کویت سوسائٹی آف انجینئرس، ہندوستانیوں کی ڈگریوں کی بہت باریک بینی سے چھان بین کررہی ہے اور صرف انہیں افراد کو سرٹیفیکٹ جاری کررہی ہے جنہوں نے منظورشدہ(Accredited) کالجز میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہو،۔
کویت سے شائع ہونے والے روزنامہ ” الرای” اور دیگر اخبارات کے حوالے سے یہ خبرآرہی ہے کہ ریاض میں منعقد ہونے والے عرب لیگ سربرا ہ کانفرنس میں شرکت کےلیے قطر کو دعوت دی گئی ہے، جس میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد قطری وفد کی قیادت کریں گے، واضح رہے کہ یہ کانفرنس رواں ماہ کی 15 تاریخ کو سعودی عربیہ کی راجدھانی ریاض میں ہونے جارہی ہے۔قطری وزارت خارجہ کے ترجمان محترمہ لولوہ الخاطر نے بتایا کہ عرب سربراہ کانفرنس کے ایجنڈے میں خلیجی بحران پر تبادلہ خیال بعید از امکان ہے ، لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم لوگ اس بحران کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کے پابند ہیں، بشرطیکہ اس میں قطر کی خودمختاری اور اس کے مفادات کا پوری طرح سے تحفظ ہو۔
الخلیج آن لائن نے ٹائمس آف انڈیا کے حوالے سے خبر دی ہے کہ پندرہ سے چالیس ہزار ہندوستانی انجینئروں کی نوکری کویت میں خطرے میں ہے، اس کی وجہ کویت حکومت کا ایک نیا قانون ہے ، جس کی رو سے کویت سوسائٹی آف انجینئرس سے نوآبجیکشن سرٹیفیکٹ کا حصول اقامہ (Residence) اور ورک پرمٹ(work permit) کی تجدید (Renewal)کےلیے ضروری ہے۔کویت سوسائٹی آف انجینئرس، ہندوستانی انجینئروں کی ڈگریوں کی بہت باریک بینی سے چھان بین کررہی ہے اور صرف انہیں افراد کو پیشہ سے وابستہ رہنے کی سرٹیفیکٹ جاری کررہی ہے جنہوں نے ہندوستانی کے منظورشدہ(Accredited) کالجز میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہو، انجینئروں کےایک فورم کے رکن جوتھیا داس نرائن نے ٹائمس آف انڈیا کو بتایا کہ کویت میں کام کررہے انجینئروں کی عمر عموماً 30 سے 45 کے درمیان ہے اور2005 میں اکریڈیشن نظام(Accreditation System) کے نافذ ہونے سے پہلے ان کی تعلیم مکمل ہوچکی تھی۔
اقتصادی اور سیاسی بگڑتے حالات کے پیش نظر سوڈان میں اپوزیشن پارٹیوں نے 6 اپریل 1985 کےانتفاضہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے عوام سے موجودہ نظام کے خلاف بغاوت کرنے کی اپیل کی، واضح رہے کہ 6 اپریل 1985 کے انتفاضہ نے سابق سوڈانی صدر جعفر النمیری کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا ۔ لیکن اپوزیشن پارٹیوں کی اس اپیل کا زیادہ اثرعوام پر نہیں دکھا ، کیوں کہ سڑکیں سونی سونی تھیں اور کسی طرح کے مظاہرے اور جشن کا کوئی منظر نظر نہیں آیا، عوامی انتفاضہ کی یاد میں اپوزیشن پارٹیوں نے کسی ثقافتی یا سیاسی پروگرام نہیں منعقد کیا ، البتہ بہت ہی محدود پیمانہ پر کچھ لوگ اکٹھا نظر آئے اور نظر بند سیاسی رہنماؤں کے رشتہ داروں سے ہمدردی میں بھوک ہڑتال کرتے نظر آئے۔ روزنامہ “الحیاۃ” نے یہ خبر شائع کی۔
اخبار کے مطابق علی محمود حسنین کی قیادت میں نیشنل فرنٹ نے انتفاضہ کو عقیدت سے یاد کیا اور موجودہ نظام سے اس وقت تک مقابلہ کرنے کا عہد کیا جب تک یہ ختم نہ ہوجائے ، نیشنل فرنٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ سوڈانی عوام بھی آزادی، امن اور سماجی انصاف کی خواہش مند ہے اور عوام بشیر حکومت کے خلاف پرامن مظاہرہ کرے گی ۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ حکومت چاہے جتنی طاقت ور ہو وہ ناقابل مقابلہ نہیں ہے ، اس کا سامنا کیا جائے گا اور ہر ہر محاذ پر اس کی مخالفت کی جائے گی اور آخر میں اسے جانا ہی پڑے گا۔
عراق کے سابق وزیر اعظم اور نیشنل الائنس (National Alliance) کے لیڈر ایاد علاوی نے “وطن کی آواز” نامی کمپین (campaign)شروع کیا ہے ، اس موقع پر انہوں نے اپنے ٹی وی بیان میں کہا کہ جن لوگوں نے 2003 کے بعد حکومت کا کام کاج سنبھالا ان میں سے چند لوگوں نے عراق کو ایک ریاست بنانے کے منصوبہ پر کام نہیں کیا اور اس بے مقصدیت کی وجہ سے بہت ساری چیزیں نمودار ہوئیں ، جو دیکھنے میں اچھی لگ رہی تھی لیکن حقیقت میں وہ عذاب اور ذلت سے کم نہیں تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2010 کے انتخابات کے بعد اقتدار کی تقسیم نے بہت سی پریشانیوں کو جنم دیا ، انہیں پریشانیوں کے بطن سے کرپشن جیسا ناسور نکلا اور امن امان کی حالت خراب ہوئی۔
انہیں حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے ایک حقیقی قومی منصوبہ “وطن کی پکار” کے نام سے شروع کیا ہے ، اس منصوبہ کا مقصد عراق اور اس کی عوام کو ذلت اور حقارت سے نجات دلانا ہے، دوسری طرف روزنامہ الشرق الاوسط کی خبر کے مطابق عراقی پارلیامنٹ کے سربراہ ڈاکٹر سلیم الجبوری نے برملا اعتراف کیا کہ عراق کے موجودہ سیاسی طبقہ میں بدعنوانی سے لڑنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔
غزہ کے حالات ان دنوں دھماکہ خیز ہیں ، وطنی واپسی مارچ پر اسرائیل افواج کی گولی باری نے اب تک 29 سے زائد افرا د کی جان لےلی اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں لیکن مظاہرے ابھی بھی جاری ہیں ، اخبار “الشرق الاوسط” نے ایک فرانسیسی ایجنسی کے حوالہ سے یہ اطلاع دی ہے کہ حماس کے کنٹرول میں غزہ کی پٹی غریبی ، آبادی کی کثرت اور جنگ سے پریشان حال ہے اس پر سے اسرائیل نے بری، بحری اور فضائی محاصرہ کر رکھا ہے۔ 30 مارچ 2018 کا دن 2014 کی جنگ کے بعد سے فلسطینیوں کے لیے سب سے زیادہ خونی دن تھا جب اسرائیل افواج کی گولیوں 19 افراد کو شہید اور سیکڑوں کو زخمی کردیا تھا اور 5 اپریل بروز جمعرات کو دوبارہ دوسرے واپسی مارچ میں دس افراد شہید ہوگئےتھے۔
سعودی ولی عہد نے “دی اٹلانٹک” اور “ٹائمز” کو انٹرویو دیتے ہوئے بہت سے امور پر بے باکانہ اظہار خیا ل کیا تھا اسی انٹرویو میں انہوں نے اخوان المسلمون کو انتہاپسندانہ تنظیم باورکرانے کی کوشش کی تھی اور اسرائیلی وجود کودرست ٹھہرایا تھا اگر چہ ثانی الذکر مسئلہ پر سعودی شاہ سلمان نے امریکی صدر سے ٹیلی فون پر بات کرکے سعودی ولی عہد کے انٹرویو سے جو غلط پیغام جارہا تھا اس کو کنڑول کرنے کی کوشش کی۔
سعودی ولی عہد کے مذکورہ خیالات پر الخلیج آن لائن نے اردن کے پارلیامنٹرین موسی ہنطش کا بیا ن شائع کیا ہے ، اس میں موسی ہنطش نے سعودی ولی عہد کے اس بیان پر ناگواری کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نےفلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے قومی حکومت کا حق مانا تھا،اردنی ممبر آف پارلیامنٹ موسی ہنطش نے “الخلیج آن لائن” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس رائے سے مجھے بڑا تعجب ہوا جب کہ سعود ی عوام کی اکثریت کی رائے اس کے خلاف ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایک سعودی اردنی ایسوسی ایشن کے ممبر ہیں اور انہوں نے اس طرح کی بات کبھی کسی سعودی سفیر اور یا سعودی قیادت سے نہیں سنی ہے۔
مذکورہ اخبار نے اخوان المسلمون ( Muslim Brotherhood) کے حوالہ سے خبردی ہے کہ تنظیم نے سعودی ولی عہد کے بیا ن کو جھوٹ اور من گھڑت بات سے تعبیر کیا ہے ، تنظیم نے اپنے بیان میں کہا کہ ولی عہد کا امریکن میگزین ٹائمز کے انٹرویو میں اخوان المسلمون کو دہشت گردی سے جوڑنا ایک ناکام کوشش ہے اور اس لیے کہا تاکہ انہیں امریکی صہیونی نگرانی میں سعودی عرش پر بیٹھنے کا ٹکٹ مل جائے۔
Categories: خبریں