کوئی بھی مذہب پیچھے نہیں ہے۔ اس سے پہلے یہودی، عیسائی اور مسلمان بھی ٹھیک ایسی ہی کوشش کرتے رہے ہیں۔پچھلی صدیوں میں سائنس پر چرچ کا بڑا دباؤ رہا ہے، ایک زمانے تک چرچ طاقت کے زور پر یہ منواتا رہا کہ زمین ہی مرکز میں ہے اور باقی کے سیارے اس کے ارد گرد گھومتے ہیں لیکن جب گلیلیو نے کہا کہ زمین سمیت تمام سیارے سورج کا طواف کرتے ہیں تو چرچ نے اس کو خدائی پہچان سے چھیڑچھاڑ مانا اور اپنے اس ‘ جرم ‘ کے لئے گلیلیو کو ساری عمر جیل میں گزارنی پڑی۔
اسی طرح سے اسلامی عقیدہ میں اعتماد کرنے والے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہوئے مل جائیںگے کہ ساری سائنس قرآن سے ہی نکلی ہے اور مغرب کے سائنس داں تو صرف قرآن میں بیان شدہ سائنسی حقیقتوں کی تصدیق کر رہے ہیں۔متنازع اسلامی عالم ذاکر نایک کی تو قرآن اور سائنس نام کی ایک کتاب ہے جس میں وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جدید سائنس کے زیادہ تر اصولوں کی پیشین گوئی تو قرآن کے ذریعے 1400 سال پہلے سے ہی کر دی گئی تھی، اپنے اس کتاب میں وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ‘ بگ بینگ ‘ جس سے کائنات کی تخلیق ہوئی تھی کہ یہ بات قرآن میں پہلے سے ہی موجود ہے۔
ترقی کے ڈارون کے اصول کو لےکر ذاکر نایک اور ہمارے مرکزی وزیر ستیہ پال سنگھ میں حیرت انگیز طور پر یکسانیت ہے، دونوں ہی اس کو خارج کرتے ہوئے محض ایک مفروضہ مانتے ہیں۔عقیدہ اور سوال کے درمیان چھتیس کا آنکڑا رہا ہے جبکہ سائنس کی شروعات ہی سوال پوچھنے سے ہوتی ہے۔ گلیلیو کی موت اور نیوٹن کی پیدائش کے 300 سال بعد جنم لینے والے اسٹیفن ہاکنگ کا شمار ہماری صدی کے عظیم سائنس دانوں میں ہوتا ہے۔
اسٹیفن ہاکنگ 8 جنوری 1942 میں لندن میں پیدا ہوئے تھے۔ جب وہ 13 سال کے تھے تو آئنسٹائن نے اس دنیا سے وداع لیا تھا اور اپنے پیچھے ہاکنگ کو چھوڑ گئے۔ ہاکنگ نے اپنی پوری زندگی کائنات کو سمجھنے اور سوالوں کے جواب کھوجنے کی کوشش میں لگا دی، وہ ایک عوامی سائنس داں اور خواب آور تھے جو لامتناہی کائنات کے اوصاف کو ہمیں بہت ہی عام زبان میں سمجھاتے تھے۔اسٹیفن ہاکنگ سے پہلے کائنات کے بارے میں انسان کا نظریہ کچھ اور تھا لیکن ہاکنگ کے بعد آج انسان کائنات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتا ہے۔ ہاکنگ کی کھوج سے پہلے ہم سمجھتے تھے کہ ہم ایک کائنات میں رہتے ہیں، لیکن ہاکنگ نے بتایا کہ ہم عظیم کائنات میں رہتے ہیں جوکہ لگاتار پھیل رہی ہے۔وہ اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ وقت کی شروعات بگ بینگ کے ساتھ ہی ہوئی تھی اور اس کو بنانے میں خدا کا کوئی کردار نہیں ہے۔
لیکن ان کے راستے میں رکاوٹیں بھی کم نہیں تھیں۔ 1962 میں ڈاکٹروں کے ذریعے ان کو بتایا گیا کہ وہ ایک ایسے لاعلاج بیماری سے متاثر ہیں جس میں ان کا جسم آہستہ آہستہ کام کرنا بند کر دےگا اور ان کی زندگی محض کچھ سالوں کی ہی بچی ہے۔ اس کے باوجود بھی ہاکنگ نے کسی بھی کمزوری کو اپنے پر حاوی نہیں ہونے دیا اور وہ ان تمام رکاوٹوں کو شکست دیتے ہوئے 76 سال تک زندہ رہے۔
حالانکہ بیماری کے بعد آنے والے کئی سالوں تک وہ وہیل چیئر پر محدود ہوکر رہ گئے تھے جہاں وہ نہ کچھ سن سکتے تھے، نہ بول سکتے تھے اور نہ ہی اپنے ہاتھ پیروں کو حرکت دے سکتے تھے، لیکن ان سب کے باوجود ان کا دماغ لامتناہی کائنات کی سیاحت کرتا تھا وہ اپنے دائیں رخسار کو تھوڑا سا ہلاکر لوگوں کو کائنات کی سیاحت کرا دیتے تھے۔ ہمارے درمیان وہ اکلوتے انسان تھے جو اپنی پلکوں سے بولتے تھے اور پوری دنیا ان کو سنتی تھی۔
اسٹیفن ہاکنگ کو ان کے قوت حیات کے لئے بھی یاد کیا جائےگا انہوں نے دنیا بھر کے ناامید لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے کام کیا ہے۔ اپنی ایک تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘ اگر میں اپنی اس جسمانی کمزوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں، میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں، موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو آپ لوگ جن کے سارے عضو سلامت ہیں، جو چل سکتے ہیں، دونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے ہیں، کھا اور پی سکتے ہیں، ہنس سکتے ہیں اور اپنے تمام خیالات کو دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں بھلا وہ مایوس کیوں ہیں۔ ‘
گلیلیو سے لےکر ہاکنگ تک نے اپنی دریافت سے دنیا سے عدم واقفیت کے اندھیرے کو دور کرنے کا کام کیا ہے ورنہ ہم تو ابھی تک یہی مانتے رہتے کہ زمین چپٹی ہے، مستحکم ہے اور کائنات کے مرکز میں ہے جس کا سورج طواف کرتا ہے، سورج ایک جھرنے میں ڈوب جاتا ہے اور پھر صبح وہیں سے نکل آتا ہے، چاند کی اپنی روشنی ہے، سات آسمان ہیں اور بادلوں میں پانی آسمان سے اکٹّھا ہوتا ہے۔
ہاکنگ اب ہمارے درمیان نہیں ہے اور ہم بےشمار ہرش وردھنوں، ستیہ پال سنگھ اور ذاکر نایک کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں جو بہت مضحکہ خیز اور شرمناک طریقے سے علم اور دلیل کا مذاق اڑاتے ہیں اور ایسے دعوے کرتے ہیں جن کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔بدقسمتی سے ان کے ان مہمل دعووں پر عام سماج تو دور ہماری سائنس کمیونٹی کی طرف سے بھی کوئی مزاحمت کی آواز سنائی نہیں پڑتی ہے۔ کسی بھی ملک یا سماج کا یہ رویہ کہ اس کی مذہبی کتاب یا پہچان اعلی اور برتر کا اصول (تھیوری آف ایوری تھنگ) ہے اور ان میں ہی ماضی، حال اور مستقبل کا سارا علم اور سائنس شامل ہے، بہت ہی خطرناک ہے۔ مذہبی کتابیں اور پہچان کا تعلق روحانیت سے ہوتا ہے اور ان کو اسی شکل میں ہی قبول کرنا چاہئے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔)
Categories: فکر و نظر