جو الزامات لگائے گئے ہیں ان پر بات کم ہو رہی ہے۔ ان سے فوکس شفٹ ہو گئی ہے۔ اچھا ہوتا کہ ان الزامات پر گفتگو ہوتی جس سے لوگوں کو پتا چلتا کہ کیا یہ الزامات Impeachmentکے لئے کافی ہیں؟
راجیہ سبھا کے 65 موجودہ رکن پارلیامان نے موجودہ چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف Impeachmentکی تجویز پر دستخط کر دئے ہیں۔ اس کے علاوہ 6 رکن پارلیامان کے بھی دستخط ہیں مگر وہ ریٹائر ہوچکے ہیں۔ یہ تجویز راجیہ سبھا کے چیئر مین یعنی ہندوستان کے نائب صدر کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہندوستان کی سیاست ایک چیلنج بھرے دور میں پہنچ گئی ہے۔اس واقعہ کو ذمہ داری کے ساتھ دیکھئے اور ہر بات کو جاننے کی کوشش کیجئے۔ ہندوستان کی جمہوریت کھلونا نہیں ہے کہ ہر سوال کو چینلوں کے اسٹوڈیو میں فٹ بال کی طرح کھیلا جائے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو ججوں اور وکیلوں کی برادری کو تقسیم کر دےگا۔ اگر ایک ناظر اور قاری کی طرح سبھی کے خیالات کو توجہ سے سنتے چلیںگے تو یہ آپ کے لئے بھی ایک موقع ہے۔
کانگریس رکن پارلیامان کپل سبل نے Impeachment کے بارے میں پریس کانفرنس میں ساری باتوں کو وضاحت کے ساتھ رکھا۔ سبل کا تاثر بتا رہا تھا کہ وہ اس تجویز کے ساتھ ایک آگ سے گزر رہے ہیں۔ اس کا کچھ بھی نتیجہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو آئینی اور قانونی دائرے میں ہی رکھا۔حالانکہ میڈیا اتنے بڑے سنگین مسئلے کے لئے اپنے سوالوں کے ساتھ تیار نہیں تھی۔ وہی رٹا رٹایا فریم ورک تھا کہ جج لویا کے معاملے کے فیصلے کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے، ابھی کیوں اٹھایا، پہلے کیوں نہیں اٹھایا۔ سبل کیا، ان سوالوں کا جواب کسی کے لئے مشکل نہیں ہوتا۔ پر خیر۔
سبل نے کہا کہ فردجرم میں پانچ الزامات ہیں مگر یہ بد عنوانی کے نہیں ہیں۔ misbehavior یعنی ناروا سلوک کے ہیں کیونکہ Impeachment بد عنوانی کے معاملے میں نہیں ہوتا ہے۔ یہ ان کا کہنا ہے۔ اس لئے جج لویا کا معاملہ فردجرم میں آ ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ ایک فیصلہ ہے، جس سے کوئی متفق ہو سکتا ہے، عدم اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔ پر ایک چینل پر وکیل صاحب بول رہے تھے کہ Impeachment تبھی ہوتا ہے جب بد عنوانی کے الزامات ہوتے ہیں۔ صحیح کیا ہے، جاننے کی کوشش کیجئے۔
ان پانچ الزامات میں سے اہم الزام الہ آباد ہائی کورٹ کے جج کو لےکر ہے۔ سی بی آئی چیف جسٹس کے پاس ان کے خلاف ثبوت لےکر گئی تھی اور مقدمہ چلانے کی اجازت مانگی جو چیف جسٹس مشرا نے نہیں دی۔ سبل نے کہا کہ کیوں نہیں دی۔ کیا اسباب تھے، یہ تفتیش سے سامنے آئےگا۔دوسرا الزام تھا کہ جب چیف جسٹس مشرا اڑیشہ ہائی کورٹ میں وکیل تھے تب غلط حلف نامے کی بنیاد پر زمین لی تھی۔ اےڈی ایم نے 1985 میں ہی کینسل کر دیا تھا مگر 2012 تک وہ زمین نہیں لوٹائی۔ 2012 میں جب سپریم کورٹ میں آئے تب لوٹائی۔ ایک الزام ایجوکیشنل ٹرسٹ کے معاملے میں سماعت کو لےکر بھی ہے۔
تیسرا الزام ہے کہ کون سا مقدمہ کس بنچ میں جائےگا، اس کا فیصلہ چیف جسٹس کرتے ہیں۔ ان کو ماسمٹر آف روسٹر کہا جاتا ہے۔ الزام ہے کہ ماسمٹر آف روسٹر ہوتے ہوئے چیف جسٹس نے کئی حساس کیس کو خاص طرح کی بنچ کو ہی دئے۔ اسی کے تناظر میں 12 جنوری 2018 کو سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے پریس کانفرنس کرکے الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ عدلیہ آزاد نہیں رہےگی تو جمہوریت نہیں بچےگی۔اس پر کانگریس نے کہا کہ ان کو لگا کہ یہ معاملہ عدلیہ کے اندر سلجھ جائےگا مگر نہیں سلجھا۔ وہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا لیکن میڈیا نے اس کا مذاق اڑا دیا۔ چار ججوں کے پریس کانفرنس کو اس بنیاد پر خارج کر دیا کہ باقی ججوں نے تو کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہی چار کیوں شکایت کر رہے ہیں اور ان چار کی شکایتوں کو کیوں نہیں سلجھایا جانا چاہئے۔ پر خیر۔
جو الزامات لگائے گئے ہیں ان پر بات کم ہو رہی ہے۔ ان سے فوکس شفٹ ہو گئی ہے۔ اچھا ہوتا کہ ان الزامات پر گفتگو ہوتی جس سے ناظرین کو پتا چلتا کہ کیا یہ الزامات Impeachmentکے لئے کافی ہیں؟ گودی میڈیا اپنی طرف سے کہنے لگا ہے کہ جسٹس مشرا بابری مسجد توڑپھوڑ کے معاملے کا فیصلہ دیکھ رہے ہیں، اس لئے یہ تجویز لائی گئی۔کیا گودی میڈیا یہ مان رہی ہے کہ جسٹس مشرا رام مندر کے حق میں فیصلہ دیںگے؟ اس کے پاس یہ ماننے کی کیا وجہ ہے کہ دوسرے جج خلاف میں فیصلہ دیںگے؟ Impeachment کے الزامات کو خارج کرنے کے سلسلے میں گودی میڈیا بھی حد وں کو پارکر رہا ہے۔
اس معاملے میں آپ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ یاد کیجئے۔ ایک حصے پر مندر بنانے کی اجازت تو مل ہی گئی ہے تو جسٹس مشرا کے دیگر فیصلوں کو لےکر ادھر ادھر کی بات کیوں ہو رہی ہے۔کیا آپ کو یہ الزام سنگین نہیں لگتا ہے کہ خاص ججوں کو حساس معاملے نہیں دئے جا رہے ہیں؟ ایک الزام ہے کہ جسٹس چیلمیشور 9 نومبر 2017 کو سماعت کا حکم دیتے ہیں مگر 6 نومبر کو حکم آتا ہے کہ بنچ بدل گئی ہے۔ کیا مقدمہ کے درمیان بنچ بدل سکتی ہے؟ ہم نہیں جانتے ہیں۔ آپ جاننے کی کوشش کیجئے۔
کیا چیف جسٹس کو جسٹس چیلمیشور پر اعتماد نہیں تھا؟ ہم ایک عام قاری کی طرح سے دیکھیں تو ان سوالوں کا جواب یہی ہے کہ ہم ہر بات کو جانیں۔ سوال ضرور کیجئے مگر سپریم کورٹ، چیف جسٹس میں بھی اعتماد بنائے رکھئے۔کانگریس کے گھر میں ہی اس کو لےکر اتفاق نہیں ہے۔ میڈیا کہہ رہی ہے کہ کانگریس کے پانچ وکیل رہنماؤں نے دستخط نہیں کئے ہیں۔ ان میں سے منیش تیواری اور سلمان خورشید ہیڈلائن میں چل رہے ہیں مگر کیا یہ دونوں راجیہ سبھا کے ممبر ہیں؟ وہ غیرمتفق ہیں۔
کچھ چینل ٹھیک پیش کر رہے تھے کہ وہ ممبر نہیں ہیں، پھر بھی تجویز سے غیرمتفق ہیں۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ ضرور ممبر ہیں اور انہوں نے دستخط نہیں کئے۔ ابھشیک منو سنگھوی نے Impeachment پر سائن کرنے سے منع کر دیا۔ یہ بہت اہم ہے۔ کانگریس کو یہ داؤں مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔ کانگریس نے تو قدم بڑھا دیا ہے۔ پارٹی کہہ رہی ہے کہ راجیہ سبھا کے بعد سپریم کورٹ جائےگی۔چینلوں پر وکیل لوگ اب کچھ بھی بولنے لگے ہیں۔ ایک وکیل نے کہا کہ اگر پارلیامنٹ میں ایک پارٹی کی اکثریت ہو تو وہ عدلیہ کا منھ بند کر سکتی ہے۔ پر اس وقت اکثریت کس کی ہے، سوال تو یہی ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ پہلے سارے الزامات پر بات ہو۔ ساتھ ساتھ سیاسی سوالوں پر بھی گفتگو چلے مگر یہ نہ ہو کہ سیاست پر ہی گفتگو ہو اور الزام ات غائب ہو جائیں۔
ایک چینل پر ایک سابق جج نے جیسے کہا کہ جلدی میں لیا گیا فیصلہ ہے، اینکر نے فوراً کہا کہ میں آپ کی رائے کی تعریف کرتا ہوں، ناظرین کے درمیان یہ تاثر گیا کہ سابق جج نے مذمت کی ہے، جبکہ جج صاحب نے صاف کیا کہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے تھا۔ تھوڑا اور انتظار کر سکتے تھے۔کپل سبل نے اس پوائنٹ پر پریس کانفرنس میں کہا کہ 12 جنوری کو چار ججوں نے الزام لگائے۔ جنوری، فروری، مارچ اور اب یہ اپریل ہے۔ ہم نے انتظار تو کیا ہی۔ پھر بھی میڈیا سوال کر رہی ہے کہ ابھی تجویز کیوں پیش کیا؟
‘ ٹائمنگ از اے بگ کویشچن ‘ انگریزی کے اینکروں کا یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ جبکہ ‘ ٹائمنگ ان اے نوکویشچن ‘ کیا کانگریس جنوری میں ہی تجویز لاتی تو میڈیا اس کی حمایت کرتی؟ چونکہ اینکروں کے پاس Impeachment جیسے موضوع پر آئینی جانکاریاں کم ہوتی ہیں تو وقت کو بھرنے کے لئے یہ سب سوال پوچھتے رہتے ہیں۔ بہت کم اینکر ہیں جو قانونی معاملوں میں ماہر ہوتے ہیں۔ساری نگاہیں نائب صدر کی طرف ہیں۔ کیا وہ تجویز منظور کریںگے؟ اس کے لئے ضروری 50 رکن پارلیامان کے دستخط ہیں۔ Impeachment تجویز سیاسی جماعتوں کی طرف سے پیش نہیں کئے جاتے ہیں۔ رکن پارلیامان کی طرف سے کئے جاتے ہیں جو سیاسی جماعتوں کے ممبر ہو سکتے ہیں۔ یہ سبل نے کہا ہے۔
سبل نے کہا کہ ہم اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ جمہوریت خطرے میں ہے۔ بی جے پی کے جواب کو بھی غور سے سنئے۔ یہ بحث آپ کے لئے چیلنج ہے۔ آئین، مجلس عاملہ، قانون ساز مجلس اور عدلیہ کے رشتوں کو سمجھنے کے لئے۔ اس لئے پہلے نوٹس بنائیے۔ میں بھی بنا رہا ہوں۔جب یہ سب چل رہا تھا اسی وقت ٹی وی پر ایک اور خبر فلیش ہو رہی تھی کہ نرودا پاٹیا فسادات کی ملزم مایا کوڈنانی بری ہو گئی ہیں۔ ان کو اسپیشل کورٹ نے قصوروار مانا تھا۔ Impeachment تو نہیں مگر عدلیہ کی جوابدہی پر بات تو ہونی چاہئے۔ سب چھوٹ ہی جاتے ہیں تو ان کو دس دس سال جیل میں کیوں رکھا جاتا ہے۔ چاہے وہ مایا ہوں، اسیمانند ہوں یا عامر ہو یا 2002 کے اکشردھام حملے کا وہ 6 ملزم جن کو 12 سال مفت میں جیل کی سزا کاٹنی پڑی۔
Categories: فکر و نظر