گراؤنڈ رپورٹ:شراب بندی قانون کے تحت اب تک کل 1 لاکھ 21 ہزار 586 لوگوں کی گرفتاری ہوئی ہے، جن میں سے زیادہ تر بےحد غریب طبقے سے آتے ہیں۔
جہان آ باد ریلوے اسٹیشن کے پاس مین روڈ سے ایک پتلی گلی بائیں طرف مڑتی ہے۔ اس گلی میں چھ سات منٹ پیدل چلنے کے بعد گندی نالیوں، ابڑکھابڑ راستے اور کوڑے کے درمیان دڑبہ نما گھروں کی بےترتیب قطار شروع ہو جاتی ہے۔ یہ اونٹی مسہر ٹولی کے نام سے جانا جاتا ہے۔اسی محلّے میں پینٹر مانجھی اور مستان مانجھی رہتے ہیں۔ دونوں بھائی ہیں۔ پینٹر مانجھی کا گھر اینٹوں کو مٹی سے جوڑکر بنایا گیا ہے۔ کھپریل کی چھت ہے۔ ایک جرجر دروازہ کمرے کی طرف کھلتا ہے۔ کمرے میں کھڑکی نہیں ہے جس کی وجہ سے کڑی دھوپ میں بھی اندر گھپ اندھیرا ہے۔ پینٹر مانجھی اپنے تین بچوں اور بیوی کے ساتھ اسی کمرے میں رہتے ہیں۔
پینٹر مانجھی کے گھر سے بالکل سٹا ہوا مستان مانجھی کا گھر ہے۔ مستان مانجھی کے گھر میں مٹی کا لیپ نہیں چڑھا ہے جس کی وجہ سے ننگی اینٹیں صاف دکھتی ہیں۔ مستان مانجھی کا گھر بھی ایک ہی کمرے کا ہے۔ اسی ایک کمرے میں وہ اپنے چار بچے، ایک بہو، پوتے اور اپنی بیوی کے ساتھ زندگی کاٹ رہے ہیں۔دونوں کے پاس زمین نہیں ہے۔ جتنی جگہ میں گھر ہے، وہی ان کی کل زمین ہے۔ بھاڑے پر ٹھیلا چلاکر وہ کسی طرح فیملی کی گاڑی ٹھیل رہے ہیں۔ ٹھیلا جس دن نہیں چلتا، اس دن چولہے سے دھواں بھی نہیں اٹھتا۔
دونوں بھائیوں کو 29 مئی 2017 کی دوپہر شراب پینے کے جرم میں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔گرفتاری کے محض 43 دنوں کے اندر یعنی 11 جولائی کو جہان آباد کورٹ نے دونوں کو 5-5 سال کی قید اور ایک ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔اپریل 2016 میں بہار میں شراب بندی نافذ ہونے کے بعد شراب کے معاملے میں یہ پہلی سزا تھی۔ دونوں کے خلاف بہار شراب بندی اور مصنوعات ایکٹ 2016 کی دفعہ 37 (بی) کے تحت سزا مقرر ہوئی تھی۔گرفتاری کے بعد مستان مانجھی اور پینٹر مانجھی کی ساری جمع پونجی کورٹ اور وکیل کی بھینٹ چڑھ گئی۔ بچوں کی پڑھائی رکی سو الگ اور کھانے کے لالے تو تھے ہی۔ ماڑبھات کھاکر کسی طرح ان کی فیملی زندگی بسر کررہی ہے۔
کچھ مہینے پہلے ہی مستان اور پینٹر پٹنہ ہائی کورٹ سے ضمانت پر چھوٹے ہیں۔مستان مانجھی کہتے ہیں، ‘ کورٹ کچہری کے چکر میں تقریباً ایک لاکھ روپے خرچ ہو گئے۔ اتنے روپے ہمارے پاس کہاں تھے۔ کچھ روپے جمع کر رکھے تھے، اس کو لگایا۔ کچھ روپے ساہوکار سے سود پر لیا اور سور پال رکھے تھے، ان کو بیچکر کچھ پیسے کا انتظام کیا گیا۔ ‘
یہ بھی پڑھیں: بہار میں شراب بندی نہیں غریب بندی ہو رہی ہے
مانجھی بتاتے ہیں، ‘ ٹھیلا چلاکر بمشکل دو سو سے ڈھائی سو روپے کی کمائی ہوتی ہے۔ اس میں سے 50 روپے ٹھیلا مالک کو دینا پڑتا ہے۔ اتنے کم پیسے میں فیملی کو کھلاؤں یا ساہوکار کا قرض چکاؤں، سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ ’29 مئی کی وہ آگ اگلتی دوپہر تھی، جب مستان مانجھی کو پکڑا گیا تھا۔ اس دن کو وہ یاد کرتے ہیں، ‘ دوپہر کا وقت تھا۔ باہر تیز دھوپ تھی۔ میں ٹھیلا چلاکر آیا تھا۔ تھکان مٹانے کے لئے تھوڑی تاڑی پی لی تھی اور گھر میں لیٹا ہوا تھا۔ نیند آنکھوں پر سوار تھی۔ نیند آتی کہ اس سے پہلے گھر میں پولیس آ دھمکی۔ نہ کوئی سوال و جواب اور نہ ہی تفتیش اورجانچ۔ بس، پکڑکر تھانے کے لاک اپ میں ڈال دیا۔ بیوی بچے بلکتے رہ گئے۔ ‘
پینٹر مانجھی بھی ٹھیلا چلاکر آئے تھے۔ انہوں نے بھی تاڑی پی رکھی تھی۔ کچھ دیر گھر میں آرام کرنے کے بعد بیوی سے 5 روپے لےکر وہ پان کھانے جا رہے تھے کہ دیکھا پولیس والوں کی فوج ان کی طرف آ رہی ہے۔وہ کچھ سمجھ پاتے تب تک پولیس ان کو گرفتار کر چکی تھی۔ پولیس نے پینٹر کی بیوی کرانتی دیوی کو بھی پکڑ لیا تھا۔ بعد میں اس کو چھوڑ دیا گیا۔پینٹر مانجھی کہتے ہیں، ‘ پولیس والوں نے پانچ لیٹر کے سفید گیلن میں پانی بھر لیا اور اس کو شراب بتاکر ہمیں جیل میں ڈال دیا۔ ‘
پینٹر کے پاس چھ سات سور تھے۔ سبھی کو بیچکر اور کچھ پیسہ قرض لےکر عدالتی کاروائی پر خرچ کیا گیا۔وہ مایوس اور غصہ کا ملا جلا تاثر چہرے پر لاکر کہتے ہیں، ‘ جو شراب بیچتے ہیں، ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے اور ہم جیسے لوگوں کو پانی پھینککر سزا دی جا رہی ہے۔ ‘دونوں پر ایک ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی لگایا گیا ہے۔ ایک لاکھ کی موٹی رقم دینا ان کے لئے ناممکن ہے۔
‘ پئیسا کہاں سے جٹتے، جیلے میں رہبئی ایک سال (پیسے کا انتظام کہاں سےکرپائیںگے۔ ایک سال اور جیل میں ہی رہیںگے) ‘، یہ کہتے ہوئے دونوں کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ پھیل گئی، جس کے پیچھے بے انتہا درد بھی تھا۔ارول ضلع کے کرپی تھانہ علاقے کی کھجوری گاؤں کا باشندہ للن مانجھی بھی تقریباً تین ہفتے جیل میں گزارکر پچھلے سنیچر کو ضمانت پر گھر لوٹے ہیں۔ وہ صبح صبح گھر پر چنے کی پھلیاں چھڑا رہے تھے۔ اسی وقت پولیس آئی اور ان کو دبوچ لیا۔للن مانجھی کے پاس اپنا ایک بتہ بھی کھیت نہیں ہے۔ للن مٹی کے گھر میں رہتے ہیں۔ وہ دوسرے سے کھیت بٹیا لےکر کھیتی باڑی اور دوسروں کے کھیت میں مزدوری کر کے ذریعہ معاش چلاتے ہیں۔ گرفتاری نے ان کو ہزاروں روپے کا قرض سر پر لےکر جینے کو مجبور کر دیا ہے۔یہ محض کچھ مثالیں ہیں، شراب بندی قانون کی گرفت میں پھنسکر کراہ رہے ایسی فیملیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
گزشتہ 9 مارچ کو ریاست کےشراب کی روک تھام اور مصنوعات کے محکمہ کے وزیر بیجیندر پرساد یادو نے بہار قانون ساز کونسل میں بتایا تھا کہ شراب کے معاملے میں اب تک 1 لاکھ 21 ہزار 586 لوگوں کی گرفتاری ہوئی۔
وزیر کے مطابق، شراب کی روک تھام اور مصنوعات کے محکمہ نے کل 44 ہزار معاملے اور پولیس نے 57 ہزار معاملے درج کئے ہیں۔لیکن، شراب بندی میں گرفتار تقریباً سوا لاکھ لوگوں میں سے فروری تک محض 30 لوگوں کو ہی کورٹ سے سزا سنائی جا سکی ہے۔ باقی ملزمین کو ضمانت پر چھوڑا جا رہا ہے۔ حال کے عدالتی فرمانوں کے مدنظر ملزمین کو ضمانت دینے کے عمل میں تیزی آئی ہے۔شراب بندی قانون کے تحت گرفتار ملزمین کی پروفائل دیکھیں تو زیادہ تر لوگ بےحد غریب طبقے سے آتے ہیں۔ ان کے پاس مقدمہ لڑنے اور وکیل کو دینے کے لئے پیسے تک نہیں ہوتے ہیں۔
گیا کورٹ میں لمبے وقت سے پریکٹس کر رہے سینئر وکیل مراری کمار ہمانشو بتاتے ہیں، ‘ گیا کورٹ میں روز شراب کے معاملے میں گرفتار لوگوں کی ضمانت کی 70 سے 80 اپیلیں آتی ہیں اور ان میں 95 فیصد سے زیادہ ملزم بہت غریب ہوتے ہیں۔ ‘مراری کمار کہتے ہیں، ‘ گرفتاری کے چار پانچ دنوں کے اندر ضمانت لینے میں کم سے کم 10 ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ وقت جتنا بڑھتا جائےگا، خرچ بھی اسی رفتار سے بڑھےگا۔ ‘
95 فیصد سے زیادہ ملزم ین کا غریب طبقے سے ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امیر لوگ شراب نہیں پی رہے ہیں یا پی رہے ہیں تو پکڑے نہیں جا رہے ہیں۔مراری کمار ہمانشو کے مطابق، ‘ پیسےوالے لوگ موٹی رقم دےکر تھانے سے ہی مینیج کر لیتے ہیں۔ کورٹ کچہری کا چکر غریبوں کے لئے ہے۔ ‘یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ شراب کے معاملے میں اب تک شاید ہی کوئی ملزم بری ہوا ہے، جبکہ شراب نہیں پینے کے باوجود گرفتار کر لئے جانے کی شکایتں اکثر آتی رہتی ہیں۔
کئی وکیلوں نے بھی یہ قبول کیا ہے کہ ان کے کئی کلائنٹ ایسے ہیں، جو پوری ایمانداری کے ساتھ بتاتے ہیں کہ وہ شراب نہیں پیتے ہیں اور ان کو پھنسایا گیا ہے۔پٹنہ سول کورٹ کے وکیل ارویند مہوار کہتے ہیں، ‘ ایسے بہت سے معاملے آ رہے ہیں، لیکن پولیس کے پاس مقدموں کا اتنا بوجھ ہے کہ اس کے لئے کسی ایک معاملے کی گہرائی سے جانچکر پانا ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں ممکن ہے کہ بے گناہ شخص بھی گناہ گار بن جائے۔ ‘
ارول کے راماپور گاؤں کے رہنے والے 32 سالہ مہادلت متھلیش نے پینا تو دور شراب کو آج تک ہاتھ بھی نہیں لگایا ہے۔ متھلیش گٹکھا بھی نہیں کھاتے، لیکن شراب پینے کے جرم میں دو بار گرفتار ہوکر قرض دار بن چکے ہیں۔وہ پرچون کی ایک چھوٹی سی گمٹی چلاتے ہیں۔ گھر میں چار بچے ہیں اور بیوی ہے۔ دو بچےاسکول میں پڑھتے ہیں۔ پرچون کی دوکان سے جو تھوڑی بہت کمائی ہوتی ہے، اسی سے فیملی چلتی ہے۔متھلیش کہتے ہیں، ‘ پہلی گرفتاری گزشتہ سال اکتوبر میں ہوئی تھی۔ تین بجے صبح میں 42 ہزار روپے خرچ ہو گئے تب جاکر نومبر میں ضمانت ملی۔ اسی سال دسمبر میں رات آٹھ بجے پولیس نے مجھے دوبارہ پکڑ لیا۔ دوسری گرفتاری کی ضمانت لینے میں 22 ہزار روپے لگ گئے۔ ‘
متھلیش کی بیوی نے کافی دوڑدھوپ کر ضمانت دلوائی۔ جتنے دن متھلیش جیل میں رہے، بچوں کی پڑھائی پوری طرح ٹھپ رہی۔ متھلیش نے کہا، ‘ چار چھوٹے چھوٹے بچوں کو لےکر کورٹ کچہری کا چکر لگانا فیملی (بیوی) کے لئے بہت تکلیف دہ تھا۔ ‘متھلیش آگے بتاتے ہیں، ‘ پہلی گرفتاری کے دوران ہی 5 روپے سینکڑا (100 روپے پر 5 روپے سود فی مہینہ) پر 30 ہزار قرض لینا پڑا تھا۔ اس کو اب تک چکا رہے ہیں۔ ‘ارول کے ہی نیونا گاؤں کے رام بھجن مانجھی کا بھی الزام ہے کہ وہ شراب کا دھندا کرتے ہی نہیں، لیکن ان کو جھوٹے معاملے میں پھنسا دیا گیا۔ بنا کسی قصور ان کو ساڑھے تین مہینے تک جیل میں گزارنا پڑا۔
رام بھجن کا گھر بھی مٹی کا ہے۔ ایک کچی اور ٹوٹی پھوٹی سڑک ان کے گھر تک جاتی ہے۔ گھر میں بیوی بچے اور بوڑھے ماں باپ ہیں۔ گرفتار ی سے فیملی کی اقتصادی حالت چرمرا گئی تھی۔ رام بھجن کا کہنا ہے کہ وہ نہ تو شراب پیتے ہیں اور نہ ہی شراب کا دھندا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا، ‘ دو گروپ میں ہوئے جھگڑے کو میں نمٹانے گیا ہوا تھا۔ اسی معاملے میں مجھے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ مذکورہ معاملے میں جب مجھے ضمانت ملنے لگی، تو شراب کا دھندا کرنے کا جھوٹا معاملہ درج کر دیا گیا۔ کورٹ کچہری میں 50 ہزار روپے لگ گئے۔ سر پر 20 ہزار کا قرض بھی آ گیا۔ ‘
شراب بندی نے ایک طرف ہزاروں غریب لوگوں کو جیل میں ڈال دیا ہے، تو دوسری طرف لوگوں کو دوسری نشیلی اشیا کے استعمال کرنےکو بھی مجبور کیا ہے۔ خاص طور پر شہری علاقوں میں ایسا ٹرینڈ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ نشہ مکت کیندرمیں مریضوں کی بڑھتی تعداد اس کی تصدیق کرتی ہے۔جب شراب بندی نافذ ہوئی تھی، تب دیشا نشامکت کیندر میں نشے سے نجات کے لئے آنے والے مریضوں کی تعداد میں کمی آنے لگی تھی، لیکن اب دوبارہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے اور ان میں 80 سے 90 فیصد مریض دوسری نشیلی اشیا کا استعمال کر رہے ہیں۔
پٹنہ واقع دیشا نشامکت کیندرکی انڈر سکریٹری راکھی شرما کہتی ہیں، ‘ شراب بندی قانون نافذ ہونے کے بعد ہمارے سینٹر میں ہر مہینے تقریباً 150 مریض آتے تھے۔ لیکن، ابھی ان کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ان دنوں ہر مہینے 200 سے 225 مریض آ رہے ہیں۔ ‘وہ بتاتی ہیں، ‘ چونکانے والی بات یہ ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ لوگ گانجا، بھانگ، براؤن شوگر، ہوائٹنر، ڈینڈرائٹ وغیرہ کا استعمال کر رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر مریضوں کی عمر 16 سے 25 سال کے درمیان ہے۔ ‘
شراب بندی کے بعد بہار حکومت یہ کہہ کر اپنی پیٹھ خوب تھپتھپا رہی ہے کہ شراب پر پابندی لگنے سے خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد میں کمی آئی ہے۔گزشتہ سال نومبر میں ریاست کے سماجی بہبود محکمہ کی طرف سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی۔ سی ایم نتیش کمار نے خود اس رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کیا تھا۔
رپورٹ پانچ ضلعوں کی 2368 خواتین کے ساتھ بات چیت کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ محض پانچ فیصد خواتین ہی لگاتار جسمانی ظلم اور چھے فیصد خواتین نے اقتصادی تعاون سے محروم ہونے کی شکایت کی۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ شراب بندی کے بعد گھریلو تشدد کے معاملوں میں بھی کمی آئی ہے۔ لیکن، نیشنل کرائم رکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے سال 2016 کے اعداد و شمار اس دعویٰ کا منھ چِڑھا رہے ہیں۔این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2016 میں بہار میں شوہر یا سسرال کے دیگر ممبروں کے ذریعے خاتون پر تشدد کرنے کے کل 3794 معاملے درج کئے گئے، جو سال 2015 سے دو زیادہ تھے۔
وہیں، گھریلو تشدد کی بات کی جائے، تو اس میں بھی اضافہ ہی ہوا ہے۔ این سی آر بی کے مطابق سال 2015 میں بہار میں گھریلو تشدد کے کل 161 معاملے درج کئے گئے تھے، جو سال 2016 میں بڑھکر 171 ہو گئے۔بہار حکومت نے جب بہار شراب بندی اور مصنوعات ایکٹ، 2016 نافذ کیا تھا، تو اس میں کئی سخت اہتمام رکھے گئے تھے، تاکہ سزاکے ڈر سے لوگ شراب چھوڑ دیں۔ ایکٹ میں شراب بنانے، رکھنے، بیچنے اور برآمد کرنے والوں کو اس قانون کے تحت 10 سال سے عمر قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔وہیں، اگر کوئی آدمی شراب پیتا ہے، تو اس کو کم سے کم 5 سال اور زیادہ سے زیادہ 7 سال کی سزا ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی 1 لاکھ سے 7 لاکھ روپے تک جرمانے کا اہتمام ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی طرح کے اہتمام ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ لوگوں میں شراب کو لےکر کوئی خوف نہیں رہ گیا ہے۔ اب یہ ‘ اوپن سیکریٹ ‘ بات ہے کہ بہار میں شراب کی فروخت منظم دھندے کی شکل لے چکی ہے۔پہلے شراب مستند دوکانوں پر ہی ملا کرتی تھی، لیکن اب محض ایک فون کال پر شراب کی ہوم ڈلیوری ہو رہی ہے۔ بس، جیب تھوڑی زیادہ ڈھیلی کرنی پڑتی ہے۔ دیہی علاقوں میں دیسی شراب اب بھی بن رہی ہے۔شراب مافیا کے لئے شراب کا دھندا سونے کے انڈے دینے والی مرغی کی طرح ہے۔ وہیں، غریب اور محنت کش طبقے کے لئے شراب (اکثر دیسی اور تاڑی) نفسیات سے جڑا مسئلہ ہے۔
ارول کے راماپور گاؤں کے ہی چھوٹن مانجھی شراب پینے کے الزام میں دو ہفتے جیل میں گزارکر لوٹے ہیں۔ وہ مزدوری کرتے ہیں۔ ضمانت لینے میں 10 ہزار روپے خرچ ہو گئے۔وہ کہتے ہیں، ‘ میں میٹ بھون رہا تھا۔ میٹ بناکر شراب کے ساتھ کھانے کا من تھا، لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ شراب پینے کی خواہش ہونے پر بھی پولیس پکڑ لیتی ہے۔ پولیس نے جس وقت پکڑا تھا، اس وقت تو شراب پینا دور شراب خریدی بھی نہیں تھی۔ ‘وہ آگے بتاتے ہیں، ‘ دیکھئے، صاحب! ہم لوگ دن بھر محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں۔ شراب نہیں پیئیں گے، تو نیند ہی نہیں آئےگی۔ کیا کریں! ‘
نتیش کمار نے شراب پینے پر پابندی لگائی ہے اور شراب کی جگہ دودھ پینے کو کہا ہے تو شراب چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟اس سوال کا جواب شراب پینے کے الزام میں 15 دن جیل میں گزارکر لوٹے ارول کے ہی نیونا گاؤں کے تپیندر مانجھی کچھ یوں بتاتے ہیں، ‘ زیادہ تھکے رہتے ہیں، تو پیتے ہیں۔ 10 روپے کی تاڑی جسم کے سارے درد ختم دیتی ہے۔ 10 روپے کا دودھ کتنا آئےگا اور اس سے تھکان کتنی دور ہوگی؟ ‘
شراب نہیں چھوڑ پانے کے نفسیاتی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے پٹنہ کے مشہور سائکیٹرسٹ ڈاکٹر ستیہ جیت سنگھ کہتے ہیں، ‘ اچانک شراب چھوڑ دینے سے شرابیوں پر جسمانی اور دماغی اثر پڑتا ہے۔ آدمی کو نیند نہیں آتی ہے اور دماغی حالت بگڑ جاتی ہے۔ جسم میں تھکان آ جاتاہے اور عضلات میں درد ہونے لگتا ہے۔ ‘ڈاکٹر ستییہ جیت سنگھ آگے بتاتے ہیں، ‘ جو باقاعدہ شراب کا استعمال کرتے ہیں وہ الکوہلک ڈیلریم ٹریمینس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ڈیلریم ٹریمینس ہذیان کی حالت ہے۔ اس میں شراب چھوڑنے والا شخص عجیب و غریب غلط فہمی میں رہنے لگتا ہے اور خیالی واقعات دیکھتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ خود کو اور اپنے رشتہ داروں کو پہچان بھی نہیں پاتا۔
ویسے، ان حالات سے نمٹنے کے لئے ریاست کے سرکاری ڈاکٹروں کو خاص ٹریننگ دی گئی تھی اور ہر ضلع ہسپتال میں 15 بیڈ اس طرح کے مریضوں کے لئے رکھا گیا تھا۔ لیکن، دیہی علاقوں میں اس کو اس طور پر مشتہر نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے لوگ بیدار نہیں ہو پائے۔ اسی وجہ سے شراب چھوڑنے پر جب اس طرح کی علامت نظر آئی تو لوگوں نے دوبارہ شراب پینا شروع کر دیا۔
شراب بندی کی وجہ سے ہونے والی پریشانیوں کے مدنظر ریاست کی حزب مخالف پارٹیوں کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت بنتی ہے تو قانون میں تبدیلی کی جائےگی۔راجد کے قومی نائب صدر رگھونش پرساد سنگھ نے اسی سال جنوری میں پریس کانفرنس کر کے کہا تھا کہ اگر ان کی پارٹی کی حکومت بنتی ہے، تو شراب بندی قانون میں ڈھیل دی جائےگی۔ راجد رہنما اور سابق نائب وزیراعلی ٰتیجسوی یادو بھی ایسا ہی وعدہ کر چکے ہیں۔گزشتہ 16 مارچ کو بہار کے سابق وزیراعلیٰ اور ہندوستانی عوام مورچہ (سیکولر) کے مکھیا جیتن رام مانجھی نے بھی کہا تھا کہ اگر بہار میں ان کی حکومت بن جاتی ہے، تو شراب بندی قانون میں تبدیلی کی جائےگی۔
دوسری طرف، نتیش کمار کے لئے شراب بندی اب ناک کا سوال بن گیا ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں اس قانون کو واپس لینے یا پوری طرح سے ترمیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ الٹے انہوں نے شراب بندی کو صحیح سے نافذ کرنے کے لئے انسپکٹر جنرل کا نیا عہدہ تیار کرکے ایک الگ اکائی تیار کر دی ہے۔بہار حکومت کے اس قدم سے کتنا فائدہ ہوگا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائےگا۔ لیکن، موجودہ سچ یہی ہے کہ شراب بندی کی وجہ سے حاشیے پر کھڑے پینٹر، مستان اور للن جیسے ہزاروں بےبس اورغریب لوگ کورٹ کچہری کے چکر میں برباد ہوئے جا رہے ہیں۔
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ