اس طرح کے پاگل پن اور درندگی کے عالم میں ہمارا پورا وجود ساکت ہو جاتا ہے۔ ایک مایوسی بھرا سناٹا سب کو اپنی چپیٹ میں لے لیتا ہے۔ مگر پھر ایک مقام وہ بھی آتا ہے، جہاں یہی مایوسی ایک خوف ناک غصے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ہم میں سے جو لوگ ہندو گھروں میں پیدا ہوئے ہیں، ان میں سے کتنے لوگ ہوںگے جن کے رشتہ داروں یا جان پہچان والوں میں کم سے کم ایک دو لوگ ایسے نہ ہوں جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہوں؟ہم میں سے کتنے ایسے ہوںگے جن کے دوستوں (ایسے مرد اور عورت، جو ظاہری طور پر بہت اخلاص اور انسانیت پسند دکھائی دیتے ہیں) نے حکمراں جماعت کی وحشیانہ بداخلاقی پر آنکھیں نہ موند لی ہوں، اس بداخلاقی کو ہندوستان کی آزادی کا سیاسی راستہ مانکر اس کا گوروگان نہ کیا ہو؟
کیا وہ سارے رشتہ دار اور دوست اپنی نگاہ اور نظریہ اب بھی نہیں بدلیںگے؟ اب، جبکہ یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ جن کو انہوں نے اپنا ووٹ دےکر جتایا تھا وہی آج آٹھ سال کی ایک ننھی بچی سے ریپ کرنے والوں اور قاتلوں کی حمایت میں سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔کیا اب بھی وہ یہ دیکھنے سے چوک جائیںگے کہ اتنی چھوٹی عمر کی لڑکی ہندو ہوتی ہے نہ مسلمان ۔ وہ صرف ایک معصوم بچی ہوتی ہے۔ایک زمانے میں انسانی سماج نے مان لیا تھا کہ فاتح فوجوں کی کی زیادتی اور وحشی سلوک کا زمانہ اب لد چکا۔ دو دہائی بعد نازیوں کے سیاہ سایے کے ابھرنے سے پہلے، پہلی عالمی جنگ کے بعد لیگ آف نیشنس کا قیام ہم سب کے لئے ایک راحت کا سبب تھی۔
راحت اس یقین کی کہ اب مہذب پر امن زندگی ہی پوری انسانیت کی تقدیر ہوگی۔ میں جس ہندوستان میں پیدا ہوئی، پلی بڑھی، اس کے اوپر سے استحصال کی بنیاد پر ٹکے برٹش سامراج کا پرچم اتر چکا تھا۔یہ نہرو کے بعد کا زمانہ تھا۔ یہ ایک ایسا ملک تھا جہاں مفروضے تھے اور سماجوادی خواب فضا میں تیر رہے تھے۔ فسادات تب بھی ہوتے تھے۔ ملک تب بھی جب تب دہل جاتا تھا۔ پھر بھی، کل ملاکر اس بات پر ایک چو طرفہ رضامندی بن گئی تھی کہ ریاست اور عدلیہ ان مغربی اداروں کی روایتوں پر ایمانداری سے عمل کریںگے جن کے سانچے میں وہ ڈھلے ہوئے تھے۔
90 کی دہائی کی شروعات تک مجھے پورا یقین رہا کہ وہ عہد وسطی کی زیادتی اب جا چکی ؛ اب سیاسی دشمنوں کو زہر نہیں دیا جائےگا ؛ ایک فاتح فوج کی جیت کی نشانی کے طور پر عورتوں اور بچوں کی لاشوں کے انبار نہیں لگائے جائیںگے۔میرا یہ بھرم تب ٹوٹا جب ہمارے دیکھتے دیکھتے کانگریس پارٹی بے انتہا بد عنوانی میں ڈوبتی چلی گئی اور بابری مسجد کی توڑپھوڑ پر بھی اس نے چپ چاپ آنکھیں پھیر لیں۔اپنی بھاری بھرکم انتخابی کامیابیوں کے تانگے پر سوار اور جمہوری طریقے سے چنی گئی نئی ہندو شدت پسند سیاسی فوج نے میرے اس اعتماد کو پوری طرح جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے۔
جب کٹھوعہ میں اس بچی کے ساتھ ہوئی زیادتی کی خبر اور تفصیلات چھپنے شروع ہوئے، اس وقت میں ایک فلائٹ پکڑنے جا رہی تھی۔ میں ایئر پورٹ کے ماحول کی امیدوں کے مطابق معمول اور چست دکھنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔ مگر میرے اندر تو ایک شور مچا ہوا تھا۔رہ رہ کر میرے اندر ایک کراہ اٹھتی تھی ؛ اس وقت وہ وحشی اس لڑکی کے گلے میں نشے کی گولیاں ٹھونس رہے ہوںگے ؛ جب تم اپنے لئے ٹوسٹ سینک رہی تھی، وہ اس معصوم بچی کو اپنی ہوس اور درندگی کا شکار بنا رہے ہوںگے ؛ وہ بالغ عقلمند مرد باری باری سے اس لڑکی کے جسم کو اپنی ہوس سے زخمی کررہے ہوںگے ؛ جب تم ایئر پورٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی، اس کا سر پتھروں پر پٹکا جا رہا ہوگا ؛ مندر میں اس کا ریپ ہو رہا ہوگا، وہیں انہوں نے اس کو بستر کے نیچے چھپایا ہوگا۔ آخر میں اسی کے کپڑوں سے اس کا گلا گھونٹ دیا ہوگا۔
اس کے بعد، انہی آدمیوں میں سے ایک اس لڑکی کی تلاش کے لئے نکلے دستے کا بھی حصہ تھا۔ وجہ، وہ تو پولیس والا تھا۔ اس کے بعد کشمیر کے وکیل سڑکوں پر اتر آئے تاکہ پولیس والوں پر ریپ یا اس میں شامل ہونے کا الزام نہ لگ جائے۔بہت ساری عورتیں بھی کھل کرریپ کرنے والوں کی حمایت میں اتر آئیں ؛ کیونکہ یہ مرد ہندو تھے اور جس بچی کا گینگ ریپ کرکے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا وہ ایک مسلم گڈریا کی بیٹی تھی۔
اس طرح کے پاگل پن اور درندگی کے عالم میں ہمارا پورا وجود ساکت پڑ جاتا ہے۔ ایک مایوسی بھرا سناٹا سب کو اپنی چپیٹ میں لے لیتا ہے۔ مگر پھر ایک مقام وہ بھی آتا ہے جہاں یہی مایوسی ایک خوف ناک غصے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ایئر پورٹ پر میرے آس پاس طرح طرح کے کردار تھے۔ ایک عورت اس بات پر بحث کر رہی تھی کہ اس کو چکن نوڈلس کیوں دئے گئے ہیں جبکہ اس نے تو ویجٹیبل نوڈلس مانگے تھے۔لڑکیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو اپنی سیر سپاٹے کے پہلے دن فلم دیکھنے کی اسکیم بنا رہی ہے۔ میں لسی کا گھونٹ لیتے ہوئے سوچ رہی ہوں کہ میرے اندر یہ عجیب و غریب ٹوٹن، ایک ایسا بے شکل احساس کہاں سے پیدا ہو گیا جو کسی اپنے کے مرنے پر پیدا ہوتا ہے۔
مانو میرے اور عام زندگی کے درمیان ایک دھندلی سی کانچ کی دیوار کھڑی ہو گئی ہو۔ پر میرا اپنا تو کوئی نہیں مرا تھا۔ اس بچی کو میں نے کبھی دیکھا نہیں تھا۔ کبھی جانا نہیں تھا۔ایک ننھی لڑکی جو روزانہ اپنی فیملی کی مویشیوں کو ہانککر واپس لانے کے لئے نکلی تھی اور کبھی نہیں لوٹی۔اس کو نشے کی دوائیاں دی گئیں۔ اس کو قید کر لیا گیا۔ ہفتے بھر تک اس کے ساتھ بار بار ریپ کیا گیا۔ اس کواذیت دینے کے بعد پتھر پر پٹک پٹک کر اس کو مار دیا گیا۔میرے اندر چل رہی اس خوف ناک اٹھا پٹک میں مجھے آڈن کی ایک پرانی نظم یاد آ گئی :
تباہی کے منظر سے رخ اپنا بدلکر،
سب بڑے اطمینان سے بڑھ جاتے ہیں…
وہ عالی شان، نازک، حسین جہاز
جس نے ضرور دیکھا ہوگا وہ حیرت انگیز منظر- ایک لڑکا آسمان سے گر رہا ہے
اس کو بھی کہیں پہنچنا تھا سو چپ چاپ بڑھتا چلا گیا
یہ نظم انجانے پن کے بارے میں ہے، ہماری خاموشی، ہماری غیرجانب داری کے بارے میں نہیں ہے۔ وہ کتا جو ‘ اپنے کتا جیسی زندگی جیتے چلے جاتے ہیں اور ظالم کا گھوڑا ایک درخت پر اپنی معصوم پیٹھ رگڑتا ہے ‘، اس کو کوئی اندازہ نہیں ہے کہ کہیں کسی کو اذیتیں دی جا رہی ہیں، کہیں کوئی لڑکا گرکر مرنے والا ہے۔
مگر جو جانتے ہیں، ان کا کیا؟
نربھیا کے ریپ کے بعد دہلی میں ایک بے مثال سناٹا پسر گیا تھا۔ مجھے یاد ہے۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے قتل عام کے وقت پھیلی ملک گیر دہشت بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔آج ویسی دہشت نہیں ہے۔ یہ چیزیں تو ہوتی ہی ہیں، کہیں اور ہوتی ہوںگی، کسی اور کے ساتھ ہوتی ہوںگی، ہمیں کیا۔ ایئر پورٹ پر کسی قومی بحران جیسا کوئی احساس نہیں تھا۔اگر آپ کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ آپ ہوائی جہاز میں سفر کر سکتے ہیں، اگر آپ دلت یا مسلمان نہیں ہیں تو آپ ہمیشہ ایک بلیٹ پروف ایئرکنڈیشنڈ ڈھکن یا خول میں رہ سکتے ہیں۔ اور جن کے پاس یہ ڈھکن نہیں ہے وہ؟
میں حیدر آباد میں ایک مسلم اکثریتی اسکول میں پڑھی ہوں۔ لہذا میرے بچپن کی زیادہ تر سہیلیاں مسلمان تھیں۔ اس عمر میں مجھے اپنے اقلیتی ہندوپن کا کوئی علم ہی نہیں تھا۔ نہ ہی میرے دوستوں کو ان کے مسلم پنے کا کوئی پتا تھا۔مجھے کچھ کچھ احساس ہے کہ آج میری وہ سہیلیاں اور دوست کہاں ہیں؛خاموش، سمٹے بیٹھے ہوںگے کہیں۔ آج وہ حاشیے کے پرے ڈھکیل دیا محسوسکر رہے ہیں۔وہ پیچھا کرتے کتوں کے گروہ سے گھرا اور خوف زدہ محسوس کرتے ہوںگے۔ یہ ملک وہ نہیں رہا جہاں ہم ساتھ ساتھ پلے بڑھے تھے۔ جہاں سیکولرزم کا سبق ہمیں لازمی طور پر سکھا دیا جاتا تھا۔
سیاستدانوں کا بکاؤپن، ان سے ناامیدی ایک عام، اور روزمرہ کی بات تھی۔ دنیا کے ہمارے حصے میں یہ سیاست کی شکل و صورت کا ایک ایسا پہلو تھا جس کی پروا کرنا ضروری نہیں تھا۔پھر بھی یہ ایک ایسا ملک تھا جہاں ماں باپ آپ کو اخلاقیات اور مہمان نوازی سکھانے کی زیادہ پروا کرتے تھے، صرف زندہ رہنے کا فن سکھانا ہی سب کچھ نہیں تھا۔مگر مجرموں کے گروہ کے ذریعے چلائے جا رہے ملک میں زندہ رہنے کی جدو جہد میں مبتلا ایک عام شہری کے طور پر آپ کیا کر سکتے ہیں؟
ایسا گروہ جس کا پھیلاؤ شاید کسی کی بھی پہنچ اور دائرے سے باہر ہے۔ اعتماد کے ساتھ کھیلنے میں اتنا مہلک گروہ کہ کروڑوں لوگ اس کے ہر جھوٹ پر آنکھ موندکر یقین کر لیتے ہیں۔اس وقت آپ کیا کر سکتے ہیں جب آپ اپنے محافظ کو ہی اپنے قاتل میں تبدیل ہوتے دیکھ رہے ہیں؟ اور ایک تنہا قلم نویس کے طور پر تو آپ کیا ہی کر سکتے ہیں؟جنگ کے دور میں ہر فرد سپاہی نہیں ہوتا۔ نہ ہی آج کی طرح ہر شخص کوئی وکیل یا ایکٹوسٹ ہو سکتا ہے۔ ہمیں معماروں کی بھی ضرورت ہے، نل ساز کی بھی، اساتذہ کی بھی اور ڈاکٹروں کی بھی۔ ہمیں مکان بھی بنانے ہیں۔ بچوں کو بھی پڑھانا ہے۔ رستے نلوں کو بھی صحیح کرنا ہے۔
لمبے وقت تک میں اپنے آپ کو یہ سمجھاتی رہی کہ میری سب سے بڑی اچھائی اسی میں ہے کہ میں اپنا کام اچھی طرح کرتی رہوں۔ کیا میرا ایسا سوچنا ایک سچ تھا یا یہ اس طریقے سے جیتے چلے جانے کی اپنی چاہ کو جائز ٹھہرانے کا ایک طریقہ بھر تھا جس طریقے سے میں جیتی چلی آئی ہوں؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔دوسرے قلمکار بھی کم وبیش یہی کہہ رہے ہیں ؛لکھنے والے کا کام ہے کتابیں لکھنا، لوگوں کو سوچنے کے لئے خوراک دینا جس سے پڑھنے والوں کی دنیا بدل جائے بھلےہی وہ صرف ان کچھ دنوں کے لئے بدلے جن دنوں وہ اس کتاب کو پڑھ رہے ہیں۔
قلمکار کھوجی صحافی نہیں ہوا کرتے۔ اور ایک ناول نویس کے لئے تو روزانہ، لمحاتی واقعات پر کوئی رد عمل دینا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔لیونیلشریور کہتی ہیں، ‘ ایک ناولسٹ کے لئے کسی متحرک نشانے پر اپنی کہانی بننا بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ ‘ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ ناولسٹوں کو تب زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جب وہ سیاسی سُر والے ناول لکھتے ہوں۔
ان کو ہمیشہ ہی ادبی ایکٹوسٹ ہونے کا بوجھ ڈھونا پڑتا ہے۔ اس طرح کے ایک ملک میں کوئی مضمون نگار بھلا اور کسی بھی طریقے سے بامعنی رہ بھی کیسے سکتا ہے؟ جب آپ کا گھر دھو-دھو جل رہا ہو، کیا اس وقت آپ ایک بےداغ پیراگراف رچ سکتی ہیں؟میں ایک چھوٹے سے پہاڑی قصبہ میں رہتی ہوں۔ وہاں نو سال کی ایک لڑکی انگریزی بولنا سیکھنے کے لئے میرے پاس آتی ہے۔ وہ گڈریا کی فیملی سے ہے۔ وہ ایک سرکاری اسکول میں جاتی ہے جہاں پڑھائی-لکھائی کے نام پر اس کو زیادہ کچھ حاصل نہیں ہو پاتا ہے۔
بڑی ہوکر وہ ایکٹرس بننا چاہتی ہے۔ اسکول سے لوٹکر وہ شام کو اپنے مویشیوں کو واپس لانے کے لئے نکل پڑتی ہے۔ اپنی بینت ہوا میں لہراتے ہوئے، اپنے کتوں کے سوا کسی بھی طرح کی حفاظت کے بغیر وہ گھنے جنگلات میں بڑھتی چلی جاتی ہے۔کچھ دور تک میں بھی اس کے ساتھ جاتی ہوں۔ ہم دونوں بتیاتے ہیں۔ وہ رک رککر مگر انگریزی میں بات کرتی ہے۔ بیچ بیچ میں میں اس کے تلفظ اور قواعد کی غلطیوں پر اس کو ٹوک دیتی ہوں۔
ایک دوری تک ساتھ چلنے کے بعد میں لوٹ آتی ہوں۔ وہ اکیلی آگے بڑھ جاتی ہے۔ ہمارا قصبہ محفوظ ہے۔ میری اس ننھی سہیلی کو جنگلی جانوروں کے علاوہ کسی اور کا خوف نہیں ہے۔
(انورادھا رائے ناول نگار ہیں۔ ان کا چوتھا ناول ‘ آل دی لائیوز وی نیور لوڈ ‘ جون میں شائع ہونے والا ہے۔ یہ مضمون انگریزی میں شائع ہوا تھا۔)
Categories: فکر و نظر