سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا یہ حالیہ بیان کہ اسرائیل کو اس کی بقا کا حق حاصل ہے، اس امر کا واضح اشارہ ہے کہ سعودی عرب اب اسرائیل کے ریاستی وجود کو تسلیم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا آخر اب ہی کیوں؟
سعودی عرب کے شاہ سلمان کے بیٹے اور ملکی ولی عہد محمد بن سلمان نے پیر دو اپریل کو امریکی جریدے ’دا اٹلانٹک‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں پہلی بار کھل کر کہا تھا کہ ’اسرائیل کو اس کی بقا کا حق حاصل ہے‘۔ ساتھ ہی سعودی عرب کی اس دوسری طاقت ور ترین شخصیت نے اس امریکی جریدے کو یہ بھی بتایا تھا کہ ان کا یہودیوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ’’پیغمبرِ اسلام نے تو ایک یہودی خاتون سے شادی بھی کی تھی۔‘‘
#Iran, #MuslimsBrotherhood & Sunni #Terrorists groups (eg. #Hamas) are the root cause of #MiddleEast violence! #Israel🇮🇱 been saying it for years… maybe now, when #SaudiArabia's🇸🇦 Crown Prince Mohammed bin Salman (MbS) say it, you'd care to listen?
🔗https://t.co/E1ZfCn8rXm pic.twitter.com/e1LxAgKog0— Elad Ratson 🇮🇱 (@EladRatson) April 3, 2018
سعودی ولی عہد کا یہ بیان اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ خلیج کی یہ بااثر ترین عرب ریاست اب اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتی ہے۔ ساتھ ہی محمد بن سلمان نے یہ بھی کہا تھا، ’’اسرائیل کے رقبے کو دیکھا جائے تو تقابلی بنیادوں پر اس کی معیشت ایک بڑی معیشت ہے اور اسرائیل اور سعودی عرب کے بہت سے مفادات مشترک ہیں۔ اگر امن قائم ہو جائے تو اسرائیل، خلیجی تعاون کی کونسل کے رکن ممالک اور مصر اور اردن جیسی عرب ریاستوں کے مابین بہت سی قدریں مشترک ہوں گی۔‘‘
جو بات سعودی ولی عہد نے کھل کر نہیں کی، وہ یہ تھی کہ سعودی عرب اور اسرائیل دونوں ہی ایران کو ’محدود‘ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہابی مسلم سوچ کی اکثریت والی آبادی کی حامل ریاست سعودی عرب شیعہ اکثریتی ایران کو خطے میں اثر و رسوخ کی جدوجہد میں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتی ہے۔ اس کے علاوہ شام، یمن اور کئی دیگر ممالک میں پائے جانے والے تنازعات میں بھی ایران مسلسل اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
پروفیسر حسن نافعہ کے بقول اسرائیل اور سعودی عرب دونوں ہی کو یہ خدشہ بھی ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے اور سعودی رہنما تو ’’ممکنہ طور پر اس پیش رفت کا بھی خیرمقدم کر سکتے ہیں کہ اسرائیل ایران کی ان جوہری تنصیبات پر یکطرفہ حملے کر دے، جو ایٹمی مادوں کی تیاری کے لیے استعمال ہو سکتی ہوں۔‘‘
دوسری طرف برطانوی دارالحکومت لندن کی ریجنٹس یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر یوسی میکلبرگ نے ڈی بلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کا ریاستی وجود تسلیم کیا جانا اسرائیل کے لیے انتہائی اہم ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایک ایسے ماحول میں جب مشرق وسطیٰ میں کئی ممالک اسرائیل کے اس کی بقا کے حق کے سلسلے میں جارحانہ سوچ رکھتے ہیں۔
پروفیسر یوسی میکلبرگ کے مطابق اسرائیل تو سعودی ولی عہد کے اس بیان سے خوش ہوا ہو گا لیکن اسی بیان پر فلسطینی خوش نہیں ہوئے ہوں گے کیونکہ فلسطینیوں کی شکایت یہ ہو گی کہ اسرائیل قیام امن کے عمل میں خود فلسطینیوں کو تو کوئی رعایات نہیں دے رہا لیکن عرب دنیا کے کئی ممالک اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے قریب تر آتے جا رہے ہیں۔
ليس للصهاينة أي "حق" في أي شبر من فلسطين. هم غزاة جاؤوا من أصقاع الأرض، ليحتلوا بلدا، ويشرّدوا أهله. حديث "الحق" هذا هو محض هراء وسقوط.
— ياسر الزعاترة (@YZaatreh) April 3, 2018
پرنس محمد بن سلمان کے اسرائیل سے متعلق اسی بیان پر لندن میں تعینات ایک اسرائیلی سفارت کار ایلاد راسٹن نے کہا کہ سعودی ولی عہد کا یہ بیان دراصل ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب ’خطے میں اسرائیلی پالیسیوں کی حمایت‘ کرتا ہے۔ دوسری طرف غزہ میں رہنے والے فلسطینی مصنف یاسر الزعاترہ نے سعودی ولی عہد کے بیان پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’صیہونیوں کو فلسطین کے کسی بھی حصے پر کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ وہ غاصب ہیں، جنہوں نے دنیا کے مختلف حصوں سے آ کر فلسطینی سرزمین پر قبضہ کیا۔ ان حالات میں اسرائیل کے حق کی بات کرنا قطعی لایعنی اور ایک بیہودہ کوشش ہے۔‘‘
اسرائیل کے بارے میں سعودی قیادت کا نیا موقف اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ عرب اسرائیلی تنازعے کے حوالے سے اور اسرائیل کے اس کی بقا کے حق کو چیلنج کرنے کے سلسلے میں مشرق وسطیٰ میں صورت حال آئندہ مہینوں اور برسوں میں ویسی نہیں رہے گی، جیسی گزشتہ کئی عشروں سے دیکھنے میں آتی رہی ہے۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر